بائی کیمرل مائینڈ کا معنی ہے، دو چیمبروں والا دماغ۔بائی کیمرل، بنیادی طور پر سیاسی اصطلاح ہے۔جب کسی ملک کے دستورسازنمائندے دو مختلف چیمبرز یا ہاؤسز میں بیٹھتے ہوں تو اُس ملک کا سیاسی نظام ’’بائی کیمرل‘‘ کہلاتاہے۔ مثلاً اگر کسی ملک میں اسمبلی اور سینٹ دو الگ الگ ہاؤسز ہیں جہاں دستورسازنمائندے بیٹھتے ہیں تو اس ملک کا سیاسی نظام بائی کیمرل ہے۔لیکن جب ’’ہم بائی کیمرل مائینڈ ‘‘کی اصطلاح استعمال کرینگے تو اس سے ہماری مراد ’’جولیَن جینز‘‘(Julian Jaynes)کی ’’تھیوری آف کانشسنیس‘‘ ہوگی۔جولین جینز بیسویں صدی کا ایک معروف امریکی ماہرِ نفسیات ہے جو اپنی کتاب، ’’دہ اوریجن آف کانشسنیس اِن دی بریک ڈاؤن آف دہ بائی کیمرل مائینڈ‘‘ کی وجہ سے مشہور ہوا۔
اس سے پہلے کہ ہم جولیَن جینز کی تھیوری آف کانشسنیس کا مطالعہ کریں ہمیں ایک بار دُہرا لینا چاہیے کہ بیالوجی کے مطابق انسانی دماغ کے دو حصے ہوتے ہیں۔ جنہیں دایاں دماغ اور بایاں دماغ یا رائٹ برین اور لیفٹ برین کے نام سے جانا جاتاہے۔ دراصل انسانی دماغ کے ہی دوحصے نہیں ہیں بلکہ انسانی جسم خود دو حصوں میں تقسیم شدہ ہے۔
دوٹانگیں، دوبازو، دوہاتھ، دونتھنے،دوآنکھیں، دوکان اور اِسی طرح دو دماغ۔دایاں دماغ جسم کے بائیں حصے کو اور بایاں دماغ جسم کے دائیں حصے کو چلاتاہے۔ اس کے علاوہ دائیں اور بائیں دماغ میں مندرجہ ذیل فرق ہے،
دایاں دماغ، اِن ٹیوٹِیو (Intuitive) ہے یا اُردو میں وجدانی ہے۔ قوتِ متخیلہ کا حامل ہے۔خواب دیکھتاہے۔مزاجِ فکر میں موضوعی (Subjective) ہے۔تخلیقی ہے اور اضطراری ہے۔
اس کے برعکس بایاں دماغ، منطقی، تجزیاتی، عملی اور حقیقت پسند ہے۔
اسی مناسبت سے لوگوں کی بھی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک وہ جن کا دایاں دماغ زیادہ فعال ہوتاہے اور دوسرے وہ جن کا بایاں دماغ زیادہ فعّال ہوتاہے۔جن لوگوں کا دایاں دماغ زیادہ فعّال ہوتاہے وہ شاعر، ادیب، ناول نگار، مصور، آرٹسٹ، موسیقار اور فنونِ لطیفہ کی طرف زیادہ مائل ہوتے ہیں، کیونکہ دائیں دماغ کا کام ہی یہی ہے ، عالم ِ وجدان میں رہنا، متخیلہ کے ذریعے جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنا، کہانیاں بنانا، تصورات میں مختلف مناظربُنتے رہنا ، نئے نئے خیالات سوچنا اور تخلیقی ہونا وغیرہ۔ اس کے برعکس جن لوگوں کا بایاں دماغ زیادہ فعّال ہوتاہے وہ حقیقت پسند ہوتے ہیں۔ منطقی، سائنسی اور عملی ذہنیت کے مالک لوگوں کو لیفٹ برینڈ (Left Brained) بھی کہا جاتاہے۔ مختصرالفاظ میں جن لوگوں کا دایاں دماغ زیادہ فعّال ہوتاہے وہ عموماً آرٹس کے لوگ اور جن لوگوں کو بایاں دماغ زیادہ فعّال ہوتاہے وہ عموماً سائنس کے لوگ ہوتے ہیں۔
