کچے رستے پر لینڈ کروزر آ کر رُکی۔ قیمتی فرنگی سوٹ میں ملبوس ایک خوش شکل نوجوان اترا۔ اس نے باس کی گراں بہا قمیض پہنی ہوئی تھی۔ نکٹائی ریشمی تھی، سمسونائٹ کا چرمی بیگ کاندھے سے لٹکائے تھا۔ اس میں ایپل کا تازہ ترین ٹیکلنالوجی سے بھرپور لیپ ٹاپ تھا۔
ایک طرف پہاڑی تھی، لہلہاتا کھیت جس کی ترائی پر نظروںکو سرسبز تازگی بخش رہا تھا۔ دوسری طرف ندی تھی، خراماں خراماں چھوٹے چھوٹے پتھروں میں راستہ بناتی! پہاڑی اور ندی کے درمیان وسیع سبزہ زار تھا۔ گھاس تھی اور درخت، جن کے ہرے پتے ہوا میں ہلتے تھے تو زمین پر سائے کا قالین بچھ بچھ جاتا تھا۔ بھیڑیں بے خوف پھر رہی تھیں۔ گم شدہ شاعر شبیر شاہد نے کہا تھا ؎
کسان دلشاد، کھیت آباد ہیں وہاں کے
سفید بھیڑیں ہیں سبز چارے ہیں اس کنارے
شیشم کے درخت تلے کسان بیٹھا بانسری بجا رہا تھا۔ مجید امجد یاد آ گیا ؎
نخیلِ زیست کی چھائوں میں نَے بلب تری یاد
فصیلِ دل کے کلس پر ستارہ جُو ترا غم
لینڈ کروزر سے اترنے والا خوش پوش نوجوان سبزہ زار پر چلتا کسان کے پاس پہنچا۔ سلام دعا کے بعد اس نے عجب فیاضانہ پیش کش کی: ’’میں حساب کتاب کر کے تمہیں بتا دیتا ہوں کہ تمہارے پاس کتنی بھیڑیں ہیں، بدلے میں تم سے ایک بھیڑ بطور فیس لوںگا‘‘۔
کسان راضی ہو گیا۔ نوجوان نے لیپ ٹاپ نکالا، کسان کی بچھائی ہوئی چادر پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔ انگلیاں کی (KEY)
بورڈ پر مہارت سے رقص کرنے لگیں۔ سکرین پر اعداد و شمار کا ڈھیر لگ گیا۔ دو تین گھنٹوں کی محنتِ شاقہ کے بعد اس نے بھیڑوں کی صحیح تعداد بتا دی اور حسبِ معاہدہ اپنی مرضی کی بھیڑ اٹھا کر لینڈ کروزر کے پچھلے حصے میں لاد دی۔ اب کسان کی باری تھی۔ اس نے پوچھا: ’’میں اگر تمہارے بارے میں بتا دوں کہ تم کون ہو توکیا تم مجھے میری بھیڑ واپس کر دوگے؟‘‘ نوجوان مان گیا۔ کسان نے کہا، تم امریکی ہو۔ تم نے تازہ تازہ ایم بی اے کیا ہے اور تم ورلڈ بینک میں کام کرتے ہو۔ نوجوان حیران ہو گیا۔ پوچھا کیسے معلوم ہوا؟ کسان نے جواب دیا، اس لیے کہ ایک تو تم بن بلائے میری چراگاہ میں گھس آئے، دوسرے مجھے وہ اطلاع فراہم کرنا چاہتے ہو جو مجھے پہلے ہی معلوم ہے، آخر میں بھیڑوں کا مالک ہوں۔ اب مہربانی کر کے میرا کتا واپس کر دو جسے تم نے بھیڑ سمجھ کر اٹھا لیا ہے!
ایک امریکی نے ہم پاکستانیوں کو بھی ایک ایسی ہی اطلاع فراہم کی ہے جو بچے کو بھی معلوم تھی اور اندھے کو بھی نظر آ رہی تھی۔ امریکی کا نام صدر اوباما ہے۔ آپ نے فرمایا ہے کہ آنے والی کئی دہائیوں میں پاکستانی عدم استحکام کا شکار رہے گا۔ ویسے لگے ہاتھوں اگر موصوف یہ راز بھی آشکار کر دیتے کہ سائبیریا روس کے شمال میں ہے اور سعودی عرب کی زبان عربی ہے اور گائے دودھ دیتی ہے تو ہمارے علم میں اضافہ ہو جاتا!
