انقلاب کیا ہے؟
انقلاب کو ہزاروں سالوں سے غلط انداز میں دیکھا اور پرکھا جارہا ہے ،حقیقت میں انقلاب صرف ایک انفرادی سوچ اور انفرادی روح کا مقدر ہوتی ہے۔انفرادی سوچ سے وابستہ انقلاب ہی ممکن ہے،جو بدقسمتی سے کبھی بھی انسانیت کا مقدرنہیں رہا ،اور شاید صدیوں سالوں تک ایسا انقلاب نہ آسکے۔سماجی انقلاب ایک نقلی اور فراڈ آئیڈیا ہے ۔کیونکہ سماجی انقلاب میں جس معاشرے کی بات کی جاتی ہے وہ معاشرہ روحانی اور انفرادی آگہی سے محروم ہوتا ہے۔انقلاب ایک روحانی انفرادی عمل کانام ہے۔ جن سیاسی ،سماجی اور اقتصادی انقلابات کی ہم انسان بات کرتے رہتے ہیں ،یہ سب ڈھونگ اور ڈرامہ ہے۔اگر کروڑوں انفرادی انسان تبدیل ہو جائیں تو پھر سماجی تبدیلی ممکن ہے ،لیکن ایسا انسانی تاریخ میں کبھی بھی نہیں ہوا ۔اس انسانی دنیا میں انقلابات ہمیشہ ناکام ہوئے ہیں ،اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانوں نے انقلاب کو غلط اور بھونڈے انداز میں برپا کیا ہے ۔انسان نے ہمیشہ یہ سوچا ہے کہ اگر وہ معاشرے کو تبدیل کرتا ہے ،معاشرتی ڈھانچے میں تبدیلی لاتا ہے ،اقتصادی ،نظریاتی اور سیاسی نظام کو تبدیل کرتا ہے تو اس سے افراد اور معاشرے کے باقی عناصر تبدیل ہو جاتے ہیں ۔یہ احمقانہ سوچ ہے ۔ایسی بے وقوفی انسان ہزاروں سالوں سے کرتا چلا جارہا ہے ۔اسی سوچ کی وجہ سے حقیقی انقلاب نہیں آسکا ۔اور اسی وجہ سے ہی انسانی دنیا کے تمام انقلابات ناکامی سے دوچار ہو ئے ہیں ۔ دنیا میں جب ایک مرتبہ انقلاب کامیاب ہو گیا ،تو اس کے بعد یہ ہوا کہ انقلابیوں کا قتل عام کیا گیا ،اس قتل عام کی وجہ یہ رہی کہ انقلابی اب اس انقلاب کے لئے خطرناک بن گئے جو وہ خود لائے تھے۔یاد رکھین انقلابی خطرناک انسان ہوتے ہیں ۔کیونکہ پہلے وہ سماج کو تباہ کرتے ہیں ،پھر اس کے بعد جو انقلاب آتا ہے ،وہ اس انقلاب کے لئے بوجھ بن جاتے ہیں ۔اور پھر ان انقلابیوں کو تباہ کیا جاتا ہے اور یہ چیز ہم انسانی تاریخ میں ہزاروں مرتبہ دیکھ چکے ہیں ۔انقلابی صرف ایک سرگرمی کے ماہر ہوتے ہیں کہ کس طرح حکومتوں کو گرانا ہے اور سماج کو برباد ہے ۔جب انقلاب کامیاب ہوجاتا ہے اور جو انسان اقتدار میں آتے ہیں وہ باقی انقلابیوں کا قلع قمع کردیتے ہیں ۔ہر انقلاب کا ایک کاؤنٹر انقلاب ہوتا ہے اور یہی کچھ اس دنیا کا مقدر رہا ہے اور رہے گا ۔اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انقلابی کا دماغ تباہی اور تخریب کا گھر ہوتا ہے ،انقلابی صرف یہ جانتا ہے کہ کس طرح تخریب برپا کرنی ہے ،وہ تعمیر اور تخلیق سے محروم ہوتا ہے ۔انقلابی کی مہارت صرف یہ ہے کہ کس طرح ہجوم یا مجمع کو اکسا کر تشدد پھیلانا ہے،لوگوں کی مدد اور ان کی تعمیر و ترقی کے فلسفے کی الف، ب سے بھی وہ واقف نہیں ہوتا ۔