انسان کے مسائل ۔۔۔۔۔۔ایک کہانی
انسان ہمیشہ مسائل کا شکار رہا ہے۔لاکھوں صدیاں گزر گئی ،لاکھوں تہذیبیں پیدا ہوئی اور مٹ گئی ،دنیا ترقی یافتہ ہو گئی،لیکن انسان کے مسائل ہیں کہ ختم ہونے کانام ہی نہیں لے رہے۔۔میرا خیال یہ ہے کہ شاید انسان مکمل طور پر نشوونما پا ہی نہیں سکا،دنیا ترقی یافتہ ہو گئی ،لیکن انسان اب بھی پسماندہ ہے اور شاید اب بھی کروڑوں سالوں تک پسماندہ ہی رہے گا ۔دنیا کے تمام جانور مکمل طور پر پیدا ہوئے ہیں ۔شاید جانور ترقی یافتہ شکل میں پیدا ہوئے ہیں ،جیسے ایک کتا مکمل طور پر کتا پیدا ہوا ہے اور مکمل نشوونما کے ساتھ دنیا میں آیا ہے۔کتے کی انفرادی زندگی میں اور کچھ اضافہ نہیں کیا جاسکتا ۔۔ایک شیر شیر کی طرح پیدا ہوا اور اسی طرح وہ مر جائے گا ۔انسان میں اس طرح کی بات نہیں ہے۔انسان کی یہ خوبی ہے کہ وہ بہت کچھ ہو سکتا ہے۔اس کے لئے اس دنیا میں بہت سے دروزے کھلے ہیں اور بہت سے آپشن ہیں ۔اس کی شاید وجہ یہی ہے کہ وہ مکمل طور پر نشوونما اور ترقی یافتہ شکل میں دنیا کی زینت نہیں بنا ۔انسان کے پاس پوٹینشل ہے ،لیکن بدقسمتی سے وہ صدیوں سے کنفیوژن کا شکار رہا ہے ۔یہ بہت ہی عجیب و غریب بات ہے کہ بلند و ارفع جانور جسے انسان کہا جاتا ہے وہ ابھی تک نامکمل اور ادھورا ہے۔اسے معلوم نہیں کہ اس کی تقدیر اور قسمت کیا ہے ؟انسان اپنے مستقبل کے بارے میں کچھ نہیں جانتا اور نہ ہی کچھ بتا سکتا ہے کہ آگے اس کے ساتھ کیا ہوگا ؟وہ بس نامعلوم سفر کی جانب گامزن ہے۔انسان بہترین ہونے کی اور بہترین بننے کی امید تو کرتا ہے لیکن یہ کیفیت یقینی نہیں ہوتی،اس میں بھی کنفیوژن ہی کنفیوژن ہوتی ہے۔انسان اندر سے ہمیشہ کانپ رہا ہے کہ معلوم نہیں اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔وہ ہمیشہ سہما اور ڈرا ہوا رہتا ہے۔ہمیشہ اس خوف کا شکار رہتا ہے کہ وہ سہی کررہا ہے یا غلط۔۔۔یہ خوف کہ تقدیر اس کے ساتھ کیا کرے گی۔کہیں کچھ کر بھی پائے گا یا نہیں یا پھر موت اسے پکڑ لے گی۔ایسا کیوں ہے اور ایسا کب تک ہوتا رہے گا ،اس پر ہم سب کو سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے؟شاید اس کی وجہ کہیں یہ تو نہیں کہ ہم کروڑوں انسان ایک دوسرے کی نقل کررہے ہیں ،شاید انسانوں کو یہ آسان لگتا ہے کہ سب ایک طرف جارہے ہیں تو وہ بھی اسی طرف چلے ،اسی میں سب اچھا ہے۔سب انسان مجمعے اور ہجوم کے ساتھ ہیں ۔وہ اس طرح سمجھتے ہیں کہ اکیلے تو نہیں ۔انسان یہ بھی سمجھتا ہے کہ کڑوروں کا مجمع ایک جانب جارہا ہے وہ تمام غلط نہیں ہو سکتے ،اس لئے اسی کو عافیت سمجھتے ہوئے ہر انسان مجمعے اور ہجوم کا حصہ ہے۔لیکن میں سمجھتا ہوں ہجوم ہمیشہ غلط ہوتا ہے ،اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر انسان کی اپنی انفرادی تقدیر ہوتی ہے۔لیکن جب وہ ہجوم میں دفن ہو جاتا ہے اس طرح وہ اپنی انفرادیت اور فردیت کی خودکشی کر لیتا ہے۔وہ اپنی انفرادیت کا قتل کردیتا ہے ۔جب ایک انسان عیسائی بن گیا ،ہندو بن گیا ،یا مسلمان بن گیا ،اسی وقت ،اسی لمھے وہ اپنے آپ کی انفرادیت کا خاتمہ کردیتا ہے یا یوں کہہ لیجیئے وہ خودکشی کرلیتا ہے۔اب اس کے لئے کوئی امید نہیں ،اس کے زہن اور دماغ میں صرف ایک بات ہوتی ہے کہ یہ جو کروروں انسان ایک جانب ہندو یا عیسائی یا مسلمان بنکر سفر پر گامزن ہیں یہ غلط کیسے ہو سکتے ہیں؟میری نگاہ میں عیسائی ہندو یا مسلم بنکر انسان اپنی اوریجنل تقدیر سے بھٹک جاتا ہے۔اب انسان صرف ایک خوبصورت اور دلکش کاربن کاپی بن جاتا ہے۔،لیکن وہ اوریجنل نہیں رہتا ۔میرا یہ ماننا ہے کہ جب تک انسان اوریجنل نہیں ہوں گے وہ مطمئن نہیں ہو سکتے ۔انہیں اطمینان نصیب نہیں ہو سکتا ۔انہیں زندگی کی حقیقت کا احسا س نصیب نہیں ہوسکتا ۔وہ پھر اس احساس سے محروم ہوجاتے ہیں کہ زندگی کے معانی و مطلب کیا ہیں ؟اس لئے انسان پھر اداس ،غصیلہ اور بور رہتا ہے۔مجمع اور ہجوم کا حصہ بننے کی وجہ سے انسان گھٹن زدہ رہتا ہے۔یہ سب کچھ کروڑوں انسانوں کے ساتھ اس لئے ہو رہا ہے کہ وہ ہجوم ہیں ،مجمع ہیں ،لیکن وہ انسان نہیں ہیں ۔یہ جہاں سب جارہے ہیں ،اس راستے پر جانے سے بہتر ہے کہ انسان اکیلا رہے۔اور اپنا راستہ خود تلاش کرے۔لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ صرف کروڑوں انسانوں میں چند انسان ہی ایسے ہوتے ہیں جو ہجوم کا حصہ نہیں بنتے ،اور اپنی زہانت پر اعتماد کرتے ہیں ۔اور اپنی زندگی کو انجوائے کرتے ہیں ۔اپنی حقیقت ،اور سچ اکیلے ہی تلاش کرتے ہیں ۔ایسے لوگ کمال ہوتے ہیں ؟ہم سب کو یہ سوچنا ہوگا کہ کیا ہم ایسے ہیں ؟اور اگر نہیں ہیں تو کیوں نہیں ہیں ؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