انسان آج بھی مرکز کائنات ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عام طور پر کہا جاتاہے کہ جب گیلیلیو نے دوربین دریافت کرلی اور سیّاروں کو دیکھ لیا گیا تو کوپرنیکن انقلاب کی تصدیق ہوگئی اور کتابِ مقدس کی بات جھوٹی ثابت ہوگئی کہ انسان کائنات کا مرکز ہے۔ چونکہ کتابِ مقدس کی بات جھوٹی ثابت ہورہی تھی اس لیے چرچ نے گیلیلو کو بھی سزائے قید دی اور برونو کو بھی سزائے موت دی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سائنس کے ہاتھوں مذہب کی پہلی شکست تھی۔ مذہب کا دعویٰ تھا کہ انسان کائنات کا مرکز ہے اور تجرباتی سائنس نے ثابت کردیا تھاکہ نہیں نہیں، انسان تو ایک معمولی سیارے پر آباد ہے جو خود سورج کے گرد گھوم رہاہے اس لیے انسان تو ہرگز کائنات کا مرکز نہیں ہوسکتا۔ انسان کائنات کا مرکز نہیں ہے تو پھر یقیناً انسان خدا کے تخلیقی پروگرام کا مرکزی نکتہ بھی نہیں ہے بالفاظ دیگر خلیفۃ اللہ بھی نہیں ہے۔
لیکن اب کہا جاتاہے کہ کائنات کے اس اِتنے بڑے گلوب میں ، اس اتنے بڑے گنبد میں کوئی کہیں بھی چلا جائے، یہ گبندِ کائنات اُسے ہرطرف سے برابر محسوس ہوگا کیونکہ کائنات میں وقت اور خلا ایک ساتھ پھُوٹے ہیں، اس لیے کوئی ایسی جگہ ممکن نہیں جو کائنات کے کناروں کے نزدیک ہو۔ ہرکوئی کائنات کے عین درمیان میں واقع ہے۔
اب سوچتاہوں، اس ’’ہرکوئی‘‘ میں بے شک تمام ستارے سیّارے اور کنکرپتھر بھی شمار ہوتے ہیں لیکن وہ تو اپنے ہونے سے بے خبر ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب کبھی بھی کوئی یہ بتانے کے قابل ہوگا کہ وہ مرکز ِ کائنات ہے تو وہ انسان ہی تو ہوگا۔ تو سائنس نے مذہب کو جو پہلی پہلی شکست دی تھی، کیا وہ شکست واقعی ہوگئی تھی؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“