انصاف پر قاتلانہ حملہ
دو سال پہلے شملہ پہاڑی لاہور کے قریب درندہ صفت وکیل کے بیٹے نے ایک نہتی لیکن بہادر لڑکی پر چاقو سے حملہ کیا تھا،معصوم لڑکی کے جسم پر چاقو سے چوبیس حملے کئے گئے جس سے وہ شدید زخمی ہوگئی ،نیم مردہ حالت میں اس ہوا کی بیٹی کو اسپتال پہنچایا گیا۔وہ شدید زخمی تھی ،ڈاکٹروں نے روتے ہوئے والدین کو کہا کہ بچی شدید زخمی ہیں ،بہت خون بہہ چکا ،بچنے کہ بہت کم چانس ہیں ،بہت دیر تک اس کا علاج ہوتا رہا ،پاکستان کی بہادر لڑکی نے موت کو شکست دے ڈالی اور اس خوفناک حادثے سے بچ گئی۔اس وقت ڈاکٹروں نے ٹی وہ پر یہ بیان دیا تھا کہ حملہ اس قدر شدید تھا کہ لڑکی کی گردن پر صرف ساٹھ سے زائد ٹانکے لگے تھے ۔ جس لڑکی پر یہ بزدلانہ وار کئے گئے اس کا نام خدیجہ صدیقی ہے اور جس جانور نے یہ حملے کئے تھے وہ پاکستان کے ایک معروف وکیل کا بیٹا شاہ حسین ہے۔علاج کے بعد بہت دنوں تک قانون کی طالبہ خدیجہ صدیقی ٹراما کی کیفیت میں رہی۔اس تکلیف دہ صورتحال سے نکلنے کے بعد خدیجہ نے بہادری سے قانونی جنگ لڑنا شروع کی ،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 29جولائی 2017 کو لاہور کی ایک عدالت نے قتل کی کوشش کا جرم ثابت ہونے پرمجرم شاہ حسین کو سات سال قید بمشقت سنائی ۔اسی سال لاہور کی ایک سیشن عدالت نے وکیل کے مجرم بیٹے کی سزا سات سال سے کم کرکے پانچ سال کردی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ مجرم کے باپ کا شمار لاہور کے بااثر وکیلوں میں ہوتا ہے اور وہ بھی ایسا وکیل جو وکلا مافیا کا سرغنہ ہے اور جس کا کام وکلا گردی کا پرچار کرنا ہے ۔لاہور کی سیشن عدالت کے فیصلے کے خلاف قانون کی بہادر طالبعلم خدیجہ صدیقی نے لاہور ہائی کورٹ میں اپیل کی ،لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس سردار احمد نے گزشتہ روز مجرم شاہ حسین کو تمام الزامات سے بری کردیا ۔اب تحریری فیصلے کے بعد اس مجرم کی رہائی عمل میں آسکتی ہے۔وہ اوریجنل فیصلہ جس میں شاہ حسین کو سات سال کی سزا دی گئی تھی ،اس میں جج نے فیصلہ سناتے ہوئے یہ کہا تھا کہ عینی گواہوں سے تفصیلی جرح کے باوجود کوئی بھی شہادت ملزم کے حق میں نہیں آئی ،خدیجہ صدیقی کے جسم پر گہرے زخموں کی نوعیت اور شدت یہ بتاتی ہے کہ ملزم شاہ حسین خدیجہ صدیقی کو جان سے مار دینا چاہتا تھا ۔ڈاکٹروں نے جو ڈی این اے رپورٹ جاری کی تھی ،وہ ڈی این ائے سیمپل بھی خدیجہ صدیقی سے میچ کر گیا تھا ،یہ ایک دستاویزی سائنسی ثبوت تھا۔گزشتہ روز جو فیصلہ سامنے آیا اس میں کہا گیا کہ زیلی عدالت کا شاہ حسین کو سزا دینے کا فیصلہ کالعدم قراردیا جاتا ہے ،جج نے یہ وجوہات نہیں بتائی کہ کیوں شاہ حسین کو رہا کیا گیا؟اس ساری صورتحال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں انصاف کا قتل عام کس طرح کیا جاتا ہے ۔وکلا گردی اور وکلا مافیا کا دباو پاکستان میں انصاف کی راہ میں بہت بڑا پہاڑ ہے۔اس فیصلے کے بعد دنیا کی بہادر ترین لڑکی خدیجہ صدیقی نے ٹی وی انٹرویو کے دوران بتایا کہ سمجھ نہیں آتی کہ ہائی کورٹ نے کیسے مجرم کو بری کردیا ؟کہتی ہیں یہ فیصلہ ان کے لئے ایک خوفناک دھچکا تھا۔خدیجہ صدیقی کا کہنا ہے کہ زخموں کے نشان آج بھی اس کے جسم پر ہیں ،اس درندے نے مجھے قتل کرنے کی کوشش کی ،لیکن کورٹ نے اسے بری کردیا ،یہ کیسا انصاف کا نطام ہے ؟خدیجہ صدیقی کے مطابق گزشتہ روز انصاف کو عدالت میں زبح کیا گیا اور سب یہ تماشا دیکھتے رہے ۔خدیجہ صدیقی کا کہنا ہے کہ جب یہ مقدمہ چل رہا تھا تو ان کے گھر ایک سی ڈی بھیجی گئی جس میں فوٹو شاپ کرکے ان کی گندی تصاویر تھی ،کہا گیا کہ مقدمے سے پیچھے ہٹ جاو ورنہ تمہیں گندہ کردیں گے ۔