10 دسمبر:اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پرخصوصی تحریر
انسان کا جوہر اصلی انسانیت ہے،انسانیت اگر موجود ہے تو وہ انسان اصل میں انسان ہی ہے لیکن اگر کسی میں انسانیت ہی سرے سے موجود نہیں یااس کاگلاگھونٹ رکھاہے تو اس نے گویاانسان کا محض لبادہ اوڑھ رکھاہے اندر سے وہ کیاہے؟؟یہ اس کی فطرت ہی بتاسکتی ہے۔یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے سورج میں تپش،حدت اور شعاع باقی نہ رہے تو اپنے جوہر اصلی سے محروم ہو جائے گااور اسے کوئی سورج ماننے پر تیار نہیں ہوگااورجنگلی جانوروں کے اندر سے حیوانیت نکال دی جائے تو وہ حیوان کہلانے کے حق دار نہیں رہیں گے۔شیر ایک خونخوار درندہ ہے لیکن اسکے پنجوں اور دانتوں سے اسے محروم کر دیا جائے تو اسدیت اسکے ہاں سے رخصت ہو جائے گی اور وہ ان تمام خصوصیات سے محروم ہو جائے گا جو اسے شیر بنانے پر قدرت رکھتی تھیں اگرچہ اسکی شکل و شباہت اور ہیئت و جسامت شیر جیسی ہی ہو گی۔اطباء حضرات جڑی بوٹیوں سے عرق نکال لیتے ہیں،اس عمل سے پہلے وہ بوٹیاں بہت قیمتی تصور کی جاتی ہیں،ان کے دام وصول کیے جاتے ہیں اور انہیں پوری حزم و احتیاط سے ایک جگہ سے ووسری جگہ منتقل کیاجاتاہے اور پورے مراحل سے گزار کر ان کا جوہر اصلی ان سے کشید کر لیاجاتاہے لیکن جب وہ بہت قیمتی بوٹیاں اپنے اثاثہ اصلی سے محروم کر دی جاتی ہیں تو تھوڑی ہی دیر بعدکوڑے کاڈھیرانکامقدر بن جاتاہے اوروہ فاضل مادہ تصور کیاجاتاہے۔
انسانیت کیا ہے؟؟اس کے متعددجواب دیے جاچکے ہیں اورسب جواب ہی قابل اعتماد ہیں لیکن ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ دوسرے انسان کو اپنی مانندسمجھنااور اس سے بھی ایسا سلوک کرنا جیساسلوک اپنے ساتھ کیے جانے کی انسان توقع رکھتاہے محض چند مستسنیات کے ساتھ اس جذبے کو انسانیت کہاجاسکتاہے۔محسن انسانیت ﷺ نے بہت خوبصورت الفاظ میں انسانیت کے اس خاصے کوچنیدہ الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ جو اپنے لیے پسند کرتے ہو وہی اپنے بھائی کے لیے بھی پسند کرو۔دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہونا،ان کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھنا،ان کی خوشی کو اپنی خوشی تصور کرنا،اپنی حاجات کی تکمیل سے پہلے دوسروں کی خبر گیری کرنا،دوسروں کی تقدیس و تحریم کواپنے سے کم تر نہ سمجھنا،اچھے اخلاق کا مرقع ہونااوربرے اخلاق سے اپنی طرح دوسروں کو بھی محفوظ رکھناوغیرہ یہ سب انسانیت کے اعلی درجات ہیں۔انسان بننے کے لیے صرف انسانوں کے ہاں پیداہوجانا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس کے اندر انسانیت کا جوہر ہونا بھی ضروری ہے۔ماہرین لغات کہتے ہیں کہ لفظ”انسان“کااصل مادہ یا مصدر”انس“ہے جس کا مطلب محبت،پیار،الفت اور چاہت سے مستعارہے۔پس جس کے اندر ”انس“ہوگاوہ انسان کہلانے کا حق دار بھی ہوگااور جس کااندرون ”انس“سے خالی ہوگا اسے کوئی حق نہیں کہ وہ اپنے آپ کو انسان کہلوائے۔
