دنیا کی کُل آبادی سات ارب سے تجاوز کر چکی ہے ، زرائع اور وسائل ماحولیات کی نظر ہو گئے ہیں ۔ حکمرانوں کی گرفت انسانوں پر بہت کمزور دکھائ دے رہی ہے ۔ مزید استحصال شاید سوشل میڈیا اور وسائل نہ ہونے کی وجہ سے ممکن ہی نہ رہے ۔ پوپ کا بیانیہ اور باقاعدہ استحصال کا اس میں تزکرہ اسی چیز کا عندیہ تھا ۔ آج سے چودہ سو سال پہلے حضرت محمد ص وہ آخری پیغمبر اور انسان تھے جنہوں نے ایک جامع پلان کے تحت قدرتی طور پر اس استحصال کے خاتمے کی زبردست کوشش کی لیکن ان کے بعد والے حکمرانوں نے اس کے بلکل اُلٹ کر کے ساری نیّا ہی ڈبو دی ۔ آج سوائے مسلمانوں کے پاس ان کی پُوجا پاٹ کے کچھ نہیں بچا ۔
فرانس کے ہنگامہ پورے یورپ میں پھیل گئے ہیں اور فرینچ ریولوشن سے زیادہ خطرناک موڑ لیتے دکھائ دے رہے ہیں ۔
محمد بن سلمان اور پیوٹن کا بغلگیر ہونا بلکل ایک last laugh کی طرح تھا ۔ شاید دونوں ہی آنے والے دور میں اس دنیا کو مکمل تباہ و برباد کرنے میں کلیدی کردار ادا کریں گے ۔ دونوں ہی سفاک، جابر اور انتہا کی غیر انسانی سوچ کے مالک ہیں ۔ ٹرمپ اور جی جن پِنگ ابھی بھی ٹِل کا زور لگا رہے ہیں کے یہ دنیا کچھ دیر اور چل جائے لیکن نا ممکن نظر آ رہا ہے ۔
پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ عمران خان اور ثاقب نثار کے زریعے ۲۲ کروڑ پر اس استحصال اور کنٹرول کی آخری کوششوں میں مصروف ہے ۔ آئین کو پامال کرنے کی خبریں ہیں ۔ عمران خاں اسمبلیاں توڑ دیں گے ۔ ترکی کی طرح کا صدارتی نظام لایا جائے گا اور ثاقب نثار قاضی القضی ہوں گے ۔ اب سوائے لوگوں کی بُھلائ کے پلان کے علاوہ کچھ نہیں چلے گا ۔ سبز vests پہن کو جب لُٹے پُھٹے پاکستانی باہر نکلے تو شاید پھر کوئ بھی نہ بچ سکے ۔
انسان کی تخلیق ہی غلامی اور استحصال والی نہیں تھی ۔ نجانے کہاں سے یہ معاملہ شروع ہوا ۔ غلامی کے نت نئے رنگ ، سیاہ فام کو زنجیروں سے باندھنے سے لےکر ، پیسہ ، مزہب اور بادشاہت سے کنٹرول کی کوشش ۔ انسانوں کے دل کا کسی نے نہیں سوچا ۔ انسان کی تو قدرتی طور پر continuously تخلیق ہو رہی ہے ۔ وہ تو evolve ہوتا رہتا ہے وہ تو خدا کے ساتھ co creator ہے ۔ آپ کیسے روک سکتے ہیں ؟ اسی لیے تو کینسر کی کیس بڑھ رہے ہیں ۔ آپ cells کو static کرنے یا اُلٹا چلانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ ایسا نہ ہونا تھا نہ ہوا اور نہ ہو سکے گا ، بے شک حکمران اُلٹا لٹک جائیں ۔ آج انسان کی بجائے ہمیں برسوں پرانی ایک سامراجی دیوار کی پڑی ہوئ ہے کے یہ ماضی کی غلامی کا اثاثہ ہے ، ہائ کورٹ نے کہا اسے مت توڑو ۔ اقبال نے کہا تھا
“ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت “
فرانس اور امریکہ میں ہنگاموں کی دوران تاریخی مجسموں کو نشانہ بنایا گیا اور جب طالبان نے بُدھا کے مجسمہ تباہ کیے تو انہیں وحشی اور درندے کہا گیا ۔
اب تو کچھ نہیں ہو سکتا ، معاملات سب کے ہاتھوں سے نکل چکے ہیں ۔ ہر شخص اپنے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے چکر میں ہے ۔ سچ صرف ایک ہے ، کہ ہم سب انسان ہیں ، ۲۴/۷ Renew ہو رہے ہیں ۔ ایک cyclic process کی پیداوار ہیں ۔ اور جھوٹ یہ ، کہ کونسا status quo ؟کونسی حاکمیت سوائے اللہ تعالی کے ؟ کونسی جمہوریت یا آمریت ؟ کس کی فوج ؟ کس کا گھوڑا ؟ اس سے قبل کے ہم سب اس آپس کی لڑائ چڑھائ میں مر جائیں ، ایک دفعہ سبحان اللہ کا ورد ضرور پڑھیں ، شاید روح کو کوئ سکون پہنچ جائے ۔ آپکی دعاؤں کا طلبگار ، بہت گنہگار ۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...