(بشکریہ روزنامہ ''چٹان ''کشمیر۔۔2جولائی 2018)
رسالہ: ’’انہماک انٹرنیشنل ‘‘(پاکستان)
مدیراں: سید تحسین گیلانی‘سیدہ آیت…
مبصر : ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیر
’’انہماک انٹر نیشنل جریدہ‘‘ کے پہلے ضخیم شمارے کامطالعہ صبر وشکیب ثابت ہوا ‘ کیونکہ ایک تو ۷۳۶ صفحات پر مشتمل تحریرات کا مطالعہ اور دوسرا شعر و نثر کی کئی قدیم وجدید اصناف واقسام اور بحث و مکالموں کی قرات‘ ادراک ‘تفہیم اور اختلاف واتفاق کی ذہنی ریاضت۔ بہرحال ‘مجموعی طور پر مطالعہ کی کسرت فیض بخش رہی۔ عام طور بھی کسی بھی رسالے کی قرات کے وقت سب سے پہلے اداریہ سے واسطہ پڑتا ہے تو پیش نظر رسالے کا فکرانگیزاداریہ کئی ادبی ‘فنی اور تنقیدی مسائل و معاملات کی طرف قاری کے ذہن کو متوجہ کرتا ہے۔اگرچہ اس میں پیش ہوئے خیالات سے اتفاق و اختلاف کی گنجائش موجود ہے تاہم اس میں ادب کی خود مختاریت ‘ادب لکھنے اورپرکھنے کے مسائل‘فکشن… جدید فکشن اور مابعد جدید فکشن کے معاملات‘مکالمے کی اہمیت وغیرہ موضوعات پر توجہ طلب بحث ہوئی ہے ۔ مدیر اول(سید تحسین گیلانی )کی یہ بات تو ادبی تناظر میں صحیح ہے کہ:
’’میرے ذاتی خیال میں ادب کو بحیثیت ادب پرکھنا چاہئے۔ادیب سے یہ توقع رکھنا کہ جو آپ کو پسند ہو ‘وہ وہی لکھے‘اسے اس کی بنیادی آزادئ فکر سے محروم کرنے کے مترادف ہے۔‘‘
اس کے بعد جدیدیت کے تعلق سے جو بات کہی گئی ہے کہ’’میں جدیدیت اور خالص ادب کو ایک ہی رویے کے دو نام قرار دیتا ہوں.‘‘یہاں پر اختلاف کی گنجائش نکلتی ہے کیونکہ یہاں پر جدیدت کی اصطلاح اور اردو میں ’’جدیدیت کے رجحان(۱۹۶۰ ء) ‘‘ کے مابین فرق کو واضح نہیں کیا گیا ہے‘جو کہ بحث کا ایک اہم حصہ ہے۔مکالمے کی اہمیت اور ضرورت پر نہ صرف مفید روشنی ڈالی گئی ہے بلکہ عملی طور پر رسالے میں ’’نعیم بیگ کے افسانوں پر رفیع اللہ میاں اور اقبال خورشید کا مکالمہ‘‘اور’’ ستیہ پال آنندسے مکالمہ‘‘ بطور نمونہ بھی پیش ہوئے ہیں۔مکالمہ کے تعلق سے یہ اطلاع بھی مناسب رہے گی کہ مکالمے کا یہ سلسلہ رسالہ ’’امروز‘‘(مدیر پروفیسر ابوالکلام قاسمی.علیگڑھ) میں بھی شروع کیا گیا ہے۔
رسالے کے حصہ’’فکری ادب‘‘ اور ’’گوشۂ مائکروفکشن ‘‘میں درجہ ذیل معنی خیز مضامین شامل ہیں:
بین المتنونیت کے بارے میں کچھ معروضات(ستیہ پال آنند)‘دریدا اور رد تشکیلیت اور مارکسزم…(احمد سہیل)‘جدید فیبل‘تکنیک (فرخ ندیم)‘علامتی افسانہ ..تخلیقی مضمرات(ریاض توحیدی)‘جدید فکشن(ارشد عبدالحمید)‘پری ماڈرن‘ماڈرن اور پوسٹ ماڈرنٹی(عاکف محمود)‘علامت ..کچھ باتیں(اسماء حسن)‘طلعت زہرہ سے مکالمہ(سید تحسین گیلانی)‘مائکرو فکشن کی ضرورت(نسیم سید)‘مائکرو فکشن …ایک تعارف(ڈاکٹر ریاض توحیدی)‘مائکروفکشن کیا ہے؟ (ڈاکٹر شفقت محمود)‘مائکرو فکشن اور اس کی ضروریات(سید صداقت حسین) ‘ مائکرو فکشن کیا بلا ہے(فیصل سعید)‘سائنس مائکرو فکشن کی بات(جواد حسنین بشر)‘مائکرو فکشن اور انہماک(سیّدہ آیت)