انسانیت و حیوانیت دو متضادالفاظ کے طورپر کثرت سے استعمال ہوتے ہیں۔حیوان اپنے آپ کو دوسرے پر فوقیت دیتاہے،اپنا پیٹ بھرنے کے لیے دوسرے کو شکارکرتاہے اورحلال و حرام کی تمیز کے بغیراپناآتش دوزخ بھرتاہے اوراپنی ہوس نفس مٹانے کے لیے دوسرے کواستعمال کرتاہے۔جانور کو ضبط نفس کا ملکہ میسر نہیں ہوتااسی لیے اس کے اندر برداشت کا مادہ بھی نہیں ہوتااور نہ ہی وہ اپنی فطرت کے خلاف حالات سے سمجھوتاکر پاتا ہے۔گھرمیں پالاہوا پالتوجانورہویاجنگل میں بڑھاپلاہوا جنگلی جانورصدیوں سے ان کے ہاں کوئی ارتقاء نہیں،وہ ہزاروں سال پہلے جس طرح رہتے تھے آج بھی اسی بودوباش اورخوردونوشت کے مالک ہیں۔ جانوروں کی ایک اور صفت یہ ہے کہ ان میں شرم و حیا اس طرح نہیں ہوتی جس طرح انسانوں کے اعلی اخلاق میں پائی جاتی ہے،قدرت نے ان کے ننگ ڈھانکنے کا انتظام خود سے کر دیاہے اور باہمی تعلقات میں چونکہ رشتہ داری کے حرم و احترامیات سے جنگل کاقانون خالی ہے اس لیے جانوروں کے تعلقات سے یہ صنف بھی عنقاہے۔جانور وں کا طبقہ طہارت کے بھی اس جامع تصور سے خالی ہے جوانسانی معاشروں کا جزولاینفک سمجھاجاتاہے۔بعض مفکرین کا خیال ہے پیدائشی طورپر انسان حیوانیت کے جذبے سے ہی بھراہوتاہے بعد میں تعلیم،ماحول اور عقل و خرد اسے انسانیت کی طرف لے آتے ہیں۔
قبیلہ بنی آدم میں انسانیت کاآغاز کرنے والے اور اولین معلمین انسانیت وہ منتخب لوگ تھے جنہیں اللہ تعالی نے اس دنیامیں مبعوث فرمایااور انہیں انبیاء علیھم السلام کے نام سے موسوم فرمایا،اگر انبیاء علیھم السلام انسانوں کے درمیان وارد نہ ہوتے تو جنگل کا خونخوار درندہ شیر، چیتااور بھیڑیا نہ ہوتے بلکہ حضرت انسان ہی اس روح فرسا کام کو انجام دے رہا ہوتابلکہ کچھ بعید نہیں کہ ان درندوں نے اپنی نسل کو تو باقی رکھا جبکہ انسانوں کے ہاتھوں تو ان کی اپنی نسل ہی اس صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہوتی۔آج بھی چکاچوند روشنیوں کے اس عہد میں وہ قومیں جو علم و حکمت اور تہذیب و تمدن میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں اور جن کی راتیں ان کے دنوں سے زیادہ روشن ہیں لیکن انبیاء علیھم السلام کی تعلیمات سے دوری کے باعث انہوں نے افغانستان،عراق،بوسنیا،چیچنیااورکشمیر سمیت پوری دنیامیں اور انسانی تاریخ میں ظلم و بربریت کی وہ داستانیں رقم کی ہیں کہ جنگل کے درندے بھی ان پر شرم سے پانی پانی ہو جائیں۔علمی دنیاکی ایک خوبصورت ریت ہے کہ کسی عمل کے آغاکرنے والے سے اس عمل کی تدریس کا آغاز کیاجاتاہے،جیسے بوہر نے سب سے پہلے ”ایٹم“کاتصور دیااور کہاکہ مادے کا سب سے چھوٹا ذرہ ایٹم ہے اب اگرچہ اسکایہ نظریہ غلط ثابت ہوچکاہے اور ایٹم کے متعددمزید چھوٹے ذرات دریافت ہو چکے ہیں لیکن پھر بھی ایٹم کا سبق بوہر کے ذکرکے بغیر ہمیشہ نامکمل رہے گا۔تب کتنے دکھ کی بات ہے کہ آج انسانیت کاتصور دینے والے ان اولین مدرسین انسانیت کو فراموش کر دیتے ہیں اور ان کا نام ہی نہیں لیتے۔کیایہ ایک علمی و عملی بددیانتی نہیں ہے کہ دوسرے کے تصورات کو اپنے نام سے پیش کر دیا جائے؟؟۔
