انقلاب کی وضاحت ۔
ابھی اُٹھا ہوں ۔ یہاں تحجد کا وقت ہے ۔ ہر طرف نورانیت کا سماں ہے ۔ کائنات کی ہر چیز عبادت میں مصروف ہے ۔ اپنا فون پیغامات دیکھنے کے لیے کھولا ۔ ایک طویل عرصے سے موجود امریکہ میں مقیم ایک انتہائ شفیق اور درد مند پاکستانی کے میرے میسنجر پر مندرجہ زیل پیغام نے مجھے ہلا کر رکھ دیا ، سوچا کہ آج تہجد یہاں سے ہی شروع کروں ۔
“چوہان صاحب! بہت ہی خوبصورت تحریر، بہت ہی عمدہ تجزیہ اور خیالات۔ مگر ایک ہی سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ کس کیلئے؟ پاکستانی قوم کے لئے؟ جس قوم نے اب ذوالفقار علی بھٹو کے مزار پر دُعائیں مانگنی اور چادریں چڑھانا شروع کردی ہیں یا پھر جن کا قبلہ و کعبہ اب جاتی اُمرا ہے، جہاں سب مر گئے مگر بھٹو زندہ ہے۔ آپ جیسے پڑھے لکھے اور درد دل اور اچھی سوچ رکھنے والے لوگوں کی تعداد مُلک عزیز میں کتنے فیصد ہے۔ پڑھے لکھے لوگ کس کام میں لگے ہیں، صرف رقم بنانے اور اپنے آئیندہ آنے والی نسل کے لئے ڈھیروں رقم اور جائداد بنانے میں؟ آپ جیسے خیالات کے لوگ اگر صرف پانچ فیصد بھی ہوتے تو آج امریکہ کا مقابلہ روس اور چین کی بجائے پاکستان سے ہوتا۔ آپ نے1980 سے بعد آنے والی نسل کی بات کی ہے، انہوں نے پاکستان بنتے بھی نہیں دیکھا اور نہ ہی پاکستان کی تخلیق کے فوری بعد کا منظر۔ کسی کا راشی ہونا ایک بہت بڑی خبر ہوتی تھی، آج کسی کا رشوت نہ لینا ناقابل یقین خبر ہے، چوری، ڈکیتی، قتل وغیرہ کی خبر کبھی کبھار آتی تھی اور لوگ سُن کر کانوں کو ہاتھ لگایا کرتے تھے، میٹرک کرنے کے بعد نوکری آسانی سے مل جایا کرتی تھی۔ آج کچھ بھی تو نہیں رہ گیا۔ میری بوڑھی نانی کا ایک بازو سکھوں نے تلوار سے کاٹ دیا تھا، اور ایسے ہی سینکڑوں معذور نقل مکانی کا اور آزادی کا تحفہ تھے۔ ہزاروں کی تعداد میں نوجوان لڑکیاں اور عورتیں 1951/52 میں ہندوستان سے واپس لائی گئی تھیں۔ سن 1980 کے بعد آنے والوں نے وہ نسل نہیں دیکھی جس نے صحیح معنوں میں آزادی کی قیمت ادا کی تھی۔ آج MBBSکرکے انجینیرنگ کرکے، ماسٹرز کرکے بھی نوکری نہیں ملتی۔ جو ارباب اختیار و اقتدار ہیں انکی سوچ صرف بلاول ہاؤس اور جاتی امرا رائیونڈ پیلس تک ہے، پوری نسل نوکری نہ ہونے کی وجہ سے منشیات پر لگ چکی ہے، جرائم پر لگ چکی ہے۔ امریکہ برطانیہ سے زیادہ شراب پاکستان میں بکتی ہے۔ یہاں ایک ماؤزے تنگ یا خمینی کی ضرورت ہے”
میں اُن کی ہر بات سے متفق ہوں سوائے ایک کے ، وہ ہے ہم سب کا مایوس ہونا ۔ ڈھیر ہو جانا ، صرف اس بنیاد پر کہ کچھ ممکن نہیں ؟ دیوار کے ساتھ سر ٹکرانا کے سوا کچھ نہیں ملے گا ؟
