انسان کا حقیقی مسئلہ نفسیاتی ہے
میرا یہ ماننا ہے کہ نفسیاتی دکھ اور تکلیف ہی انسان کو تباہ کرتی ہے۔جسمانی درد اور تکلیف تو زندگی کا حصہ ہے،اس لئےجسمانی درد مسائل پیدا نہیں کرتے ۔مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان مسائل کے بارے میں دانشمندانہ یا جاہلانہ انداز میں سوچتا ہے۔جب انسان سوچتا ہے کہ وہ ایک دن بوڑھا ہو جائے گا تو وہ خوف زدہ ہوجاتا ہے ۔لیکن کیا کبھی کسی نے بوڑھے انسان کو بوڑھاپے کی وجہ سے پریشان ہوتا دیکھا ہے ۔کیونکہ بوڑھا انسان کبھی بھی بوڑھاپے کی وجہ سے پریشان نہیں ہوتا ۔جب انسان کسی بیماری کے بارے میں سوچتا ہے تو وہ خوف زدہ ہوجاتا ہے ،لیکن جب وہ بیماری لاحق ہوجائے تو خوف کی شدت پہلے اور آخر میں ختم ہو جاتی ہے ،پھر وہ بیماری اس کے لئے مسئلہ نہیں رہتی ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جب انسان حقیقت کو قبول کرلیتا ہے تو پھر شدت غم یا شدت درد کا احساس نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے ۔اس لئے انسان کا اصل مسئلہ نفسیاتی ہے ۔موت کے بارے میں سوچتے رہو گے،تو خوف زدہ رہو گے ۔لیکن موت واقع ہو جائے تو خوف ختم ہوجاتا ہے ۔خوف ہمیشہ مستقبل کے ساتھ جڑا ہوا ہوتا ہے ،حال یا اب میں خوف کا کوئی وجود نہیں ہوتا ۔جب انسان کے نفسیاتی مسائل نہیں رہیں گے اس وقت وہ درد و تکلیف سے نجات پا جائے گا ۔نفسیاتی مسائل ماضی اور مستقبل کے ساتھ ہوتے ہیں ،حال کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔انسانی زہن کا تعلق حال کے ساتھ نہیں ہوتا کیونکہ حال حقیقت کا نام ہے ،حقیقت اور انسانی زہن نے کبھی ایک دوسرے کا چہرہ تک نہیں دیکھا ۔حقیقت وہ ہے جس سے زہن اور دماغ ناواقف ہیں ۔ایک معروف قصہ یا خیالی داستان ہے کہ ایک مرتبہ تاریکی نے خدا تک رسائی حاصل کرلی ،اور کہا بہت ہو چکا ،آپ کا سورج ہمیشہ میرا شکار کرنے کے لئے بیتاب رہتا ہے ۔اس سورج کی وجہ سے میں پریشان رہتی ہوں،مجھے یہ سورج کہیں آرام نہیں کرنے دیتا ۔میں نے سورج کا کیا بگاڑا ہے،کیوں یہ سورج میرے پیچھے پڑا ہوا ہے ،یہ بے انصافی ہے،انصاف کے لئے آئے خدا تیرے پاس آئی ہوں۔خدا نے سورج کو بلایا ،اور پوچھا ،کیوں تم اس بیچاری تاریکی کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہو ،سورج نے کہا ،میں تو تاریکی کو جانتا تک نہیں ،اسے کبھی دیکھا تک نہیں ،آپ اس تاریکی کو میرے سامنے لائیں ،پھر کچھ کہہ سکتا ہوں ؟کیس ابھی تک پینڈنگ ہے ،کیونکہ تاریکی آج تک سورج کے سامنے پیش نہیں ہوئی ۔اس کہانی کو سنانے کا مقصد یہ تھا کہ یہ دونوں سورج اور تاریکی کبھی اکھٹے نہیں رہ سکتے ۔یہ ایک دوسرے سے مقابلہ نہیں کرتے ۔جب سورج ہوگا ،تو تاریکی کا نام و نشان تک نہیں ہوگا اور جب تاریکی چھائے گی،سورج کا نام و نشان تک نہیں ہوگا ۔یہی رشتہ ہے زہن اور حقیقت کا ۔یہ ہے نفسیاتی مسئلہ ۔حقیقت کبھی درد ،تکلیف اور کسی قسم کا مسئلہ نہیں ہوتی ،تکلیف اور درد تو صرف نفسیاتی ہوتے ہیں ۔انسان کی ٹانگ ٹوٹ جائے،انسان اندھا ہو جائے ،اسے کینسر ہو جائے،یا اس کی ایکسیڈنٹ میں موت واقع ہو جائے ،یا وہ کمرے میں بیٹھا ہو اور چھت گر جائے ،یہ تو ہوگا ہی ہوگا ۔انسان کے پاس مکمل طور پر محفوظ رہنے کا کوئی راستہ نہیں ۔بستر پر بھی انسان مر جاتا ہے ،بلکہ نوے فیصد اموات بستر پر ہی ہوتی ہیں ۔رات کو سونا کیسے بند کر دے گا انسان ،زیادہ اموات سونے کے دوران ہی ہوتی ہیں ۔لیکن اگر وہ یہ سوچے کے اسے کینسر ہو سکتا ہے اور پھر وہ سوچتا رہے تو یہ نفسیاتی درد ہے ۔یہ موت سے بھی بدترین ہے ۔نفسیاتی مسائل ہی صرف مسائل ہیں ۔اسی وجہ سے وسوسے پیدا ہوتے ہیں ،دماغ کا خلل انسان کی نفسیات کی وجہ سے ہے ۔ہم دماغی مرض اور پاگل پن کا شکار ہیں ،انتہا پسد اور دہشت گرد ہیں ،اس کی وجہ نفسیاتی ہے ۔