آنند اپنا winners take all
کا بیانیہ Tolstoy کہ ایک بہت زبردست قول سے شروع کرتا ہے۔
“I sit on man’s back, choking him and making him carry me, and yet assure myself and others that I am sorry for him and wish to lighten his load by all means possible – except by getting off his back “
یہ ہے بہت خوبصورت مثال استحصال کی اور خیراتی نظام کی ۔ اگلے دن ثاقب نثار اور امجد ثاقب ایک دوسرے کو حدیثیں سنا کر اور ایک دوسرے کہ گلے لگ کر رو رہے تھے ۔ اور کل ثاقب نثار نے تمام پرائیوٹ ہسپتالوں کی پڑتال شروع کروا دی ۔ یہ وہی ثاقب نثار ہیں جنہوں نے ۲۰۱۰ میں جب چیف منسٹر نے ایک بچی مرنے پر مجھے تین رکنی ٹیم کہ ساتھ انکوائری کا کہا اور ہماری کمیٹی نے ہسپتال کو seal کرنے کی finding دی جو شہباز شریف نے منظور کرتے ہوئے ہسپتال seal کرنے کا کہا تو ثاقب نثار نے اس کہ خلاف stay دیا اور رمدے نے اپنی وینٹیلیٹر پر بیوی وہاں داخل کروا دی ۔ جی یہ وہی ثاقب نثار ہیں ، میری شدید سرزنش کی ، اور جب اسی معاملہ کو اس وقت کہ چیف جسٹس خواجہ شریف نے Suo Moto لیا اور ہسپتال انتظامیہ پر ۳۰۲ کا پرچہ درج کروانے کا کہا تو ثاقب نثار نے نہ صرف مخالفت کی بلکہ سؤ موٹو کو گناہ کبیرہ گردانا ۔ لیکن اس سانحہ کہ بعد ایک ہیلتھ ریگولیڑری اتھاڑتی ضرور بن گئ جو کہ ان ہسپتالوں کی مانیٹرنگ اور پڑتال کرے ۔ امجد ثاقب اس اتھارٹی کا کرتا دھرتا بن گیا۔ بجائے اس کے ثاقب نثار امجد ثاقب کی سرزنش کرتے کہ آپ پچھلے پانچ سال سے ہیلتھ کمشنر رہے ، ہر صحت کی ریگولیٹری باڈی میں رہے ، زرا بتائیں کیا کیا آپ نے ؟ ہسپتالوں سے پوچھا جا رہا ہے کہ کیوں نہ میں آپ کی کلاس لوں؟ امجد ثاقب کا تو اپنا فاؤنٹین ہاؤس پیسہ لے کر قبضہ مافیا کی مدد کرتا ہے زمینوں کہ مالکوں کو پاگل ڈیکلیر کر کہ وہاں جمع کروانے پر۔ زرا چیف جسٹس دورہ کریں جرنلسٹ محسن بلال کہ ساتھ ، دودھ کا دودھ ، پانی کا پانی ۔
کل ہی خواجہ سعد رفیق سے میچ ڈالا جو دونوں کی جیت پر ہنسی خوشی ختم ہو گیا۔اور پھر اسکول کہ بچوں کو لاء ریفارمز کا کہا ۔ کیونکہ اعتزاز جیسے بڑے انکاری ہو گئے ۔ بھئ وہ کیوں گھاس سے دوستی کریں ۔ فیصلہ ہوا دیوانی کیس کا فیصلہ ۹۰ دن میں ہو گا ۔ ہمارے استاد عامر رضا کہتے ہوتے تھے
You can have instant coffee not instant justice.
