یہ تحریر سندھی زباں میں بھی ہو سکتی تھی
وہ سندھی زباں جس میں شہد کی خوشبو ہے
وہ سندھی زباں جس میں زہر کی خوشبو ہے
وہ سندھی جو شاہ لطیف کی زبان ہے
وہ سندھی جو بغاوت کا اعلان ہے!!
وہ زباں جس میں شیخ ایاز نے گواہی دی ہے
”جس پر بھی ہوا؛ جس جگہ ہوا؛ جس وقت ہوا
وہ ظلم و ستم مجھ پر ہی ہوا“
آنسوؤں کی طرح انصاف کسی زباں کا محتاج نہیں
انصاف جو تاریخ ہے
تاریخ جو وحشی چیخ ہے
سندھ کے چیف جسٹس کے ساتھ جو ناانصافی ہو رہی ہے
کیا اس پر اٹھنے والے آوازوں کو سیاست اور ریاست
دبا پائے گی؟
جب ایک منصف کے ساتھ ناانصافی ہو
جب انصاف کے ساتھ بدمعاشی ہو!!!
تب تاریخ کی رکی ہوئی نبض بھی رواں ہوسکتی ہے
جائیں! جو فیصلے کرنے ہیں وہ کر آئیں
مگر صرف اتنا بتائیں
کیا سندھ کو سانس لینے سے روک دیا جائے گا؟
آپ انسانوں کو تو دھمکا کر چپ کر سکتے ہیں
مگر اس وقت کیا کہیں گے
جب دھرتی بولے گی
جب کارونجھرکوک بن جائے گا
جب مکلی کے مذاروں پر بجلی چمکے گی
کیا قومی پرچم کی چھتری اس تیزابی بارش کو
روک پائے گی؟
جو تیزابی بارش
سندھ کے غمگین دل سے غبار جنم لے گی
اور گھنگھور گھٹاؤں کی زباں سے کہے گی
”انصاف کا جنازہ ہے
ذرا دھوم سے نکلے!!!
اور سندھ کے ہر گھاؤ کو
ذرا چوم کے نکلے!!!“