کیا آپ جانتے ہیں خوف اور سردی کے وقت ہمارے بال کیوں کھڑے ہوجاتے ہیں۔؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ تقریری مقابلے میں حصہ لینے والے لوگ سٹیج پر جانے سے پہلے جمائیاں لینا کیوں شروع کردیتے ہیں؟ ایک شخص کو جمائی لیتے دیکھ کر دوسرا شخص یہ عمل کیوں دہرانے لگتا ہے؟ ہم دو پاؤں پر کیوں چلتے ہیں؟ ہمارا دماغ ، ریڑھ کی ہڈی، پاؤں ہاتھ ، آنکھیں، ناک ، پییپھڑے، انگھوٹا، آواز اور جنسی عمل ہمیں کب اور کیسے ملیں؟
آئیں ان سوالوں کے جواب انسان کے ارتقائی سفر میں ڈھونڈتے ہیں۔
آج سےچار ہزار میلین سال پہلے ہماری زمین آگ کا ایک دہیکتا گولہ تھا۔ فضا میں تیزابی گردو غبار کے بادل موجود تھے۔ انہی بادلوں میں بجلی کے چمکنے سے ایٹم اپس میں مل کر ایک خاص قسم کے مالیکول بنانے کا باعث بنے۔ ماہرین کے مطابق کہیں سمندر کی گہرائی میں یہ مالیکول نامیاتی مرکبات کی شکل میں اپنے اپ کو منظم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اب سمندری پانی میں مختلف قسم کے کیمیکل اور نامیاتی مرکبات موجود تھیں۔ یہ مرکبات اور کیمیکل روشنی ، بجلی اور پریشر کے زیر اثر جینیاتی مادہ سے ہوتے ہوئے اولین اور سادہ ترین خلیے کے شکل میں وجود پانے میں کامیاب ہوگئے۔
جینز نے کیمیائی احکامات اور معلومات کا تبادلہ شروع کردیا۔ تین اعشاریہ پانچ بیلین سال پہلے پہلا خلیہ تقسیم ہوا۔ یہ دنیا میں موجود اولین جاندار تھے۔ یہ خلیہ ہر انسان ، ہر جانور، ہر پرندے، ہر درخت سمیت نو ملین اقسام کے زندہ جانداروں کا جد امجد تھا۔
جینز ان خلیوں کے تقسیم کیلئے احکامات اور معلومات کے زمہ دار تھے۔ دو بیلن سال تک یہی سادہ ترین یک خلوی جاندار روئے زمین پر زندگی گزارنے والےاکیلے جاندار تھے۔ اس کے بعد دو خلیے اپس میں مل گئے۔ انکے جینز ایک دوسرے کیساتھ شریک ہوئے۔ یہ شریک خلیہ تقسیم ہوا۔ نئے بننے والے خلیہ کے جینز ایک خلیہ کے بجائے دو خلیوں یعنی والدین سے وراثت پزیر ہوئے تھے۔ اس حادثے کو دنیا کا پہلا "سیکس" عمل مانا جاتا ہے۔ سیکس نے جانداروں میں تنوع کو متعارف کیا۔ جینز میں میوٹیشن کا عمل وقوع پزیر ہونے لگا۔ مختلف اقسام کے خلیے بننے لگے۔ مختلف اقسام کے جاندار وجود میں آنے لگے۔ جس میں ایک ہمارا پرک بھی تھا۔
پانچ سو پچاس میلن سال پہلے ہمارا جد امجد ایک سمندری کچھوے ( کیڑے) کے شکل کا تھا۔ اس جاندار کے نر اور مادہ الگ الگ تھے۔ یہ سیکس کے زریعے بچے پیدا کرتے تھے۔ لڑکے او لڑکی کا ملاپ یہاں سے شروع ہوا۔ البتہ اس وقت اپنے لئے سیکس پارٹنر ڈھونڈنا کافی مشکل تھا۔ کیونکہ اس وقت موجود تمام تر جانداروں کی آنکھیں نہیں ہوتی تھی۔ یعنی ہر کوئی اندھا تھا۔
