کورونا کویی پہلا وائرس نہیں ہے جس نے عالمی سطح پر ہلچل مچا دی ہے . جب سن 1918 میں پہلی جنگ عظیم کی عالمی تباہی پر قابو پانے کی کوشش کی جارہی تھی ، اسی وقت ہسپانوی فلو نے دستک دی تھی ۔ ہسپانوی فلو نے پہلی جنگ عظیم میں ہلاک ہونے والوں سے دو گنا لوگوں کواپنے شکنجے میں لیا ۔ اس عرصے میں تقریبا 5 5 کروڑ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ یہ انسانی تاریخ کی بدترین وبائی بیماری تھی۔ کوویڈ ۔ ہسپانوی فلو سے کورونا تک ایک صدی گزرچکی ہے ، لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ اس دوران ہم نے کیا سیکھا؟ ہسپانوی فلو مغربی محاذ پر فوجیوں کے تربیتی کیمپوں میں پھیل گیا۔ خندقوں کے آلودہ ماحول اور خاص طور پر فرانس کی سرحدوں کے ساتھ ، وائرس کے پھیلنے میں مدد ملی۔ جب نومبر 1918 میں جنگ ختم ہوئی اور فوجیوں نے وطن واپس جانا شروع کیا تو ، ان کے ساتھ وائرس بھی آگیا۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے پھیلنے کی وجہ سے 5 سے دس کروڑ افراد اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے. وائرس کی تاریخ اس سے بھی زیادہ قدیم ہے . ہندوستانی سیاست کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ سارے وائرس ایک طرف ، انصاف وائرس کا جو پہلو نظر آتا ہے ، وہ ہمیں مسلسل ایک ایسی خوفناک وادی یا کھایی کی طرف لے جاتا ہوا دکھایی دیتا ہے ، جہاں سے بچنے کا کویی راستہ کسی کے پاس نہیں . ہیروشیما اور ناگاساکی کی تباہی کے بعد اندھی ، گونگی بہری نسلیں پیدا ہوئی تھیں . انصاف وائرس نے ہمیں اندھا بھی کر دیا ہے اور ہم سے سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیتیں بھی چھین لی ہیں .انصاف وائرس کے کچھ مناظر آپکو دکھاتا ہوں .
پہلا منظر
مت سوچئے کہ ملک کہاں جا رہا ہے .مت غور کیجئے کہ کس طرح انصاف کے تابوت میں حکومت آخری کیل ٹھوکنے کی کوشش میں مصروف ہے .پھر آپ ایک ایسے ملک کے مردہ شہری ہونگے جس کے پاس لکھنے ،پڑھنے ،سوچنے ،دیکھنے کے لئے صرف سرکاری وسائل ہوں گے .حکومت آپکی آزادی پر لگام لگا چکی ہے .اب صرف آپکو مردہ ثابت کیے جانے کا تماشہ باقی ہے .زیادہ دنوں کی بات نہیں .محض ایک ڈیڑھ برس قبل چیف جسٹس جوزف کی تقرری کو لے کر رندیپ سنگھ سرجیوالہ کا بیان آیا تھا کہ اس وقت عدلیہ پر سب سے بڑا حملہ ہو چکا ہے .اگر ملک اس حملے کے خلاف کھڑا نہیں ہوتا ہے تو جمہوریت خطرے میں پڑ جائے گی .سپریم کورٹ بار ایسو سیشن کے سو وکلا نے موڈی حکومت کے فیصلے کے خلاف پٹیشن داخل کی تھی .خدشہ اس بات کا تھا کہ عدلیہ کی موت کے ساتھ جرائم بڑھ جایئنگے .قاتلوں اور مجرموں کے اچھے دن تو پہلے ہی آ چکے ہیں ، انکی چاندی ہو جائے گی .جمہوریت کی لاش پر ایک ایسا ملک تعمیر ہوگا ، جو ہماری قدیم وراثت کے چیتھڑے اڑا کے رکھ دے گا .
