عرصہ دراز سے ہم ایک بات کا تجربہ کر رہے ہیں کہ جب مفلس پر ظلم ہو تو اس کے لیے انصاف کا نعرہ کوئی نہیں لگاتا۔ جبکہ کسی مشہور خاندان کے فرد کو کوئی ہلکا سا برا بھی کہہ دے تو ہزاروں لوگوں تعزیت اور افسوس کرتے ہیں۔ غریب انصاف کے لیے عدالت کے دروازے کو سالوں تک دستک دیتا ہے۔ انصاف ملنا تو دور کی بات اس کو ذلیل خوار کرکے کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہونے دیتے، یا یوں کہنا بہتر ہوگا کہ غریب کو عدم انصاف کی دستیابی دیکھ کر کئی نامور افراد گونگے اور بہرے بن جاتے ہیں۔
غریب کی بیٹی سے زیادتی ہو یا اس کی چھت چھین لی جائے تو وہ ٹھوکر کھا کر خاموش ہو جاتا ہے۔ جبکہ امیر سے کوئی انصاف کی خاطر سوال پوچھ لے تو الٹا اس کے خلاف مقدمہ درج کروا دیا جاتا ہے کہ یہ عزت اور شہرت پر دھبہ لگانے کی سازش میں ملوث ہے۔
گزشتہ دن ایک سوشل میڈیا پر تصویر آنکھوں کے سامنے گزری ،جس میں ایک نامور اور امیر ترین آدمی ایک شخص سے سر عام بیچ سڑک لڑ رہا ہے۔ اب اس نامور امیر ترین آدمی کے حق میں درجنوں افراد نے آواز اٹھائی لیکن حقیقت جاننے کی کوشش نہ کی گئی، حتی کہ ماضی کی طرف نظر بھی نہیں دوڑائی گئی کہ ایسا کیا ہوا کہ لوگ اس نامور امیر کے خلاف بھی ہیں خاص طور پر غریب طبقہ جن کی آواز ہی کوئی نہیں سنتا۔
بڑے شہروں میں ہم قبضہ مافیہ اور تجاوزات کا سنتے ہیں۔ گھر ، پلاٹ یا دکان کمزور فرد سے چھینی جاتی ہے۔ کسی صاحب قوت سے یہ زیادتی نہیں سنی ہوگی۔ کیونکہ صاحب قوت عدالت میں بڑے وکلاء کے ذریعے اپنی جائیداد واپس لے سکتا ہے لیکن ایک عام فرد تھانے پر "ایف آئی آر" درج کرانے کی رسائی بھی نہیں رکھتا۔
تجاوزات کی بات کی جائے تو سڑک پر کھڑے ہزاروں سبزی،پھل، اخبار اور اس طرح درجنوں دکاندار رزق حلال کماتے ہیں۔ یہ سڑک پر مفت میں نہیں کھڑے ہوتے، ان سے مختلف اداروں کے نمائندے سڑک پر کھڑا ہونے کا معاوضہ لیتے ہیں۔ خواہ وہ ادارے کو پتا ہو یا نہ ہو۔ جب عدالت یا حکومت کے حکم کے مطابق تجاوزات کے خلاف آپریشن ہوتا ہے تو سب سے پہلے یہی نچلے طبقے لوگوں کا روزگار ختم ہوتا ہے۔ جبکہ بڑے شاپنگ مال وغیرہ نے پارکنگ کے نام پر 60 فیصد سڑک کا حصہ گھیر رکھا ہوتا ہے۔ وہاں عام مسافر کو رکنے اجازت تک نہیں ہوتی، اس غیر قانونی تجاوز پر قانون لاگو نہیں ہوتا یا پھر ذاتی اور اعلی تعلقات کی بنیاد پر رعائیت دی جاتی ہے۔
آپ سرکاری دفاتر میں جائیں تو وہاں بھی امیر اور غیر سے امتیازی رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ یہ سب سالوں سے ہوتا آرہا ہے۔
انصاف صرف عدالت نہیں دیتی بلکہ ریاست کا ہر ادارہ انصاف دینے کا پابند ہے۔ امیر و غریب کے ساتھ مساوی سلوک کرکے، دونوں پر برابر کا قانون نافذ کرکے۔
میں نے کافی بار دیکھا کہ نادرا کے میگا دفتر کے باہر لمبی لائن لگی ہوتی ہے۔ گرمی میں مرد و خواتین اپنی اپنی باری کا گھنٹوں سے انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف جب کوئی بڑی کار آکر رکتی ہے تو سیکورٹی گارڈ کار سے اترنے والے امیر افراد کو بغیر قطار میں رکے اور انتظار کرائے اندر بھیج دیتے ہیں۔ ساتھ ہی فخریہ انداز میں سلام بھی کرتے ہیں۔ اس طرح قطار میں کھڑے لوگ سوائے افسوس اور اپنی قسمت کو کوسنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے۔
میرے کہنے کا مقصد اتنا ہے کہ جس طرح عام آدمی گرمی و سردی سرکاری اداروں میں مختلف مسائل کا شکار ہوتا ہے۔ اس طرح امیر افراد بھی ہوں اس طرح ادارے تیزی سے اپنے رویے میں تبدیلی لائیں گے۔ انصاف کا ترازو برابر کا ہو۔ جس طرح نامور فرد کے لیے انصاف کی خاطر اداروں پر دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ اس طرح غریبوں کے لیے بھی آواز اٹھائیں تاکہ ان کو بھی بنیادی وسائل و سہولیات میسر ہوں۔ ان کو بھی انصاف ملے ۔ اس طرح ریاست کی دلوں میں محبت زیادہ ہوگی ناکہ بغاوت۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...