بیسویں صدی کے آغاز کے بلقان میں سلطنتِ عثمانیہ کی حکمرانی ختم ہو جانے کے بعد کمزور مرکزی حکومتیں آتی رہیں۔ بغاوتیں، قتل و غارت، نسلی فسادات مسئلہ رہے۔ حکومتی مرکز سے دور کسی کے پاس انصاف حاصل کرنے کا کچھ خاص طریقہ نہ تھا۔ اس خلا میں قبائلی انصاف کا نظام ابھرا۔ خاص طور پر قتل کے معاملے میں۔ البانیہ کے پہاڑی علاقوں میں گنک ماریہ ایک ان لکھا قانون ہے۔ یہ انتقام کا قانون ہے۔ موت کا کبھی ختم نہ ہونے والا چکر۔ ایک دوسرے کی آنکھیں پھوڑ کر سب کو اندھا کر دینے والا۔ تاریخ میں ذاتی انتقام انصاف سے زیادہ اہم رہا ہے اور دنیا میں بہت سے جھگڑوں کی وجہ ذاتی پرانی رنجش رہی ہے۔ بہت بار ایسی جس میں رنجش کی اصل وجہ بھی یاد نہیں رہنتی۔
آج کے البانیہ میں اس وقت سات سو انتقام کے چکر موجود ہیں۔ کوسووو میں ایک تحریک چلی جس میں ایک ہزار پرانے جھگڑوں کو ختم کر کے صلح کروائی گئی۔ اس تحریک کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں قتل کی شرح صفر پر آ گئی۔ انصاف نہ ہو تو انتقام اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ یہ دونوں اکٹھے نہیں چلتے۔ اس کے لئے زوگ کی کہانی۔
زوگ البانیہ کی تاریخ کا پیچیدہ کردار ہے۔ ان کا دورِ حکومت ایک نسبتا استحکام کا دور اور معاشی بڑھوتری کا۔ زوگ پہلے لیڈر، پھر ڈکٹیٹر، پھر بادشاہ اور پھر فاشزم کا نشان بنے۔ اپنے مخالفین کو بڑے پیمانے پر قتل کرنے والے۔ سیاسی مخالفین، جمہوری لیڈر، عادی مجرموں اور عام لوگوں کے ساتھ ایک ہی سلوک کرنے والے۔ اس کے دو نتیجے نکلے۔ ایک تو اس کی وجہ سے لمبا عرصہ تک اقتدار میں رہے۔ دوسری طرف یہ کہ ان سے خونی انتقام لینے کے دعویدار بڑھتے رہے۔ سینکڑوں افراد کا لہو ان کے ذاتی نام پر تھا۔ ان پر پچاس قاتلانہ حملے ہوئے۔ ان میں سے سب سے اہم اونی رستمی نے کیا۔ غلامی میں پیدا ہو کر آزادی کی آرزو رکھنے والے اونی رستمی ایک قاتل سے سیاستدان بنے۔ ایسے جمہوریت پسند جو قتل کرنے سے نہیں چوکتا۔ رستمی تیرہ سال کی عمر سے آزادی کیلئے گوریلا جنگ لڑنے والے جنگجو تھے۔ پندرہ سال کی عمر میں پہلا اہم قتل کرنے کی کوشش کی۔ پچیس سال کی عمر میں سب سے اہم قتل کیا۔ تلوار سے زندہ رہنے والے رستمی کا خاتمہ بھی تلوار سے ہوا۔ 1924 میں رستمی نے وزیرِ اعظم زوگ کو قتل کروانے کی کوشش کی، جس میں ناکامی ہوئی۔ اس حملے میں زوگ کو دو گولیاں چھو کر گزریں۔ چند روز بعد زوگ نے رستمی کو سڑک پر سب کے سامنے قتل کروا دیا۔ ایک فوری انصاف، ایک فوری انتقام۔ تشدد کے چکر کا ایک اور قدم۔ لیکن اس بار زوگ نے غلط جگہ پر ہاتھ ڈال لیا تھا۔ اس خون سے بغاوت ہوئی۔ رستمی کے جنازے پر فان نولی نے جمہوریت کی موت پر جذباتی تقریر کی اور کیا ہی تقریر کی۔ رستمی اپنے جنازے سے بغاوت کی علامت بن گئے۔ اس قبر سے ایک خانہ جنگی نے جنم لیا۔ زوگ کو بھاگنا پڑا۔ نولی نے اقتدار سنبھالا۔
جمہوریت جیت گئی اور کہانی ختم؟ نہیں، ایسا نہیں ہوتا۔ خونی انتقاموں کی کہانیاں ایسے نہیں چلتیں۔ خون کسی بھی طرح کے امن کے لئے کبھی اچھی کھاد نہیں رہا۔ اس خانہ جنگی نے حالات مزید بگاڑ دئے۔ ذاتی بدلے صرف انفرادی اور وقتی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ معاشرے کی نہیں۔ انتقام کا یہ چکر چلتا رہا۔ زوگ کے حمایتیوں نے چھ ماہ بعد ہی نئی خانہ جنگی شروع کر دی اور حکومت واپس حاصل کر لی۔ اس بار اقتدار میں آ کر زوگ نے اپنے آہنی پنچے پر دستانہ چڑھانے کی ضرورت بھی محسوس نہ کی۔ اپوزیشن، آزادی، قانون، ماضی کا قصہ بن گئے۔ اونی رستمی کی موت کا اصل نتیجہ چھ ماہ کی جمہوریت نہیں تھی، ایک ڈکٹیٹر کے کردار کے تاریک ترین حصے کو مضبوط تر کرنا تھا۔ خونی انتقام کے چکر کو آگے بڑھانا تھا۔
انصاف معاشرے کو مضبوط کرتا ہے، انتقام اسے تباہ کر دیتا ہے اور ان میں کوئی درمیانی راستہ نہیں۔ جس وجہ سے نظامِ انصاف سست رفتار ہوتا ہے، وقت اور شواہد مانگتا ہے، وہ اسی کی کوشش ہے کہ یہ فرق ملحوظ رکھا جائے۔ قبائلی انصاف، خونی انتقام اور دیرینہ جھگڑوں کے چکر کو کاٹ دیا جائے۔ تناوٗ کو دور کیا جائے۔ لوگوں کو تقسیم ہونے سے اور گروہ بندیوں سے روکا جائے۔ اونی رستمانی، اپنی نظر میں ملک کو ایک ظالم حکمران سے نجات دلوانا چاہتے ہوں گے لیکن ان کی کوشش نے مخالفین کو یکجا کر دیا۔
بطور فرد کے، ہم انتقام دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن معاشرے کے طور پر؟ ہمیں تاریخ سے جو سبق ملتا ہے، وہ یہ کہ ان چکروں کو کامیابی کے ساتھ کون کیسے روک سکتا ہے۔ ورنہ خون کے ساتھ خون بہتا ہے۔ گنک ماریہ کو روکنا آسان نہیں۔ البانیہ کے زوگ کی یہ کہانی دنیا میں بار بار دہرائی جانے والی ایک بہت عام کہانی ہے۔