کہتی ہیں کہ درجنوں وکیلوں نے وکیل کے جانور بیٹے کو بچانے کے لئے ان پر دباو ڈالا ،ان کے والدین کو قتل کی دھمکیاں تک دی گئی ۔خدیجہ صدیقی کے مطابق جب یہ مقدمہ چلا رہا تھا تو ایک سیشن جج نے ان کو کورٹ میں بلایا اور کہا لڑکی اب اس کیس کو فالو کرنے کا کیا فائدہ ہے ،تم صلح کیوں نہیں کر لیتی ؟خدیجہ صدیقی کا کہنا ہے کہ جج نے کورٹ روم میں شاہ حسین کے وکیل باپ کو بھی بلا رکھا تھا ،وہ حکم دے رہا تھا کہ صلح کر لو ،بڑے بڑے قاتلوں کو معاف کردیا جاتا ہے ،تمہیں تو صرف زخمی کیا گیا تھا اور اب بھی زندہ ہو ،معاف کردو اور گھر جاو۔خدیجہ کہتی ہیں کہ یہ ہے ہماری عدالتوں کے کچھ ججوں کی زہنیت ،وہ اس زہنیت کے خلاف لڑ رہی ہیں ،وہ اس معاشرتی برائی کے خلاف لڑ رہی ہیں اور کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گی ۔کہتی ہیں کہ سماعت کے دوران ایک جج نے ان سے پوچھا کہ یہ بتاو کہ شاہ حسین نے تم پر حملہ کیوں کیا ؟ اس کا مقصد کیا تھا ؟کیونکہ تم نے شاہ حسین کی بے عزتی کی تھی ،اس لئے اس نے تم پر جان لیوا حملہ کیا؟یہ ہے ہماری عدالت کی وہ زہنیت جس کے خلاف خدیجہ جیسی بہادر لڑکی جنگ لڑ رہی ہیں ۔خدیجہ صدیقی کہتی ہیں کہ گورنر پنجاب رفیق رجوانہ نے انہیں کہا کہ وہ کیس سے پیچھے ہٹ جائیں،گورنر پنجاب اور مجرم شاہ حسین کے والد دونوں دوست اور وکیل ہیں ،اس لئے گورنر پنجاب نے ان پر دباو ڈالا۔کہتی ہیں کہ گورنر نے ان سے کہا کہ بیٹا صلح کر لو ،سزا تو اس لڑکے کو ہوگئی ہے۔اس کا مستقبل تباہ ہوگیا ۔خدیجہ صدیقی کی یہ تمام باتیں چیخ چیخ کر یہ گواہی دے رہی ہیں کہ لاہور ہائی کورٹ کے جس جج نے شاہ حسین کو رہائی دی ،اس پر کتنا دباو ہوگا؟اس لئے تو اس نے بغیر وجوہات بتائے ،دلائل دیئے بغیر شاہ حسین کو بری کردیا ۔خدیجہ صدیقی کہتی ہیں کہ وہ چیف جسٹس ثاقب نثار سے اپیل کرتی ہیں کہ وہ اس کیس کا از خود نوٹس لیں کیونکہ سرعام انصاف کا قتل کیا گیا ہے اور وہ بھی کورٹ میں ۔کہتی ہیں وہ اپیل کررہی ہیں تاکہ مجرم کی سزا بحال کراسکیں ،چین سے بیٹھنے والی نہیں ہیں ۔کہتی ہیں کہ کیا انصاف کا نظام ہے کہ انصاف مل جاتا ہے ،پھر دباو میں آکر چھین لیا جاتا ہے اور پھر اپیلوں کے لئے دھکے کھانے پڑتے ہیں ؟کیا وکیل کے بیٹے ہونے کا یہ مطلب ہے کہ جس کا وہ چاہے قتل کردے ،جس پر چاہے حملہ کردے ،جس لڑکی کا وہ چاہے ریپ کردے ۔ایک بات تو واضح ہے کہ شاہ حسین کو اس کے اعلی و ارفع وکیل باپ نے مجرم بنایا ہے ۔لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہے کہ کیسے جج نے بغیر وجوہات کے مجرم کو رہا کردیا ؟اب سوال یہ ہے کہ کیا چیف جسٹس آف پاکستان از خود نوٹس لیں گے ؟انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ بار کی سیاست کیسے ہوتی ہے ؟وکلا گردی اور وکلا مافیا کتنے طاقتور ہیں ؟کیا اس سب دباو کے باوجود چیف جسٹس ثاقب نثار از خود نوٹس لیکر خدیجہ صیقی کو انصاف فراہم کرسکیں گے ؟معاشرہ کفر پر تو چل سکتا ہے لیکن ظلم پر نہیں چل سکتا ،عدالت میں خدیجہ صیقی کے ساتھ بے انصافی کا مظاہرہ کرکے ظلم کیا گیا ہے ؟خدیجہ صدیقی کہتی ہیں وہ ہار ماننے والوں میں نہیں ،اس ظلم کے خلاف لڑیں گی ،کیونکہ اب ان کا ایشو قومی ایشو بن چکا ہے ،خواتین کا ایشو بن چکا ہے ۔میری بطور ایک فرد کے چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار سے اپیل ہے کہ وہ قوم کی بہادر بچی کی آواز سنیں اور اس کیس کا ازخود نوٹس لیں ۔ساری قوم اب چیف جسٹس آف پاکستان کی طرف دیکھ رہی ہے؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