تاریک سمندر کے اندر یہ ہمارے پرک ہی تھے۔ جن کو سب سے پہلے دیکھنے کی صلاحیت ملنا شروع ہوئی۔ قدرت کا سب سے پرفیکٹ ایجاد واقع پزیر ہونے لگا۔ کچھوے نما جاندار کے اگلے سرے کے پاس جلدی خلیوں کے ایک حصے میں میوٹیشن کے زریعے ہم تاریکی اور روشنی میں فرق کرنے کے قابل بننے لگے۔ اب ہمار ے لیے شکار کرنا اور شکاریوں سے بچنا نسبتا آسان تھا۔ اب ہم زیادہ دیر تک زندہ رہتے تھے۔ اور زیادہ بچے پیدا کرتے تھے۔ جلد ہی ہمارے ابتدائی آنکھیں نما سوراخوں والے پرکوں کی تعداد تمام جاندار سے زیادہ ہو گئیں ۔
نیچرل سلیکشن کے زریعے یہ سوراخ نما اعضا مکمل آنکھوں کی شکل اختیار کرنے لگی۔ اب ہم اپنے ارد گرد دنیا کو دیکھ سکتے تھے۔ اور اسے سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ہماری آنکھوں کے عقب میں ہماری اعصابی خلیے ایک غنچے کے شکل میں ایک جگہ جمع ہونا شروع ہوئیں۔ شروع شروع میں یہ جسامت میں قلم کے سرے جتنے بڑے تھے۔ آج یہ قدرت کا سب سے پراسرار اور پیچیدہ عضو ہے ۔ پانچ سو پچیس میلین سال پہلے یہ کسی بھی جاندار کا ابتدائی دماغ تھا۔ ہمارا جسم سر دھڑ اور دم پر مشتمل تھا۔ وہ دم آج ہماری ریڑھ کی ہڈی کی صورت میں موجود ہے۔
پانچ سو پچیس میلین سال پہلے ہم مائلو کنونجیا نامی چھوٹے جسامت کے مچھلی نما جاندار بن چکے تھے۔ ہمارے دماغ سادہ فیصلے کرنے کے قابل بن چکے تھے۔ پھر بھی دیوہیکل جسامت اور جانلیوا جبڑے رکھنے والے نومولوکارلس سے بچنا مشکل تھا۔ اس وقت زندہ رہنے والے ننانوے فی صد جاندار اب ناپید ہو چکے ہیں۔ تین سو پچہتر میلن سال پہلے ہمارے جبڑے اور دانت بھی بن چکے تھے۔ ہمارا جسم مظبوط اور بڑا ہوچکا تھا۔ اب ہم ایک فٹ لمبے مچھلی نما مخلوق تھے۔ لیکن ہم سے مظبوط جاندار بھی موجود تھے۔ جن سے حفاظت لازمی تھی ۔ انکے حملوں سے بچنے کے لیے گدلے پانی میں چپھنا پڑتا تھا۔ وہاں پر آکسیجن کی مناسب مقدار موجود نہیں تھی۔ یہ پانی بھی ہمارے لیے زہریلا تھا۔ ہماری جسم میں مزید تبدیلیاں ہوتی رہی۔ ہمارے پیپھڑے بننے لگے۔ ہم سانس لینے لگے۔
اب اکتیو سٹیگا نامی ہمارے اجداد پانی اور ہوا نگلنے میں فرق کرسکتے تھے ۔ پھپڑے اور گلز دونوں کو کارآمد بنا چکے تھے۔ آج ہمارے گلز نہیں ہیں ۔ لیکن طریقہ کار وہی موجود ہے۔ تین سو پینسٹھ میلن سال پہلے ہمارے اجداد نے پانی سے باہر سر نکالا۔ باہر کے جنت نظیر مناظر ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ ٹکٹالک نامی ہمارے اجداد ایک نئی دنیا بسانے سمندر سے باہر آنکلے۔