کل امریکہ سے ایک اور دردمند پاکستانی نے فون کر کے اس سے بلکل یکسر مختلف پیغام دیا ۔ میرا حوصلہ بڑھایا اور کہنے لگے ،
“چوہان ، یہ جنگ جاری رکھو ، تھکنا نہیں ، جو بھی مشکل پیش آئے۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں ، انشاءاللہ ہم یہ جنگ جیت جائیں گے۔ “ انہوں نے اُس فاختہ کی مثال دی جو باوجود کوے کے اُس مزاق پر کہ تم وہ آگ بجھاؤ گی جو حضرت ابراہیم کو راکھ کرنے میں آسمانوں کو چُھو رہی ہے ؟
جی ، اس فاختہ کا جواب ہی میرے انقلاب کا مطلب اور مقصد ہے ۔جواب تھا ؛
، “مجھے اس بات کی غرض نہیں کہ آگ بجھے گی یا نہیں میں نے اپنا فرض پورا کرنا ہے “
جی ہاں ، بات اپنا حقیقی فرض پورا کرنے کی ہے ۔ میاں محمد بخش کیا خوبصورتی سے اس کو بیان کرتے ہیں
“مالی دا کم، پانی دینا ، بھر بھر مشکاں پاوے
مالک دا کم پَھل پُھل لانا، لاوے یا نہ لاوے “
مالک ضرور لگاتا ہے اگر جزبہ اور جنون تہجد والا ہے ۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اگر روح کچھ چاہے اور وہ ہو نہ سکے ۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں ۔
“اُٹھا دو پردہ اب اس راز سے
لڑا دو ممولے کو شہباز سے “
میں اپنے روحانیت کے علم سے آپ سب لوگوں کو اُس راز کی طرف لے کر جا رہا ہوں ۔جو بہت سادہ ہے ۔،پوری کائنات ، چرند پرند ، درخت پہاڑ ، ریگستان سمندر، سب کچھ اُس کے اندر سمویا ہوا ہے ۔ ‘قل ھو اللہ احد ‘ ہے جس کو واصف علی واصف کیا خوب بیان کیا۔
“ میں نعرۂ مستانہ، میں شوخیِ رندانہ
میں تشنہ کہاں جاؤں، پی کر بھی کہاں جانا
میں طائرِ لاہوتی، میں جوہرِ ملکوتی
ناسوتی نے کب مجھ کو، اس حال میں پہچانا
میں سوز محبّت ہوں، میں ایک قیامت ہوں
میں اشکِ ندامت ہوں، میں گوہرِ یکدانہ
کس یاد کا صحرا ہوں، کس چشم کا دریا ہوں
خود طُور کا جلوہ ہوں، ہے شکل کلیمانہ
میں شمعِ فروزاں ہوں، میں آتشِ لرزاں ہوں
میں سوزشِ ہجراں ہوں، میں منزلِ پروانہ
میں حُسنِ مجسّم ہوں، میں گیسوئے برہم ہوں
میں پُھول ہوں شبنم ہوں، میں جلوۂ جانانہ
میں واصفِ بسمل ہوں، میں رونقِ محفل ہوں
اک ٹوٹا ہوا دل ہوں، میں شہر میں ویرانہ”
اُٹھ جائیے آپ سب لوگ ، کسی خمینی اور ماؤزے تنگ کا انتظار نہ کریں ، آپ میں سے ہر ایک شخص اپنی زات میں خمینی ہے ماؤزے تُنگ ہے ، بلکہ اُن سب سے کہیں زیادہ طاقتور بس صرف ‘جزبہ اور جنون’ کی خرورت ہے ۔
میں ان اپنی تحریروں اور دعاؤں کے ساتھ آپ کے دل میں رہتا ہوں ۔
اور انشا ء اللہ اُس دن پاکستان میں آپ کے ساتھ شانہ بشانہ یہ جنگ بھی لڑوں گا جس دن یقین ہو جائے گا کہ سارے کُوفہ والے مر گئے ہیں ۔ اللہ آپ سب کا حامی و ناصر
پاکستان پائیندہ باد
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