بہت سے جانور انسانوں سے زیادہ طافتور ہیں، انسانوں سے زیادہ تیز بھاگ سکتے ہیں، ان کا کیموفلاژ انسانوں سے بہتر ہے، لیکن اس کے باوجود انسان باقی جانوروں سے زیادہ کامیاب رہا ہے- اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ انسان ذہانت میں باقی جانوروں سے بہت آگے ہے، مستقبل کے بارے میں پلان کر سکتا ہے، دوسرے لوگوں سے پیچیدہ خیالات کا تبادلہ کر سکتا ہے اور یوں مل بانٹ کر مسائل حل کر سکتا ہے- لیکن ان تمام کامیابیوں کی ایک اور وجہ بھی ہے اور وہ یہ کہ اگرچہ انسان بہت زیادہ تیز نہیں بھاگ سکتا لیکن بھاگنے میں انسان کا سٹیمنا باقی جانوروں سے کہیں زیادہ ہے–
اب سے بیس سے تیس لاکھ سال پہلے افریقہ کے کھلے میدانوں میں رہنے والے ہمارے اجداد میں ایک میوٹیشن ہوئی جس کی وجہ سے CMAH نامی جین ناکارہ ہو گیا- اس کے ناکارہ ہونے سے ایک تو خون میں آکسیجن ٹرانسپورٹ کرنے کی قابلیت زیادہ ہو گئی اور دوسرے ایسے ایمیو ایسڈز زیادہ مقدار میں بننے لگے جو مسلز کو قوت فراہم کرتے ہیں- اس وجہ سے ہمارے اجداد کے بھاگنے کے سٹیمنا میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا- اب وہ جانوروں کو بھگا بھگا کر تھکا دیتے اور پھر اس نڈھال جانور کا آسانی سے شکار کر لیتے- اس طرح ان اجداد کو وافر مقدار میں پروٹین فراہم ہونے لگی جو (باقی وجوہات کے ساتھ ساتھ) دماغ کی جسامت کو بڑھانے میں معاون ثابت ہوئی–
یہ میوٹیشن اتنی زیادہ کامیاب رہی کہ ہمارے اجدا کے ان ساتھیوں کی نسل معدوم ہو گئی جن میں یہ میوٹیشن نہیں تھی- دوسرے الفاظ میں آج دنیا بھر کے انسانوں میں یہ میوٹیشن پائی جاتی ہے- البتہ ہمارے قریبی ارتقائی کزنز یعنی چمپنزی، بونوبو اور گوریلا وغیرہ کے ڈی این اے میں یہ میوٹیشن موجود نہیں ہے- سائنس دان نہ صرف اس میوٹیشن کو پہچانتے ہیں بلکہ جینیاتی انجینیئرنگ کی مدد سے اس میوٹیشن کو دوسرے جانوروں میں بھی داخل کر سکتے ہیں- جب لیبارٹری میں چوہوں کے ڈی این اے میں یہی میوٹیشن ڈالی گئی تو ان چوہوں میں باقی چوہوں کی نسبت بھاگنے کا سٹیمنا 12 سے 20 فیصد تک بڑھ گیا–
تاریخی ریکارڈز (مثلاً غاروں میں موجود قدیم پینڈنگز) سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے اجداد اکٹھے مل کر شکار کرتے تھے، جانوروں کو بھگا بھگا کر تھکاتے تھے اور یوں اپنے سے کئی گنا بڑے جانوروں (جن میں میمتھ (جو موجودہ ہاتھیوں سے بھی بڑے تھے)، بائسن اور دوسرے بڑے جانور شامل ہیں