انسان کے اندر کی دنیا میں نفسیاتی مسائل ہی شگاف ڈالتے ہیں ۔انسان سوچے کہ وہ معذور ہو سکتا ہے ،اس خوف کی وجہ سے وہ معذور ہو جاتا ہے ۔ہم نہیں دیکھتے کہ ایک اندھا انسان سڑک پر چل رہا ہو تا ہے ،اس کا مطلب اندھا پن بزات خود ایک مسئلہ نہیں ،ہم ہر روز بھکاریوں کو سڑکوں پر دیکھتے ہیں ،ان کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی ہوتی ہیں ،کسی کے ہاتھ نہیں ہوتے ،تو کسی کے بازو ۔لیکن وہ بیٹھے ہوتے ہیں ،کبھی کبھار یہ بھکاری مسکرا بھی رہے ہوتے ہیں ۔سرگوشیاں بھی کررہے ہوتے ہیں اور ہم جیسے انسانوں پر ہنس بھی رہے ہوتے ہین ۔انسانو صرف زندگی پر نگاہ ڈالو،زندگی کبھی مسئلہ نہیں ہوتی ۔انسان کے پاس اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرنے کی بے پناہ طاقت اور صلاحیت ہے ۔لیکن ان کے پاس مستقبل میں ایڈجسٹ ہونے کی صلاحیت نہیں ۔جب انسان مستقبل میں اپنے آپ کو محفوظ کرنے کے بارے میں سوچے گا تو پھر بحران پیدا ہوگا ۔پھر کڑوروں درد ہیں ،تکلیفیں ہیں ،مسائل ہیں ۔پھر تو مسائل ،مسائل اور مسائل ہی ہیں ،درد،درد اور درد ہی ہیں ۔پھر اس مستقبل کی وجہ سے انسان خودکشی بھی کرتا ہے ۔انسانو زہن کا ساتھ چھوڑو اور حقیقت کا سامنا کرو ۔نفسیاتی مسائل کی وجہ وہ خلاء ہے جو مستقبل اور ماضی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے ۔حال میں کوئی خلاء نہیں ،حال میں چیزیں واقع ہورہی ہوتی ہیں ،سوچنے کا وقت کہاں،انسان مستقبل اور ماضی کے بارے میں سوچ سکتا ہے کیونکہ درمیان میں فاصلہ ہے ۔یہ وہی فاصلہ ہے جس کی وجہ سے انسان درد ،تکلیف اور مسائل کا شکار ہوتا ہے ۔یہ انسان زیادہ سوچتے ہیں ،اگلی زندگی یعنی مرنے کے بعد کی زندگی ،اسی وجہ سے درد میں ہیں ،تکلیف میں ہیں ،مسائل میں ہیں ،دہشت گردی میں ہیں ،انتہا پسندی کا شکار ہیں اور خود کش حملے کررہے ہیں ۔اس فاصلے یا خلاء کو ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔ہم انسانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ موت سے پہلے ہی ہماری موت ہو گئی ہے ۔ہم انسان حال میں رہنا جانتے ہی نہیں ،ہم ہمیشہ ماضی اور مستقبل کا سوچتے رہتے ہیں ، نفسیاتی مسائل کی وجہ سے ہی ہم لاشیں بنکر رہ گئے ہیں ۔اگر انسان کو مکمل سیکیورٹی چاہیئے تو وہ پہلے ہی قبر میں انٹری مار دے اور مکمل محفوظ ہو جائے ۔درد اور فرحت ساتھ ساتھ چلتے ہیں ،جیسے دن اور رات ،جیسے پیدائش اور موت ،جیسے محبت اور نفرت ۔انسان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے جسم کو جانتا ہے ،اپنے اندر کو نہیں جانتا ۔جب انسان ہنستے ہنستے مرتا ہے تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ جب زندہ تھا تو قہقہوں کے ساتھ رہا ،حقیقت کے ساتھ رہا ،حال کے ساتھ رہا ۔درد اور تکلیف میں حقیقت کا سامنا کرنا چاہیئے ۔سر میں درد ہے ،بلکل درد ہے ،لیکن یہ حقیقت ہے ۔اسے اچھا یا برا کہہ کر کیا کر سکتے ہو ۔اس کا سامنا کرو ،یہ ختم ہو جائے گا ۔پھول ایک حقیقت ہے ،لیکن کیا پھول کے ساتھ لگا کانٹا حقیقت نہیں ۔دن کا نکلنا ایک حقیقت ہے ،لیکن رات بھی تو ایک حقیقت ہے ۔اسی طرح سر ایک حقیقت ہے اور سر کا درد بھی ایک حقیقت ہے ۔آج سے تقریبا دو سال قبل میرا ایکسیڈنٹ ہوا تھا ،ہاتھ کی دو انگلیاں چھ جگہوں سے ٹوٹ گئیں تھی ،آپریشن ہوا ،ٹھیک ہو گئی ،لیکن یہ حقیقت ہے کہ میں ایک زمانے تک ایکسیڈنت کے خوف میں مبتلا رہا ۔پھر اس حادثے کا جب سامنا کیا ،اس کو انجوائے کیا ،وہ وقت اچھا گزرا ۔اب وہی انگلیاں ہیں ،کام بھی کررہی ہیں ،کوئی درد اور تکلیف نہیں رہی ۔انسان درد،تکلیف اور مسائل کا سامنا کرے ،نہ کہ وہ سوچتا رہے کہ ایسا ہو گیا تو کیا ہوگا ؟یہ نفسیاتی مسائل ہی موت ہیں ۔انسان کو ان سے نکلنا ہوگا ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