جولیَن جینز کا کہنا ہے کہ آج سے چند ہزار سال پہلے تک انسانوں کا لیفٹ برین تجزیاتی اور منطقی نہیں بلکہ فقط عملی تھا جبکہ رائٹ برین مکمل طور پر تخیلاتی تھا۔وہ دائیں دماغ میں خواب دیکھتے اور بایاں دماغ خود بخود اُن پر عمل کے لیے مستعد ہوجاتا۔جولیَن جینز کا کہنا ہے کہ آج سے چند ہزار سال پہلے تک انسان زومبیز کی طرح زمین پر رہ رہے تھے۔ دایاں دماغ اپنی قوتِ متخیلہ سے کوئی واہمہ دیکھتا اور بایاں دماغ خودکار طریقے سے اُس پر عمل کرنے کے لیے تیار ہوجاتا۔دایاں دماغ کوئی واہمہ کیوں دیکھتا؟ کیونکہ ابھی انسان اپنی ذات کی آگہی سے محروم تھا۔ وہ یوں نہ سوچ سکتا تھا کہ وہ ایک الگ شخصیت ہے، جس کا الگ نام ہے اور جو اپنے فیصلے اپنی مرضی سے کرسکتاہے۔ کیونکہ سب کچھ اُس کے دائیں دماغ میں الوہیاتی آوازوں کی صورت نمودار ہوتا اور اُس کا بایاں دماغ آپ ہی آپ اُن آوازوں کے کہے پر عمل کرتاچلاجاتا۔یوں گویا انسان روزِ اوّل سے مذہبی تھا۔
دیکھاجائے تو ماڈرن مین سے پہلے کی نسلیں یعنی نینڈرتھل اور کرومیگنان کے آثار میں بھی مذہب کی طرف رجحان کے ثبوتوں پر اینتھروپولوجسٹس متفق ہیں۔جبکہ جولیَن جینز کا الوہیاتی آوازیں سننے والا انسان تو ابھی چند ہزار سال پہلے کی بات ہے۔ وہ جانور سے انسان بننے کے درمیانی عرصہ میں تھا۔اُس کا دماغ جو لاکھوں سال پہلے سے ہی’’ٹوچیمبرزبرین‘‘ بن چکاتھا، اب اپنے دائیں چیمبر میں توہمات (Hallucinations) دیکھ اور سن سکتاتھا۔یہ جانورسے انسان بننے کے لیے ضروری عمل تھا۔کیونکہ لاکھوں سال پہلے کے جانوروں کا رائٹ برین بھی نادیدہ اوراچانک پڑنے والی افتاد ہا سے نبرد آزما ہونے کے لیے پروان چڑھا تھا۔ آگے چل کر خودکار قوتِ متخیلہ میں تبدیل ہوجانا ایسے برین کے لیے قدرتی امرتھا۔
دنیا کی تقریباً ہرتہذیب میں انسانوں کا ماورائی طاقتوں کے ساتھ گفتگو کرنے کا عمل مشترک ہے۔ کہیں کسی انسان کے ساتھ دیوتا بات کررہے ہیں تو کہیں کسی انسان کے ساتھ خدا بات کررہاہے۔ زمین کا کوئی کونہ ایسا نہیں جہاں انسانیت پروان چڑھی ہو لیکن وہاں کی تاریخ میں انسانوں نے ماورائی طاقتوں کےساتھ باتیں نہ کی ہوں۔ جولیَن جینز کا مانناہے کہ یہ باتیں دراصل رائٹ برین کی کارستانی ہوا کرتی تھیں۔چونکہ انسان ابھی ارتقائے شعور کے بالکل ابتدائی مرحلے میں تھے اس لیے وہ خود سے آگاہ نہیں تھے۔ جس طرح چوپائیوں کے ایک ریوڑ میں افراد کی سطح پر شعوری آگہی کا تصور موجود نہیں ہوتا بلکہ ایک بھیڑ کے پیچھے لاکھوں بھیڑیں کنویں میں چھلانگ لگاسکتی ہیں بالکل ویسے ہی اپنی ذات سے بے خبر انسان صرف کسی ایک آواز پر اُٹھ کھڑے ہوتے اور خودکار طریقے سے چل پڑتے جیسے کوئی روبورٹس یا زومبیز کا کوئی جلوس۔