زیادہ عرصہ نہیں گزرا ،جسٹس چیلمیشورکو یہ بیان دینا پڑا کہ جسٹس گگوئی کو چیف جسٹس نہیں بنایا گیا تو ہمارے خدشات سچ ثابت ہو جائیں گے.اس سے بھی صاف ظاہر تھا کہ مودی حکومت میں عدالتی نظام کو لے کر جو دباؤ قایم کیا جا رہا ہے ،اور دباؤ کے زیر اثر سارے اہم فیصلے اپنے نام کیے جا رہے ہیں ، اس سے ہمارے ججز نہ صرف نالاں ہیں بلکہ ایسے فیصلوں کو ہندوستانی آزادی اور جمہوریت کی موت کے طور پر بھی دیکھ رہےہیں .. جسٹس چیلمیشور نے پریس کانفرنس میں کہا تھا ، ہم یہ نہیں چاہتے کہ آج سے بیس سال بعد نیی نسل کو یہ خیال اے کہ جسٹس، گوگوئی، لوکر اور کرین جوزف نے اپنی روحوں کا سودا کر لیا تھا اور آئین کے مطابق اپنے فرائض پورے نہیں کئے تھے۔
اس وقت چیف جسٹس مشرا کے نام لکھے گئے خط میں ان ججوں نے ان پربھی الزام لگایا تھا کہ وہ اہم اور نہایت سنجیدہ نوعیت کے مقدمات اپنی مرضی کی بینچز کے سپرد کرتے ہیں اور ان فیصلوں میں وہ ضوابط کا پاس نہیں رکھتے۔ یہ بھی کہا گیا کہ موجودہ چیف جسٹس اہم مقدموں کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جن بہت سے مقدمات کا ان ججز نے ذکر کیا ہے ان میں سے اہم ترین کیس ہندوستان کے تحقیقاتی ادارے سی بی آئی کی عدالت کے جج بی ایچ لوئیا کی موت سے متعلق ہے جو نہایت مشکوک حالات میں واقع ہوئی تھی۔اور اس کے بعد غور کیجئے کہ ثبوت و شواہد کی موجودگی کے باوجود کس طرح جج لویا کی فائل بند کر دی گیی اور فرضی بیان کو سامنے رکھ کر حکومت کے قریبی ججوں نے اپنا فیصلہ سنا کر امت شاہ کو اس کیس سے بری کر دیا . اس منظرنامہ میں سب سے اہم کرداروں میں سے ایک رنجن گگویی بھی تھے . انصاف کا سمبل . ہندوستان پرامید تھا کہ جب تک ایسے لوگ ہمارے درمیان ہیں ، ہمارا ملک زخمی نہیں ہو سکتا .جمہوریت کو کویی نقصان نہیں پنہچا سکتا .
دوسرا منظر
یہ منظر پہلے منظر سے ملتا جلتا ہے .چار جج آزادی کے ستر برس بعد ایک ایسی دردناک کہانی کے گواہ بن گئے ، کہ اس کہانی کو قلمبند کرتے ہوئے ذہن و دماغ میں ابھی تک سنناتا طاری ہے عدالت میں فیصلے سناہے جا رہے تھے . .عدالت کو درمیان میں روک کر تین جج اپنے مقام سے اٹھے.اس درمیان صرف اتنا ہوا کہ ایک فون آیا .ضمیر کی آواز کو لبیک کہا گیا . اوریہ چار جج ، چار برسوں کی خوفناک دہشت کے گواہ بن گئے -ہندوستان کی سپریم کورٹ کے چار سینیئر ترین ججوں نے پریس کانفرنس کر کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اتھارٹی کو چیلنج کیا. جسٹس جے چلاسپیشمر، جسٹس رنجن گوگوئی، جسٹس مدن لوکر اور جسٹس کرین جوزف ..چلا سپیشمر نے کہا ’ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ اگر سپرم کورٹ کا وقار مجروح ہوا تو اس ملک میں جمہوریت نہیں بچ سکے گی اور نہ ہی کسی اور ملک میں۔ اس بیان کا سب سے مضبوط حصّہ وہ ہے ،جس میں کہا گیا کہ ہم نہیں چاہتے کہ 20 سال بعد اس ملک کی تارخ لکھی جاۓ تو یہ کہا جاۓ ، چلاسپیشمر، رانجن گوگوئی، مدن لوکر اور کرین جوزف نے اپنا ضمیر بیچ دیا تھا …
ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں ہندوستان کے چوراہوں اوردیواروں پر صرف یہ عبارت لکھی جانی باقی ہے کہ ہندو راشٹر میں آپ کا سواگت ہے .مسلمانوں اور دلتوں کا قتل ، ہر روز نیے مظالم .حکومت ہر شعبہ کو خرید چکی ہے .انصاف کی عمارت پر بھی زعفرانی پرچم لہرا چکے ہیں .. .جسٹس لوہیا کے قتل ، سہراب الدین مرڈر کیس ،فرضی انکاونٹر ، ہم بھول گۓ کہ ان واردات کو سپریم کورٹ کے جج بھی خاموشی سے دیکھ رہے تھے .
اس وقت یقین کرنا مشکل تھا کہ ایک تیسرا منظر بھی سامنے آنے والا ہے جو اس حقیقت کی دھجیاں بکھیر دیگا کہ انصاف ابھی زندہ ہے .
تیسرا منظر
مودی پروٹوکول توڑ کر چیف جسٹس رنجن گگویی کے گھر گئے .اسکے بعد منظرنامہ بدل گیا . جو یہ کہتا تھا کہ تاریخ معاف نہیں کریگی ، اس نے انصاف کی تاریخ کو دنیا کے سب سے خوفناک اور بد ترین وائرس میں تبدیل کر دیا . انساب کی عمارتوں پر اب تک زعفرانی پرچم ہی لہرایا تھا ، اب انصاف خود زعفرانی دروازے پر تھا . بلکہ زعفرانی طاقتوں کے آگے گھٹنے ٹیکے ، جھکا ہوا . یہ ہندوستان کی اب تک کی تاریخ کا سب سے گھنونا واقعہ یا جرم ہے جس کی عالمی سطح پر بھی کویی دوسری مثال نظر نہیں آتی .
ہم کورونا کے وائرس سے لڑ سکتے ہیں . انصاف وائرس سے نہیں .
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...