انقلابی حقیقت میں تعمیر اور تخلیق کی زبان ہی نہیں جانتا ۔وہ تمام زندگی انقلابی رہتا ہے اور یہی اس کا کام ہے ۔کبھی انقلابی سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنی زندگی میں کسی وقت تبدیلی لائے گا ۔اسی وجہ سے انقلابی اپنے ہی برپا کردہ انقلاب کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ۔ایک اور بات کہ انقلاب کبھی بھی اوپر سے نافذ نہیں کیا جاسکتا ،کیونکہ اوپر سے جو انقلاب لاتے ہیں ،وہ بھی ماضی کے انسان ہوتے ہیں ،وہ پھر اسی ماضی کو نافذ کرتے ہیں اور اسی ماضی کو جاری رکھتے ہیں ۔انسانی دنیا میں سیاسی انقلابات کا کوئی مستقبل نہیں ہے اور نہ ہی ممکن ہے ۔ہر فرد کو اپنے آپ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ،اس طرح جب کروڑوں افراد تبدیل ہوں گے تو پھر انسانیت تبدیل ہوگی اور نیا انسان جنم لے گا ۔نئی انسانیت نمودار ہوگی ۔انقلاب فرد کا مسئلہ ہے ،سماج کا نہیں ،جب فرد بدلے گا تو سب کچھ بدل جائے گا ،اس کے علاوہ کوئی اور شارٹ کٹ نہیں ہے ۔سیاسی عدالتی اور فوجی رہنما عارضی ہوتے ہیں ،وہ صرف کچھ عرصے کے لئے آتے ہیں ،جب وہ عرصہ ختم ہوجاتا ہے تو وہ بھی مر جاتے ہیں ۔جب تک دنیا کے تمام انسان باشعور اور آگہی سے بھرپور نہیں ہوں گے ،کچھ نہیں بدلے گا اور نہ ہی یہ انقلاب کچھ کرسکتے ہیں ۔انقلاب کبھی زندہ نہیں رہتے ،صرف ایک روحانی، جدید اور روشن خیال فرد ہی ہمیشہ زندہ رہتا ہے ۔یہی انسانی تاریخ ہے۔سیاستدان یا فوجی جرنیل آتے ہیں ،چلے جاتے ہیں ، یہ لوگ اسٹیج پر چند لمحوں کے لئے آتے ہیں ،اس لئےانسانیت کی حقیقی تاریخ مرتب نہیں کرتے ،یہ صرف تاریخ میں شور شرابہ برپا کرنے آتے ہیں ،حقیقی انسانی تاریخ کچھ اور ہے جو غیر محسوس انداز میں چلتی رہتی ہے ۔حقیقی تاریخ ابھی تک لکھی ہی نہیں گئی ،کیونکہ انسان عارضی انقلابات میں منہمک ہے ۔انسان نے کبھی ابدی دلچسپی دیکھائی ہی نہیں ہے ۔ابدی انقلاب اندر کی دنیا کا انقلاب ہوتا ہے ۔یہ انقلاب مشکل ہے ،کیونکہ یہ ابدی اور لازوال ہے ،اس کے لئے تعمیر اور تخلیق چاہیئے ۔باہر کی دنیا کا انقلاب تباہی ہے ،وجہ نفرت آسان ہے ،محبت مشکل کام ہے ،تباہی لانا آسان ہے ،تعمیر اور تخلیق آہستگی والا عمل ہے ، تباہی لمحوں اور منٹوں میں لائی جاسکتی ہے ۔ہم اس حوالے سے اپنے معاشرے پر غور کرسکتے ہیں ۔چند بلڈوزرلاؤ،اور شاہی قلعے کو تباہ کردو ،لیکن یہ شاہی قلعہ کس مشکل سے تعمیر ہوا ہوگا ،یہ بات سمجھنے کی ہے ۔تباہی کرنا آسان رہا ہے اس لئے انقلابی ہمیشہ تباہی کرتے چلے آرہے ہیں ۔اور یہی ان کے لئے انقلاب ہے ۔ دنیا میں تمام سیاسی انقلابات تباہی تھے ،ہمیشہ انقلابیوں نے انسانوں کو تباہی کا راستہ دیکھایا ،عوام فریسٹریشن کا شکار ہوتے ہیں ،مصائب اور مسائل میں غرق ہوتے ہیں ،اس لئے تشدد کے نظریئے کو جلد اختیار کر لیتے ہیں ۔