تین چار ہزار سال پہلے تک عام لوگ روبورٹس کی طرح حرکت میں آتے تھے۔کہیں کسی ایک انسان کی متخیلہ میں اُسے خدا نے یا دیوتاؤں نے جو حکم دیا وہ حکم اُس کے اپنے لیے بھی عمل کا سبب بن جاتا اور وہ جب بآوازِ بلند دوسروں کو وہی حکم سناتا تو ہرسننے والے کا لیفٹ برین فوری طور پر ایکشن میں آجاتا۔
جولیَن جینز کے مطابق اس دور کے زیادہ تر انسان شیزوفرینیا کے مریضوں جیسے تھے۔وہ اپنے رائٹ برین میں آوازیں سنتے ، کالی طاقتوں یا مُردوں سے باتیں کرتے، دیوتاؤں سے یا خدا سے باتیں کرتے ۔ اور پھر اُن کا رائٹ برین اُن کے لیفٹ برین کو وہی احکامات یا پیغامات منتقل کرتا تو لیفٹ برین فعّال ہوکراُن انسانوں کو عملی طور پر متحرک کردیتا۔یوں گویا پرانے دور کے لوگ شیزوفرینیائی تخیلات کے پیچھے چوپائیوں کے ریوڑوں کی طرح چلتے چلے جاتے ۔نہ سوچ یا فکر کا کوئی عمل تھا اور نہ ہی اپنی انفرادی ذات سے آگہی تھی جو انہیں بطور فرد احساس دلاتی کہ وہ ریوڑ میں تو ہیں لیکن فردِ واحد بھی ہیں۔
اب چونکہ ’’ریم سلِیپ‘‘ (REM Sleep)کی نفسیات کے مطابق گمانِ غالب ظاہر کیا جاتاہے کہ جانوروں کو بھی خواب آتے ہیں۔چنانچہ یہ قیاس کہ ممالیہ جانوروں کی نیند میں کہیں اوّلین ’’بے صورت ‘‘اور ’’بے خدا‘‘ مذاہب کی مبہم سی شکل پائی جاتی تھی زیادہ بے معنی نہیں۔ایسا سوچنے میں جو خیال سب سے زیادہ ممد ہے وہ ہے، پانچ سو ملین سال پہلے ریڑھ کی ہڈی والے جانوروں کے دماغ کے دو حصے بن جانے کاخیال۔ دماغ کے دو چیمبرز گویا پچاس کروڑ سال پہلے ہی الگ ہوکر ، دو مختلف دماغوں میں ڈھل گئے تھے۔شروع سے ہی لیفٹ برین میں جو خصوصیات پیدا ہورہی تھیں وہ تھیں، جانداروں کےاُن رویّوں کا کنٹرول جو رویّے ہزاروں سال میں پنپ کر پختہ ہوچکے تھے اور رائٹ برین میں جو خصوصیات پیدا ہورہی تھیں وہ تھیں، کسی نادیدہ مصیبت کی صورت میں اچانک پیدا ہونے والے نت نئے جذبات کا کنٹرول۔ ’’سائنٹفک امریکن‘‘ میگزین کے ایک مضمون ’’ایولیوشنری اوریجنز آف یُوررائٹ اینڈ لیفٹ برین‘‘کے الفاظ میں،
The left hemisphere of the vertebrate brain was originally specialized for the control of well-established patterns of behavior under ordinary and familiar circumstances. In contrast, the right hemisphere, the primary seat of emotional arousal, was at first specialized for detecting and responding to unexpected stimuli in the environment.