تین سو چالیس میلین سال پہلے ہماری جلد سورج کی تپش کی تاب نہیں لا سکتی تھی۔ ہمارا نرم جلد اور نرم پنجے سخت ہونے لگے۔ ہمارے ناخن بڑھنے لگے۔ اب ہم گلابی رنگ کے کسانیوریو نامی چھپکلی نما جاندار تھے۔ ہم نے خشکی پر رہنا سیکھ لیا تھا۔ ہمارے انڈےاب سخت جھلی میں پیدا ہوتیں تھیں ۔ہمارے مردوں کیلئے سخت جھلی کے اندر انڈے بار آور کرنا ممکن نہیں تھا۔ اس کا حل ہم نے اندرونی عمل تولید ( انٹرنل فرٹیلائزیشن ) کے زریعے نکالا۔ اب نر اور مادہ اسی طرح باقاعدہ جنسی عمل کرتے تھے۔ جو ہم آج تک کرتے آرہے ہیں۔ یہ جنسی عمل تب سے لیکر اب تک ہمارے نسلوں کے بقا کا ضامن ہے۔
کسانیریو خشکی کے اولین کامیاب جاندار ہیں ۔ جو اپنا وزن خود اٹھاتے تھے۔ سانس لیتے تھے۔ جنسی عمل کرتے تھے۔ دیکھتے تھے۔ سونگھتے تھے۔ سنتے تھے۔ اور محسوس کرکے سمجھنے کی کوشش کرتے تھے۔ انکا دماغ ترقی کر رہا تھا۔ ہمارے اجداد ہوشیار ہورہے تھے۔
زندگی ارتقا پزیر ہوتی رہی۔ نئے انواع جنم لیتے رہے۔ جانداروں کے مابین خوراک کے لیے مقابلہ شروع ہوا۔ دوسو اسی میلین سال پہلے ہمارے جبڑے کے پٹھے مضبوط ہونے لگے۔ اب زیادہ خوراک حاصل کرنے کے لئے آسانی سے شکار کرسکتے تھے۔ خطرناک شکاریوں کا مقابلہ کرسکتے تھے۔ اپنے اپ کو بچا سکتے تھے۔ ہم زیادہ گوشت آسانی سے کھا سکتے تھے۔ ہماری جسامت میں بہت زیادہ اضافہ ہونے لگا۔ پوڈوسار جو کبھی ہمارا شکار کرتے تھے۔ اب ہم سے چپھتے پھر رہے تھے۔ اس وقت ھم بہت ہونحوار تھے۔ ہم دیگر جانداروں کو ڈرانے کے لیے ڈراونی آواز کیساتھ منہ کھولتے تھے۔
سائبیریا میں میگما کے پھٹنے سے دنیا نے بہت بڑی تباہی کا سامنا کیا۔ درخت اور پودے جل کر راکھ ہوئے۔ پودے کھانے والے ختم ہونے لگے۔ گوشت خور بھی خطرے کے زد میں آگئے۔ پچانوے فی صد جاندار ناپید ہوگئے ۔ چند ایک زندہ بچنے میں کامیاب ہوئے۔ جن میں ایک ہمارے اجداد اور دوسرے ڈائنوسار کے اجداد شامل تھے۔
دوسو بیس میلن سال پہلے اب ہم بلی جتنی جسامت رکتھے تھے۔ سائبیرین ایرپشن سے پہلے ہم ایک دیوہیکل چھپکلی نما جاندار جتنے ہوتے تھے۔ لیکن ہم اکیلے نہیں تھے۔ ہمارے اس پاس ڈائنو سور بھی موجود تھے۔ جو عظیم تباہی کے دوران زندہ بچنے والے چھوٹے ریپٹائلز سے ارتقا پزیر ہوئے تھے۔ زندگی کی دوڑ میں وہ اب ہم سے آگے تھے۔