’’بین المتونیت کے بارے میں میں کچھ معروضات‘‘میں بین المتونیت (Inter Texuality)اور سرقہ (Plagiarism) کے مابین بحث میں اگرچہ چند اہم باتوں پر گفتگو ہوئی ہے تاہم چند خیالات سے اختلاف رائے بھی در آتی ہے ‘مثلاََ:
’’کوئی بھی متن اپنے تحریر شدہ مواد میں خود کفیل نہیں ہے.اس میں دیگرمتون کے اثرات موجود ہیں۔یہاں تک کہ ساختیہ ‘ہر لفظ ‘ہرجملہ یا توگذشتہ خزینوں سے بجنسہ ہی مستعار لے لیا گیا ہے یا اس پر ان کا
’سایہ ‘ہے۔ ‘‘
یہاں بین المتونیت کے تناظر میں جو بات کہی گئی ہے کہ کوئی بھی متن خود کفیل نہیں بلکہ اس میں دیگر متون کے اثرات موجود ہوتے ہیں‘کو اگر ساخت ‘اسلوب ‘فارم یا زبان تک ہی محدود رکھیں تو بات کچھ حد تک ٹھیک ہے لیکن اگر موضوع ‘کرافٹ اور تکنیک کو بھی اس میں شامل کریں گے تو مذکورہ خیالات کوکلی طور پر تسلیم کرنا فکری اور تخلیقی مغالطہ کے مترادف ہوگا اور سرقہ بازی کی بدعت مستحسن نظر آئے گی۔ دو یا دو سے زیادہ متون میں موضوعاتی مماثلت تو پائی جاسکتی ہیں ‘جو بین المتونیت کے مطالعہ میں اہم رول ادا کرسکتا ہے لیکن اگر متون میں جملے اور خیالات تک یکساں طور پر موجود ہیں تو ان میں سے کسی پر بھی سرقہ بازی کا اطلاق ہوسکتا ہے اور اب رہا متن کا خود کفیل ہونے کا مسئلہ تو سبھی باشعور قارئین موضوعاتی اور اسلوبیاتی طور پر کئی متون کے خودکفیل ہونے سے آشنا ہونگے۔بہرحال‘یہ ایک تفصیل طلب موضوع ہے جس پر یہاں بات کرنے کی کچھ زیادہ گنجائش نہیں ہے۔
رسالے کی دیگر مشمؤلات میں فکشن(۲۰ افسانے)‘گوشۂ محمود ظفر اقبال ہاشمی (۴مضامین‘ ۳ مائکروفکشن‘۵ نظمیں)‘مطالعات(۱۳ مضامین)‘نظمیہ (۲۷شعراء کی نظمیں) ‘گوشۂ جمیل احمدعدیل(۶مضامین)‘غزلیات(۲۸ شعراء کی غزلیں)‘طنز و مزاح(۴مضامین)‘فکشن /افسانے(۲۷ افسانے)‘گوشہ گلزار ملک(۷مضامین)‘گوشۂ عرفان ملک(نظمیں ۵‘سفرانچے ۷)‘گوشۂ ثمینہ تبسم(۴مضامین)‘افسانچے(۱۱ افسانچے)‘گوشۂ مائکرو فکشن و نینو فکشن( ۷۷) ‘بیاد آئزیک عمر(۳مضامین)‘کتابوں کی باتیں(۶ کتب پر تبصرے)
رسالے کی مشمؤلات پر مفصل تبصرہ/تجزیہ کرنے کی تمنا تھی لیکن پھر توایک اور رسالہ لکھنا پڑتا‘اس لئے یہ کہنا مناسب سمجھتا ہوں کہ رسالے کا اگلا شمارہ مختصر ضخامت کا ہونا چاہئے تاکہ قارئین بھی مطالعہ کرنے کے دوران اکتاہٹ محسوس نہ کر سکیں۔باقی رہا اس شمارے میں شامل مشمؤلات کی اہمیت تو اسے مجھے انکار نہیں ہے۔رسالے کی قیمت پر بھی نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے ۔گٹ اپ اگرچہ اچھا ہے لیکن کمپوزنگ کی طرف دھیان دینے کی ضرورت ہے۔بہرحال اس ضخیم اور یادگار شمارے کے لئے دلی مبارک باد۔
رابطہ :علی کمپیوٹرس‘العزیز سپر مارکیٹ ‘کالج روڈ ‘بورے والا‘پنجاب…پاکستان)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