کل ہی مزید فرمایا کہ ہم نے پاکستان کہ آئین کہ آرٹیکل ۶ کا بہت گہرا مطالعہ کیا ہے اور اب سوچ رہے ہیں کہ کیوں نہ ڈیم کہ مخالفین کا آئین کہ آرٹیکل چھ کہ تحت ٹرائیل ہو؟
اب ۱۹۵۴ کہ
doctrine of necessity
کہ ۶۵ سال بعد ، ثاقب نثار کی فخر یہ پیشکش
“Doctrine of national interest “
جس کی تشریح ، نفاز اور سزا کا معاملہ ثاقب نثار اور جنرل غفور کریں گے یا آنے والے شوکت صدیقی اور فرخ عرفان جیسے مشٹنڈے جج ۔ ابھی تک بڑے بڑے کیسز کا کچھ نہیں ہوا ۔ راؤ انوار ، ماڈل ٹاؤن قتل کیس ، پرائیوٹ اسکولوں کی فیس کا معاملہ اور نئے کٹے کُھل گئے ۔ کل پانی کی کمپنیوں کے بے دریغ استمعال پر بات ہوئ ۔
باقر الصدر کہ مطابق تمام قدرتی ریسورسز خاص طور پر معدنیات اسلامی فلسفہ کہ مطابق ریاست کی ملکیت ہے ۔ کس طرح جہانگیر ترین ماربل کہ پہاڑ لے گیا ؟ اور اب جب ثاقب نے ججوں کی منڈلی کہ ساتھ کٹاس راج کا معائنہ کیا یہ پوچھنا بھول گئے کہ یہ دنیا کہ بہترین limestone والے پہاڑ ان سیمینٹ فیکٹریوں نے کس طرح کس ریٹ پرلیے ؟ یہ نہیں پوچھا ریگولیٹری اتھارٹیز کدھر تھیں ؟سرکار کدھر تھی ؟جرمانہ Nestle کو نہ کریں ان افسروں کو کریں جن میں سے ایک کو کمال ڈھٹائ سے عمران نے چیرمین FBR لگا دیا ۔ ان تین سیمنٹ فیکٹریوں میں سے دو کہ مالکان Forbes کی بلینئرز کی لسٹ میں ہے ۔ وہی چیف جسٹس ، ان افسروں اور ان کہ اہل خانہ کو کل کلاں نوکریاں دیں گے ۔ اس پالیسی کو آنند کہتا ہے ۔
“Inspire the rich to do more good, but never ever tell them to do less harm. Inspire them to give back, but never ever tell them to take less, inspire them to join solution but never ever accuse them of being part of problem “
یہی ہے جناب ثاقب نثار کے انصاف اور امجد ثاقب کی اخوت کا فلسفہ ۔ یہ سب کچھ دراصل حقیقت میں
Heads I win,tails you lose
والا معاملہ ہے۔ اس فارمولا کی نئ طوائف یا cult کا نام ہے عمران خان ۔ ان کہ خلاف جنگ کرنی ہو گی۔
آخر میں یاد کرواتا جاؤں کہ یہ جنگ ہماری جنگ ہے ، نہ اسے ثاقب نثار ہمارے لیے لڑے گا ، نہ عمران خان اور نہ ہی جنرل باجوہ ، کیونکہ یہ سارے تو حقیقت میں مسئلہ کی جڑ ہیں ۔ میں ڈرپوک آدمی تو خیر self exile پر امریکہ بیٹھا ہوں ، دیکھتے ہیں کتنے لوگ doctrine of national interest کہ نفاز سے دھرے جاتے ہیں، محض اس چکر میں کہ ؛
“To save the exploiter from not getting off the back of the man”
یہ جنگ ۲۱ صدی کی جنگ ہے ۔ جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور جس کا واحد حل اسلام کا نظام عدل ہے ۔ اسلام کا فلسفہ سوشل جسٹس کا، جو قدرت کہ قریب ترین ہے ۔ اس کا نفاز وقت کی عین ضرورت ہے ۔ آئیں سب اس کہ لیے کمر بند ہو کر میدان میں کُود جائیں ۔ اپنے نبی ص کی قربانی اور جنگ کی سنت کو پورا کریں ۔ ہمارے بچوں کے مستقبل at stake ہیں ، جس کو اشرافیہ “their children “کہتی ہے کیونکہ اشرافیہ تو پرائیوٹ جیٹ میں پھرتی ، gated communities میں رہتے ہیں ۔ ان کو کیا، تھر میں جو بچہ مر رہے ہیں بلو رانی کہ تو نہیں ہیں نہ ؟ بلو رانی تو ابھی بھی دنیا کو غربت دور کرنے کہ بھاشن دے رہی ہے اور دنیا واہ واہ کر رہی ہے ، پیسہ کی چمک ہی ایسی ہے ۔
جیتے رہیں ۔ خوش رہیں ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...