چھیاسٹھ میلن سال پہلے ہمیں اپنی نسل کے معدوم ہونے کا شدید خطرہ تھا۔ ڈائنوسور نامی دیوہیکل شکاری ہمارے جان کے درپے تھے۔ فطرت کے چناؤ کی اصولوں نے ہمیں بچالیا ۔ ہم جسامت میں چھوٹے ہوتے رہے۔ ہم دو انچ لمبے چوہے جیسے چھوٹے ہوگئے۔ دن کے وقت زیر زمین رہتے تھے۔ رات کو شکار کیلیے باہر نکلتے تھے۔ ہمارے جسم کے بال سخت کانٹوں کی شکل اختیار کر گئے۔ جس کے زریعے ہم آکسیجن بھی جزب کرتے تھے۔ اور خطرے کے وقت ان کانٹوں کے زریعے اپنا بچاو بھی کرتے تھے۔ آج بھی اگر ہمیں ٹھنڈ لگتی ہے یا ہمیں خوف محسوس ہوتا ہے تو ہمارے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ہے نا عجیب بات۔
ہمارے حس تیز ہوگئے۔ اب ہم اپنا دشمن جلد ہی دیکھ سن یا محسوس کر سکتے تھے۔ دماغ کے اندر پیچیدہ خیالات کی فیکٹری ، کار ٹیکس نامی حصہ بننے لگا۔ جو ہمیں حالات کے سمجھنے اور مقابلہ کرنے میں مدد کرنے لگا۔ دماغ کا یہی حصہ آج ہمیں خواب دیکھنے ، سوچنے، بنانے ، ترتیب دینے اور گفتگو کرنے کے قابل بناتا ہے۔
یقیناً ڈائنوسار نے ہمیں ترقی کرنے پر مجبور کیا۔ اپنے نوزائدہ بچوں کو ڈائنوسار سے بچانے کے لئے ہم نے انڈے دینا چھوڑ دیے۔ اب انڈے مادہ کے رحم میں بچے بن جاتے تھے۔ اور یوں ہم بچوں کو جنم دینا شروع ہوگئے۔ انکو اپنے لیے خود خوراک ڈھونڈنے کے بجائےانکو دودھ پلانا شروع کیا۔ سوئٹ گلینڈز میموری گلینڈ میں تبدیل ہوئے۔ یہ ایک نئے خاندان کا آغاز تھا۔ چار ہزار سے زیادہ انواع پر مشتمل خاندان ممالیا۔ جس میں ہم سمیت چھوٹے سے چوہے سے لیکر بڑی وہیل مچھلی جیسے مختلف جاندار شامل ہیں۔
پینسٹھ میلن سال پہلے میکسیکو کے قریب ایک عظیم شہاب ثاقب کی دنیا سے ٹکرانے پر ڈائنوسار کی نسل ناپید ہوگئی۔ اس حادثے نے چھوٹی جسامت کے ممالیا کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا۔ چونسٹھ میلن سال پہلے ہمارے گلہری نما اجداد کیڑے مکوڑے کھاتے تھے۔ انکی جسامت اب چھ انچ تک بڑھ چکی تھی۔ ممالیا دنیا کے ڈامیننٹ جاندار بن گئے تھے ۔ وہ اب پوری دنیا میں پھیل گئے تھے۔
ساٹھ ملین سال پہلے درختوں پر پھل لگ چکے تھے۔ پھل توانائی سے بھرپور، لذیز اور ہمارے لیے ھر دل عزیز تھے۔ انکو حاصل کرنے کے لیے درختوں پر چھڑنا لازمی تھا۔ چھپن میلن سال پہلے ہمارے اجداد درختوں پر چھڑنا سیکھ چکے تھے۔ ایک درخت سے دوسرے تک پھلانگ سکتے تھے۔ ہمارے پاؤں اور ھاتھ لمبے اور لچکیلے بن گئے تھے۔ ہماری دم درخت کی ٹہنیوں پر ہماری توازن برقرار رکھنے اور سہارا دینے کے کام آتی تھی۔ اتیرین لاسٹرس نامی ممالیا کے اولین جانداروں کا گروپ پرائیمیٹس۔
اگلے دس سالوں تک دنیا ایک دفعہ پھر بدلنے لگی۔ شدید درجہ حرارت کی ضد میں جنگلات تباہ ہوگئے۔ خوراک حاصل کرنا مشکل بن گیا۔ اب ہمیں زیادہ بڑے درختوں پر چھڑنا تھا۔ ہماری دم مزید لمبی اور لچک دار ہوگئی۔ ہمارے ران مظبوط ہوگئے۔ ہمارے بازوں لمبے ہوگئے۔ ہمارے ہاتھ کی گرفت سخت ہونے لگی۔ اب ھم انکی مدد سے ٹہنیوں کیساتھ جھول سکتے تھے۔