اِسی طرح جانوروں کا وِژن بذاتِ خود، انسانی وِژن کے مقابلے میں اتنا تجریدی اور مختلف ہے کہ اُسے مکمل طورپر ایک الگ جہانِ بصارت سمجھاجاسکتاہے۔چنانچہ یہ کہنا کہ بائی کیمرل مائنڈ دراصل دماغ کا وہ درمیانی مرحلہ ہےجو انسان نما نسلوں کا جانور سے انسان بنتے وقت پیش آیاغیردرست نہیں۔جانوروں میں مذہب کارجحان پایا جاتاہے یا نہیں، اس سوال کے جواب کے لیے بعض معروف اینتھروپولوجسٹس آج بھی مصروفِ تحقیق ہیں۔ اُن کے نتائج کے مطابق، ڈالفن، چمپنزی اور ہاتھیوں میں مذہبی تہواروں جیسے اعمال پائے جاتے ہیں۔ مثلاً ہاتھیوں میں جنازے کا مبہم سا تصورپایا جاتاہے یا چمپنزی میں انعام کے حصول پر تقریب کے اہتمام کا سا رجحان دیکھا گیا ہے۔
تصریحاتِ بالا سے واضح ہوجاتاہے کہ جولین جینز کی تھیوری اتنی بھی بری نہیں جتنا بعض ایولیوشنسٹوں نے اُسے سمجھ لیا۔ رچرڈ ڈاکنز نے جینز کی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے ’’دی گاڈ ڈلیوژن‘‘ میں لکھا، ’’یا تو یہ کتاب بالکل مٹی کا ڈھیر ہے اور یا پھر اس کا مصنف کوئی ذہنی مریض۔ لگتاہے اوّل الذکرخیال درست ہے‘‘۔ اگر بنظرِ غائر دیکھاجائےتو جینز نے کہیں بھی مذہب کو کسی خدا کی طرف سے نازل ہونے والی وحی ثابت نہیں کیا بلکہ اس کے بالکل برعکس یہ تسلیم کیا کہ مذہب ارتقائے حیات کے رستے میں نمودار ہونے والا ایک وقتی مرحلہ تھا۔ یہ تو بعینہ وہی بات ہے جو عہدِ حاضر کے ہر اینتھروپولوجسٹ کی زبان پر ہے کہ مذہب کوئی الوہیاتی پیغام نہیں بلکہ انسانی شعور کے ارتقأ کے دوران نمودار ہونے والا ایک لازمی عنصرہے ۔ اگر ایسا ہے تو مذہب کو بجاطور پر شعورِ ذات کا ایک محرّک تسلیم کیا جاسکتاہے۔چنانچہ جولیَن جینز کی بائی کیمرل مائینڈ تھیوری جو اُس نے 1976 میں پیش کی اور جس نے اپنے وقت کے ایولیوشنسٹوں میں سنسنی کی لہر دوڑا دی تھی کوئی مذہب نواز تھیوری ہرگز نہیں اس لیے ڈاکنز کاتبصرہ فقط جلد بازی کے سوا کچھ نہیں۔جولین جینز کی تھیوری تو نظریۂ ارتقأ کو ایک ایسے نظم میں باندھ دیتی ہے جس سے ہرٹوٹی ہوئی کڑی جُڑتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ارتقأ کی رُو سے انسا ن بہت پہلے جانور تھا۔ پھر نیچرل سیلکشن اور میوٹیشن کے عمل سے وہ بتدریج انسان بنتا چلا گیا۔ بائی کیمرل مائنڈ تھیوری کچھ ثابت کرتی ہے تو یہ کہ انسان اپنی انفرادی ذات کے شعور سے کب روشناس ہوا۔ بائی کیمرل مائنڈ کے دور تک تو وہ زومبی تھا۔اُس وقت تک تو فقط یہ تھا کہ اِدھر دائیں دماغ نے ہَلوسی نیشن دیکھا اور ایک آواز سنی۔ اُدھر بائیں دماغ نے خودکار طریقے سے انسان کو اُٹھا دیا اور کسی روبورٹ کی طرح کام پر لگا دیا یا لڑا دیا۔