انبیاء علیھم السلام نے انسانیت کو سب سے پہلے توحیدکادرس دیاجس کے بغیرانسانیت تو کیاخود حضرت انسان کاوجودہی نامکمل ہے،انبیاء علیھم السلام نے نکاح کاعمل اس قبیلہ بنی آدم میں شروع کیاحقیقت یہ ہے کہ نکاح کے عمل سے خاندان کا ادارہ وجود میں آیاجودراصل انسانیت کابنیادی تاسیسی ادارہ ہے۔اس خاندان کے ادارے سے بچے کو اپنی تہذیبی شناخت میسرآتی ہے،یہی ادارہ انسان کوانسانیت کی معرفت عطاکرتاہے،اسی ادارے کے سبب انسان کے دل و دماغ میں اسکی رشتہ داریوں سے متعلق پیارومحبت پروان چڑھتاہے،یہی ادارہ انسان کے بچپن کاامین،اسکے حسن شباب کاضامن اوراسکے بڑھاپے کا محافظ ہوتاہے اور اس سے بڑھ کر اورکیابات ہوسکتی ہے انسانی نسل کاتسلسل اسی خاندانی ادارے کے استحکام سے ہی وابستہ ہے۔انبیاء علیھم السلام انسانیت کے موجد ہی نہیں بلکہ انسانیت کے محسن بھی ہیں کہ انہوں نے خاندان جیسی ٹھنڈی چھاؤں انسانوں کو عطاکی جہاں سے انسانیت کی فکر اس کرہ ارض کی مخلوقات کو میسر آئی۔اس کے متضاد کے طور پر عمل زناہے جس سے خاندان کا نظام بری طرح تباہ و برباد ہو کر رہ جاتاہے۔لمحہ فکریہ ہے کہ ایک جوڑااس نیت سے ملتاہے کہ اس نے کل زندگی اکٹھے گزارنی ہے،ایک نسل اور پھرخاندان کی پرورش کرنی ہے،ایک دوسرے کے دکھ دردمیں سانجھی ہوناہے اور موت کے بعد بھی باہم وارث بنناہے اور اس کے نتیجے میں ایک بچہ پیداہوتاہے جسے ”حلالی“کہاجاتاہے جبکہ ایک جوڑامحض چند لمحوں کے لیے ملتاہے ہوس نفس،جنسیت،خودغرضی اورحیوانی تسکین کی خاطر ایک دوسرے کو وہ جھنجھوڑتے ہیں،بھنبھوڑتے ہیں اورآتش نفس مٹانے کے لیے ایک دوسرے کا جنسی استحصال کرتے ہیں اوراسکے نتیجے میں بھی ایک بچہ پیداہوتاہے کیا یہ دونوں بچے اپنی فطرت،اپنی نفسیات اور اپنی فکروعمل کی پہنچ میں برابرہوسکتے ہیں؟؟لازمی طور پر ایک بچہ جونکاح کا نتیجہ ہوگااور ایک خاندان میں پرورش پائے گاوہ انسانیت کا مرقع ومنبہ ہوگا اور دوسراسکے بالکل برعکس انسانیت سے عاری اور حیوانیت سے بھراہوگا۔
سیکولر مغربی تہذیب نے ”آزادیوں“کے نام پر جس ثقافت کو پروان چڑھایاہے ان آزادیوں نے انسانوں سے انکاخاندان چھین سالیاہے،پوری دنیا کثرت زناکے نتیجے میں انسانیت کے مقدس جذبے سے محروم ہوتی چلا جارہی ہے۔آج انسانیت کا راگ الاپنے والے انسانیت سے عاری ہوچکے ہیں،نسلی،علاقائی،لسانی اور مذہبی تعصب نے دوسرے انسانوں کو انسان ہی تصور کرنے سے انکار کر چھوڑاہے،ہوس دولت اور سودی نظام نے انسانوں کے اندر سے ہمدردی،پیارمحبت اورانسان شناسی کے عمل کو گہنادیاہے،مضبوط حکومتوں اور بڑی قوموں کی وسعت پسندی کی خاطر دریاؤں میں پانی کی بجائے انسانی خون بہہ رہاہے اور عالمی امن کے ادرے بھی انہیں کے ہاتھوں کھلونا بن چکے ہیں اورگویاایک آگ ہے جس میں مشرق سے مغرب تک کی انسانیت جھلستی چلی جارہی ہے۔کم و بیش اسی طرح کے حالات ہواکرتے تھے جب اللہ تعالی انسانوں کے درمیان انبیاء علیھم السلام کومبعوث فرماتاتھاآج بھی آخری نبی ﷺکی تعلیمات ہی انسانوں کوانسانیت سے آشناکرسکتی ہیں اور جینوااکارڈکی ناکامی آج سرچڑھ کر بول رہی ہے اور انسانیت کا سبق آج بھی محض خطبہ حجۃ الوداع میں ہی پوشیدہ ہے جو اس دنیامیں نافذہوگاتب ہی انسانیت عود کر آئے گی انشاء اللہ تعالی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...