اگر صدر اوباما یہ فرماتے کہ پاکستان جلد ہی عدم استحکام سے نجات حاصل کر لے گا تو یہ ایک غیر متوقع خبر ہوتی اور ہم پاکستانی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے کہ اوباما کے قبضے میں کوئی مافوق الفطرت ذریعہ ہے جو ایسی حیران کن پیش گوئیاں کرتا ہے یا صدر اوباما خود مستقبل میں جھانکنے کی غیر معمولی صلاحیت سے بہرہ ور ہیں۔
جس ملک کی سوا دو ہزار کلو میٹر (تقریباً چودہ سو میل) لمبی سرحد سے ساری دنیا کے لوگ کسی روک ٹوک کے بغیر آتے جاتے ہوں، اور روزانہ سفری دستاویزات کے بغیر بیس ہزار سے لے کر پچاس ہزار افراد تک بارود اور ہتھیاروں سمیت بارڈر پار کرتے ہوں، وہاں کے بارے میں کیا صرف صدر اوباما ہی کو معلوم ہے کہ عدم استحکام جاری و ساری رہے گا؟ واہگہ بارڈر پر دھماکہ کرنے والا دہشت گرد افغان سرحد سے در آتا ہے۔ پورا خیبرپختونخوا روندتا ہوا پنجاب میں داخل ہوتا ہے۔ اٹک، راولپنڈی، جہلم، گجرات، گوجرانوالہ، شیخوپورہ اور لاہور کے اضلاع کے آر پار منزلوں پر منزلیں مارتا، پاکستان انڈیا بارڈر پر آ کر دھماکہ کر دیتا ہے۔ کوئی عسکری یا سول یا پولیس یا رینجر کی ایجنسی مشکوک جان کر اسے روک نہیں پاتی۔
ماضی قریب میں دارالحکومت کی ایک غیر قانونی آبادی میں ایکشن لے کر مکان گرائے گئے۔ سارے پریس نے خبر دی کہ وہاں افغان خفیہ پولیس کے اہلکار اہل و عیال سمیت مقیم تھے اور ’’ڈیوٹی‘‘ بھی سرانجام دے رہے تھے۔ تین دن صدر اشرف غنی نے اسلام آباد میں گزارے، ان تین دنوں کے دوران بارہ کہو سے لاکھوں ٹیلی فون کالیں افغانستان کی گئیں۔ یہ بارہ کہو وہی جگہ ہے جو ایوان وزیر اعظم سے پندرہ منٹ کی ڈرائیو پر ہے۔ فرض کیجیے آپ دارالحکومت کے حکام سے اس بات پر ایک کروڑ ڈالر (روپے نہیں!) کی شرط لگاتے ہیں کہ بارہ کہو، ترنول اور سکیٹر جی 12 کی آبادیوں میں غیر ملکیوں کی تعداد سے یہ حکام مکمل طور پر بے خبر ہیں تو یقین کیجیے ایک کروڑ ڈالرکی شرط آپ جیت چکے، اس لیے کہ اس تعداد کے بارے میں ان حکام کے فرشتوں کو بھی نہیں معلوم!
کرۂ ارض پر جہاں بھی دہشت گردی کی واردات ہوتی ہے،
پاکستانیوں کے دل اس خدشے سے لرز اٹھتے ہیں کہ الزام پاکستان پر لگے گا۔ کوئی کہتا ہے طالبان شوری،ٰ کوئٹہ میں ہے۔ ملا عمر کی وفات کی خبر عام ہوئی تو کراچی کا نام خبروں میں آنے لگا۔ تاشفین ملک پاکستان کی نکلی۔ اسامہ بن لادن پاکستان سے برآمد ہوا۔ ہزاروں پاکستانی عساکر اپنے ہی ملک کے اندر شہید ہوگئے۔ کراچی کے کور کمانڈر پر حملہ ہوا۔ صدر پرویز مشرف پر متعدد قاتلانہ حملے ہوئے۔ شوکت عزیز کو مارنے کی کوشش ہوئی۔ میاں نواز شریف، عمران خان، سب کو دھمکیاں دی گئیں۔ مولانا فضل الرحمن پر قاتلانہ حملے ہوئے۔ آفتاب شیر پائو کئی بار نشانہ بنتے بنتے رہ گئے۔ میاں افتخار الدین کا اکلوتا فرزند دہشت گردی کی نذر ہو گیا۔ بشیر بلور نے جام شہادت نوش کیا۔ پشاور میں مولانا حسن جان اور لاہور میں مولانا نعیمی گولیوں کی نذر ہو گئے۔ درجنوں سنی اور شیعہ علماء کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ پولیس کے بیسیوں جوان اور جرأت مند افسر اپنے ہی شہروں کی سڑکوں پر خون میں نہلا دیے گئے۔ سکول جلا دیے گئے۔ مزارات کے پرخچے اڑ گئے۔ مسجدوں میں خون کی ہولی کھیلی گئی۔ بازاروں میں عورتوں بچوں اور بوڑھوں کی بوٹیاں کٹ کٹ کر ہوا میں اڑیں۔ پشاور سکول میں ڈیڑھ سو افراد کے سروں میں گولیاں مار کر شہید کیا گیا جن میں غالب اکثریت معصوم بچوں کی تھی۔ عساکر کے نوجوانوں کو مار کر ان کے سروں سے فٹ بال کھیلا گیا۔ سابق وزیر اعظم کا بیٹا اغوا ہو کر بارڈر کے اس پار پہنچا دیا گیا۔ جس ملک میں یہ سب کچھ ہوا اور مسلسل ہو رہا ہے، اس کے بارے میں اوباما صاحب اپنی طرف سے دور کی کوڑی لائے ہیں کہ یہ عدم استحکام کا شکار رہے گا! واہ جناب صدر اوباما! کیا بات ہے آپ کے اس ’’انکشاف‘‘ کی!
پھر اس حقیقت پر غور کیجیے کہ یہ وہ قوم ہے جس کی آدھی آبادی جنہیں ہیرو سمجھتی ہے، آدھی انہیں مجرم اور قاتل قرار دیتی ہے۔ ایک کثیر تعداد ان لوگوں کی ہے جو پاکستان کے شہری ہیں مگر اپنا امیرالمومنین کسی اور کو کہتے ہیں۔ خاک و خون میں لتھڑے ہوئے فوجی جوانوں کو ایک پارٹی کا رہنما شہید ہی نہیں مانتا۔ ملک کے لاکھوں افراد اس رہنما کے پیروکار ہیں۔ جنوری 2015ء میں دہشت گردوں کو پھانسیاں دینے کا عمل شروع ہوا تو ایک رہنما نے برملا کہا کہ حکمران اسلام پسندوں کو پھانسیاں دے رہے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے جن افراد کو مجرم سمجھ کر پکڑنا چاہتے ہیں، ہزاروں تعلیمی ادارے انہیں پناہ دینے کے لیے تیار ہیں۔ لاہور کے قریب دھماکہ کرنے والے دہشت گرد نے ایسے ہی ایک ادارے میں رات گزاری تھی۔ ملک کے علماء کی نصف تعداد جنہیں مجاہد اور اسلام کے غازی قرار دیتی ہے، علماء کی اتنی ہی تعداد فتویٰ دیتی ہے کہ وہ مجرم ہیں۔ کچھ علما خوف کی وجہ سے منقار زیر پر ہیں، کچھ مصلحتاً اور کچھ اس لیے کہ وہ نظریاتی حوالے سے ہم آہنگی رکھتے ہیں۔
امریکیوں سے زیادہ کسے معلوم ہے کہ پاکستان ایک ایسا گودام ہے جس میں اسلحہ کے ذخائر کے ذخائر موجود ہیں۔ جس ملک کے بازاروں میں راکٹ اور گرنیڈ ٹافیوں کی طرح فروخت ہوتے ہوں، اس ملک میں عدم استحکام نہیں ہوگا توکیا امن کی چاکلیٹ بکے گی؟ وزارتِ داخلہ ہزار سال بھی لگی رہے تو جان نہ پائے کہ ملک میں کتنے لاکھ کلاشنکوفیں ہیں اور کتنے لاکھ ریوالور اور بندوقیں!
مشیر خارجہ نے صدر اوباما کی تردید کی ہے اور ان کی پیش گوئی کو ’’زمینی‘‘ حقائق کے منافی قرار دیا ہے۔ اوپر جو حقائق بیان کیے گئے وہ گویا ’’آسمانی‘‘ حقائق ہیں! یعنی بلی انڈے دیتی ہے، آلو درختوں پر لگتے ہیں۔ ابن انشاء کے بقول بچہ بیٹھا حقہ پی رہا ہے، باپ انگوٹھا چوس رہا ہے! کسان کو تو اپنی بھیڑوں کی تعداد معلوم تھی، ہمیں کوئی بتائے تب بھی نہیں مانتے!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“