جولین جینز لکھتاہے کہ قدیم انسان، لگ بھگ ایک ہزار سال قبل مسیح تک ’’میٹاکانشس‘‘ یعنی خودآگاہ نہیں تھا۔اس دور تک عادات نے ابھی نئے محرکات کا سامنا نہیں کیا تھا اور شعور کے لیے ’’فیصلےکرنے کا ذہنی دباؤ‘‘ ابھی نمودار نہیں ہوا تھا۔اعصابی سرگرمیوں پر لیفٹ برین کا قبضہ تھاجبکہ لیفٹ برین آوازوں کے زیراثر متحرک ہوتاتھا اورآوازیں ، خاموش اور خفیہ دماغ یعنی رائٹ برین میں سنائی دیتی تھیں۔اس وقت کا انسان اُن آوازوں کوحاکم اور سردار خداؤں کی آوازیں سمجھتا اورفوری اطاعت پر مجبور ہوتاتھا۔جولیَن جینز لکھتا ہے کہ انسانوں میں خواہش پہلی مرتبہ ایک آواز کی صورت پیدا ہوئی ہوگی جوایسی ارتقائی ساخت کے جانوروں کا فطری تقاضا تھی کیونکہ وہ فقط ایک ’’نیورولوجیکل کمانڈ‘‘ سے زیادہ کچھ نہ تھی۔خواہش کی اس قسم میں کمانڈ اور ایکشن الگ الگ نہیں تھے۔ بالفاظ دیگر’’ سننے‘‘ کادوسرا مطلب ’’اطاعت‘‘ کرنا تھا۔جولیَن جینز کا کہناہے کہ پہلی بار بائی کیمرل مائنڈ سے’’ آگاہ دماغ‘‘ کی طرف تبدیلی کا عمل لگ بھگ اٹھارہ سو قبل مسیح میں پیش آیا۔اس زمانہ میں انسانی دماغ نے ’’فیصلے کرنے کا دباؤ‘‘ قبول کرناشروع کیا۔یہ وہ زمانہ ہے جب جولین جینز کے بقول ’’کے اوٹِک سوشل ڈِس آرگنائزیشن‘‘ کا آغاز ہوا اور انسانی رویوں کو کنٹرول کرنے کے لیے نئے نئے طریقوں کو رواج ملنا شروع ہوا جیسا کہ مثلاً لکھنے کے عمل کا آغاز۔
ادریس آزاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر کسی کو اس تصویر میں بلیو اینڈ بلیک کلر نظر آتاہے تو وہ کلیرلی رائٹ مائنڈڈ ہے۔ اُسے دیواروں اور بادلوں میں پیٹرن بھی نظر آتے ہونگے۔
اگر کسی کو اس تصویر میں وائٹ اینڈ گولڈن نظر آتاہے تو وہ کلیئرلی لیفٹ مائںڈڈ ہے۔
اگر کسی کو اس تصویر میں بلیو اینڈ گولڈن نظر آتاہے تو وہ ہاف رائٹ ہاف لیفٹ مائنڈڈ ہے اور اسے کبھی دائیں بائیں پوزیشن کے مسائل بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔
نوٹ: ہلکا نیلا مطلب جیسے سفید کپڑے کو نیلا رنگ کردیا گیا ہو نیلے میں شمار ہوگا کہ سفید میں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جو غالب محسوس ہو۔