زمین کے نیچے عربین اور افریقن پلیٹ کے ٹکرانے سے مشرقی افریقہ کی ریفٹ ویلی وجود میں آگئی۔ نئے پۂاڑ زمین کی سینے پر نمودار ہوئے۔ سمندر سے بخارات لانے والی ہواؤں کے راستے میں رکاوٹ بن گیا۔ بارشوں کی کمیابی سے جنگل صحرا میں بدلنے لگے۔ خوراک حاصل کرنا مشکل ہوگیا۔ چار اعشاریہ پانچ میلین سال پہلے ہمارے وجود کو شدید خطرات لاحق ہوچکی تھی۔ ہمارے اجداد پرائیمیٹس ایک مرتبہ پھر فطرت سے لڑنے میں کامیاب ہوگئے۔
اب ہم چار فٹ لمبے اور اسی پاؤنڈ وزنی "ارتاپیڈکس ریمیڈس "نامی جاندار تھے۔ ہمارا دماغ سنگترے جتنا بڑ چکا تھا۔ ہم ٹہنیوں کیساتھ کھڑے ہو سکتے تھے۔ ان کے ساتھ چل بھی سکتے تھے۔ لیکن زیادہ خوراک حاصل کرنے ہمیں دو پاؤں پر چلنے کی ضرورت ہے۔ چار اعشاریہ چار میلین سال پہلے ہم دو پاؤں کے سہارے پہلا قدم اٹھا چکے تھے۔ دو پاؤں پر چلنے سے ہم خوراک تک بھی پہنچ گئے۔ اور اگلے ہاتھ بھی آزاد ہوگئے۔ ہم اسکے زریعے کسی چیز کو آسانی سے پکڑھ سکتے تھے۔ ارتاپیڈکس نقل کرنے اور سیکھنے میں مہارت حاصل کرنے لگے۔ اگلے لمبے عرصے تک ہم زیادہ سے زیادہ اور تیز چلنے کے قابل بن گئے۔ سایہ اور خوراک ڈھونڈنا آسان بنتا گیا۔ لیکن بچے کی پیدائش میں مشکلات پیش آنے لگی۔ تین اعشاریہ بیس میلین سال پہلے ہم کم عرصے کے کمزور بچوں کو جنم دینا شروع ہوگئے۔ اب انکی حفاظت اور پرورش بھی ہماری زمہ داری تھی۔
تین اعشاریہ دو میلن سال پہلے ہمارے اجداد اسٹریلو پیتکس بن چکے تھے۔ ہمارا دماغ مزید ترقی کر چکا تھا۔ اب ھم سارا وقت دو پاؤں پر چلتے تھے۔ لیکن ہمیں شکاریوں سے بچنے میں کافی دشواری تھی۔ دو اعشاریہ پانچ میلین سال پہلے ہمارے چہرے کے مسلزمیوٹیشن کے زریعے سکڑنے لگے۔ اس کا فائدہ دماغ کو ہوا۔ دماغ کے لیے اب پہلے سے زیادہ جگہ موجود تھی۔ دماغ کے سائز میں اضافہ ہونے لگا۔
اب ایک نیا جاندار ہومو ہیبلس ارتقا پزیر ہوچکا تھا۔ ترقی پزیر دماغ ، مظبوط پٹھو اور توانا جسم کا یہ انسانی شکل کا اولین جاندار تھا۔ ہومو ہیبلس اکیلے رہتے تھے۔ جو ملتا تھا کھا لیتے تھے۔ پتھر کو سب سے پہلے بطور اوزار استعمال کرنے والے ہومو ہیبلس تھے۔ اب ہمارا مستقبل ہمارے اپنے ہاتھوں میں تھا۔ ھم زیادہ شکار کرنے کے قابل تھے۔ شکاریوں سے اپنے آپ کو بچاتے تھے۔ اپنے رشتداروں سے لڑتے تھے۔ پریشانی اور خطرے کے وقت کرخدار آواز کیساتھ اپنا منہ کھولتے تھے۔ اس سے ہمارے مقابل ڈر جاتے تھے اور جسم اور دماغ کو زیادہ اکسیجن کی صورت میں ایکسٹرا توانائی مل جاتی تھی ۔ آج بھی پریشانی کے وقت یا تقریری مقابلے میں حصہ لینے والے لوگ سٹیج پر جانے سے پہلے جمائیاں لینا شروع کرتے ہیں۔ جب ایک شخص جمائی لیتا ہے تو مقابل بھی بلا ارادے یہ فعل دہرانے لگتا ہے۔ یہ ہمیں ہومو ہیبلس سے وراثت میں ملا ہے۔ ماہرین کی مطابق وہ ہڈیوں کو بھی بطور اوزار استعمال کرتے تھے۔ ہمارا انگھؤٹا اب اس قابل بن چکا تھا کہ ہم اوزاروں پر اپنی گرفت مظبوطی سے قائم رکھ سکتے تھے۔ آج ہم اسی صلاحیت کی وجہ سے قلم پکڑھ سکتے ہیں۔ جہاز چلا سکتے ہیں۔ اور فلک شگاف ساختیں بنا سکتے ہیں۔
ایک اعشاریہ آٹھ میلن سال پہلے ہومو ہیبلس سے ہومو اریکٹس جنم لے چکے تھے۔ اب ہم اپنے ساتھیوں سے مل کر شکار کرتے تھے۔ شکار کو بگھا کر تھکا دیتے تھے۔ پسینہ ہمارے جسم کا درجہ حرارت قائم رکھنے میں کام آنے لگا تھا۔ جھکے ہوئے کندھے اور مضبوط ران ( پچھلا حصہ جو سکھڑنے پھیلنے اور ہمارے آگے بڑھنے کو ممکن بناتا تھا) ہمیں شکار پر قادر آنے میں مدد کرتے تھے۔
آسمانی بجلی سے آگ کو بھی سب سے پہلے ہوموریکٹس قابو کر چکے تھے۔ اب روشنی اور بچاو کے لئے فطرت کی عظیم طاقت ہمارے دسترس میں تھی۔ ڈراونی تاریکی سے بچنے کے لئے ہمارے خاندان الاو کے گرد جمع ہوتے تھے۔ خوراک کو آپس میں تقسیم کرتے تھے۔ سب سے پہلے گوشت کو آگ پر جلا کر کھانے کی روایت بھی یہی سے شروع ہوئی۔ اب ہمیں اپنے جبڑوں پر کم قوت صرف کرنی پڑتی تھی ۔ ہمارے جبڑے کے آخری دانت اب بے کار ہوچکے تھے۔ آج تیریالیس فی صد انسانوں میں یہ دانت پیدا ہی نہیں ہورہے۔ اس عمل سے ہمارا دماغ مزید ترقی کرنے لگا۔ کھانا پکاکر کھانے بعد ہمارے دماغ کے سائز میں پچاس فی صد اضافہ ہوا۔
ہم نے ایک دوسرے سے گفتگو کرنے کی کوشش شروع کی۔ دو لاکھ سال پہلے ہمارا لیرنکس (ساونڈبکس) اوپر کی جانب کھسکنے لگا۔ اب ہم مختلف آوازیں نکال سکتے تھے۔ ایک دوسرے سے گفتگو کر سکتے تھے۔ ایک دوسرے کو خطرے سے آگاہ کر سکتے تھے۔ گفتگو کرنے صلاحیت ہمارے اس سفر میں آخری انقلابی کھڑی ثابت ہوئی جس سے ہمارے نسل کے انسانوں کا جنم ممکن ہوسکا۔ اپنے آپ کو اشرف آل مخلوقات کہلوانے والے ہومو سیپئین یعنی آواز رکھنے والے انسان ۔دنیا کے کسی بھی دوسرے جاندار سے زیادہ ترقی یافتہ دماغ رکھنے والے ، رفتار، اوزار، گفتگو اور عقل جیسی شاندار صلاحیتوں سے مالامال ہم انسانوں نے آہستہ آہستہ دنیا کے تمام براعظموں کو آباد کر ڈالا ۔ اگر اربوں سالوں کے اس سفر میں کہیں بھی چھوٹی سی میوٹیشن نا ہوئی ہوتی یا ہمارے اجداد میں سے کوئی ایک فطرت کے مقابلے میں ہار جاتا تو یقیناً آج نا ہم ہوتے۔ نا ہماری یہ دلچسپ کہانی ہوتی۔
“