ایڈز کا مرض 1981 میں دریافت ہوا۔ 1983 میں پتا لگا لیا گیا کہ اس کی ممکنہ وجہ ایک ریٹرووائرس ہو سکتا ہے، جو کہ ایچ آئی وی وائرس ہے۔ 1985 میں پہلا اس کے لئے بلڈ ٹیسٹ منظور ہوا۔ 1987 میں اس کی پہلی دوا منظور ہوئی جو AZT تھی۔
اگلے بیس برسوں میں سائنسدانوں نے اینٹی ریٹرو وائرل تھراپی ڈویلپ کی جو HAART ٹریٹمنٹ تھی۔ اس میں کئی ادویات ہیں جو مختلف سٹیج پر دی جاتی ہیں۔ جس طرح یہ ڈویلپ ہوتی گئیں، ایچ آئی وی کا شکار ہونے والوں کی زندگی کی طوالت بڑھتی گئی۔ 2013 کی سٹڈی بتاتی ہے کہ جو اس علاج کو جلد شروع کر لیتے ہیں، ان کی متوقع عمر نارمل ہوتی ہے۔ تیس سال میں ایچ آئی وی ایک موت کے پروانے کے بجائے ایک manage کی جانے والی بیماری بن گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایچ آئی وی کے مکمل علاج بہت ہی کم ہوئے ہیں۔ یعنی جن میں وائرس کا خاتمہ ہو گیا ہو۔ ان میں سے ایک طریقے ہڈی کے گودے کے ٹرانسپلانٹ کا ہے۔ اس کی ویکسین پر تحقیق جاری ہے اور یہ بڑا مشکل چیلنج ہے۔ ایک وجہ یہ ہے کہ ایچ آئی وی دورانِ انفیکشن بھی میوٹیٹ کرتا رہتا ہے۔ امیون سسٹم سے بڑی ہوشیاری سے بچ جاتا ہے اور خاموش پڑا رہتا ہے۔ ابھی تک فیز تھری ٹرائل میں 31 فیصد بچاوٗ کے نتائج نکلے ہیں۔ یہ بہت اچھے اعداد نہیں لیکن یہ دکھاتا ہے کہ کچھ پروگریس ہو رہی ہے۔
ایچ آئی وی جدید میڈیسن کی کامیابی کی ایک کہانی ہے۔ اس کو دریافت کرنا، اس کی وجہ تک پہنچنا۔۔۔ اس وائرس کی سمجھ بتدریج بہتر ہوئی ہے۔ اب یہ ایسی بیماری ہے جس کو سنبھالا جا سکتا ہے اور ممکن ہے کہ اس کی ویکسین بن جائے اور یہاں تک بھی ممکن ہے کہ اس کے علاج تک پہنچا جا سکے۔
ان واضح کامیابیوں نے لوگوں کو اس کی سائنس کا انکار کرنے سے نہیں روکا۔ ایسے لوگ ہیں، جو یہ کہتے ہیں کہ ایڈز کا ذمہ دار ایچ آئی وی وائرس نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے ابتدائی برسوں میں تو اس کا علاج نہیں تھا لیکن دریافت کا سفر ہمیں کیا بتاتا ہے؟ اگر ہماری سمجھ درست رہی ہے تو ہی یہ نتائج نکلے ہیں۔ اگر وائرس کا انکار کرنے والے درست ہوتے تو اس کی پیشگوئی کیا ہوتی؟ اگر مریض کو یہ دوائیاں دی جائیں تو مثبت کچھ نہیں ہو گا۔
تیس سال میں یہ معلوم ہو گیا کہ ایچ آئی وی تھیوری بہت کامیاب تھی۔ جو ڈرگز اس کو ٹارگٹ کرتی ہیں، انہوں نے مریضوں کو بہت فائدہ پہنچایا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکیسویں صدی کے آغاز تک انکار کرنے کا فیشن ختم ہونے لگا تھا۔ اس انکار کے لئے نئے رنگروٹ بھرتی کرنا مشکل ہو گیا تھا کیونکہ ادویات سے نتائج سامنے تھے۔ ایڈز کے وائرس کا انکار کرنے اور اس پر متبادل علاج کے لئے بنائے گروپ کی بانی کرسٹین میگیور تھیں جو ایچ آئی وی پوزیٹو تھیں۔ ان کے انکار کی ضد نے ایک جان نگل لی۔ وہ جان ان کی اپنی بیٹی کی تھی۔ میگیور نے نہ صرف ادویات لینے سے انکار کر دیا جو پیدائش کے وقت بچی میں ایچ آئی وی کا خطرہ کم کر سکتی تھیں بلکہ انہوں نے اپنی بچی کو اپنا دودھ پلوایا تھا۔ باوجود اس کے، کہ یہ معلوم تھا کہ ایسا کرنا بچی کے لئے وائرس پکڑنے کا سبب بن سکتا ہے۔ اپنی بیٹی کا نہ ٹیسٹ کروایا اور نہ ہی ادویات دیں۔ ان کی بیٹی کا انتقال تین سال کی عمر میں نمونیا بگڑ جانے سے ہوا جو ایڈز کی علامت ہے۔ موت کے بعد پوسٹ مارٹم رپورٹ واضح تھی۔ بچی کی موت کی وجہ ایڈز تھی۔ بچی کی موت کے بعد بھی ان کی والدہ نے یہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ بچی کی موت ایڈز سے ہوئی ہے۔
ایچ آئی وی کا انکار کرنے والی کمیونیٹی نے ان کا پرجوش طریقے سے ساتھ دیا۔ اور دعویٰ کیا کہ موت کی وجہ نمونیا کے وقت دی گئی دوا اموکسیلین کا ری ایکشن ہے۔ دسمبر 2008 میں ایڈز کے وائرس کا انکار کرنے والی میگیور کا انتقال ایڈز کی پیچیدگی کی وجہ سے ہو گیا۔ خود ان کی اور ان کی بیٹی کی جان محفوظ رہ سکتی تھی۔
“میں نہیں مانتا” بہت طاقتور الفاظ ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میگییور کی کہانی افسوسناک ہے۔ یہ جان کا بلاوجہ ضیاع تھا لیکن اس انکار کے بہت ہولناک اثرات آج دنیا کے ایک اور خطے میں ہیں۔ جہاں حقیقت سے انکار نے لاکھوں جانیں بلاسبب ضائع کر دی ہیں۔