ان مسائل زدہ عوام کا استحصال ہمیشہ انقلاب کے نام پر پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہوتا آرہا ہے ۔جب تباہی آجاتی ہے یعنی جب انقلاب آجاتا ہے ،پھر مسئلہ یہ اٹھتا ہے کہ اب کیا کیا جائے؟کیونکہ اب انقلاببی یہ نہیں جانتے کہ تعمیر کس طرح کرنی ہے ،وہ تعمیر سے واقف ہی نہیں ہوتے ۔پھر اس انقلاب کا ہر کوئی باس بن جاتا ہے۔مسائل اور بڑھ جاتے ہیں ،بدصورتی اور نکھر کر سامنے آجاتی ہے ،پھر کچھ سالوں کے بعد ایک اور انقلاب کے بارے میں سوچا جانے لگتا ہے اور کیونکہ سیاسی اور فوجی لوگ ہوتے ہیں جو نئے نقلاب کو لیڈ کرتے ہیں ،پاکستان کی صورتحال کو بی اسی تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے ۔انسان کا کام تخلیق اور تعمیر ہے ،انسان کا یہ کام نہیں کہ وہ اپنے مسائل اور مصائب کا زمہ دار کسی اور کو قرار دے اور پھر انقلاب کا حصہ بن کر تباہی لائے ۔جب ہر فرد اپنی زندگی کی زمہ داری لے لے گا تو پھر تبدیلی آجائے گی اور وہی تبدیلی ہی ابدی اور لازوال ہوگی ۔یہ تبدیلی آہستہ آہستہ ہوگی ،لیکن اپنے وقت پر ہوگی ۔پھر انسان حقیقی تہذیب و تمدن اور روشنی کی طرف سفر کرنا شروع کرے گا ۔حقیقی انقلاب ایک دل سے دوسرے دل کی طرف سفر کرتا ہے ۔حکومتیں ،سماج ،اسٹیٹس کو، یہ لاکھوں مرتبہ تبدیل ہوئے ہیں ،لیکن کیا کبھی تبدیلی آئی؟سوشل آئیڈیاز کی وجہ سے انقلابات صرف بدبودار ادوار تھے ۔انقلاب اور بغاوت انفرادی عمل ہے ۔حقیقی باغی اور انقلابی اپنی زندگی کی خود زمہ داری لیتے ہیں ۔سسٹم الٹانا ،حکومتوں کا تختہ الٹانا،عدالتی یا فوجی مارشل لاٗ شروع میں تو ایک مفید عمل نظر آتا ہے ،لیکن پھر آہست آہستہ یہی انقلاب اور انقلابی بوجھ بن جاتے ہیں اور یہی ہمیشہ ہوتا آرہا ہے اور ہوتا رہے گا ۔راحیل شریف بھی آیا ،قمر جاوید باجوہ بھی آیا ،نواز شریف بھی آیا ،اور اب فوجی اور جج آگئے ہیں ۔ بدلے گا کچھ بھی نہیں ،نوازشریف کی جگہ عمران خان آگیا تو وہ بھی پھر سماج پر بوجھ بن جائے گا ۔جو بھی باہر سے دیکھائی دے رہا ہوتا ہے وہ شروع میں پائیدار نظر آرہا ہوتا ہے لیکن حقیقت میں وہ ناپائیداری کا عمل ہوتا ہے ۔زندگی تبدیل ہو رہی ہے ،شعور،آگہی اور بصیرت کو کسی قسم کے انقلابی ڈھانچے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ ویلیوز انفرادی ہیں ۔شعور اور آگہی مہیں ہمیشگی ہے اور یہ لمحوں لمحوں میں زندہ رہتی ہے ،اس کو کسی انقلاب ،کسی مذہب ،کسی لیڈر،کسی قسم کی اخلاقیات ،کسی قسم کے آئین کے باسٹھ ترسٹھ ،کسی قسم کے مارکس کی ضرورت نہیں ہوتی۔شعور اور آگہی کے ساتھ زندگی کو انجوائے کیجیئے یہی انقلاب ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے پیج سے لی گئی ہے۔