احساسِ کمتری اور کمتری الجھاؤ، دو الگ انسانی ذہنی الجھاو اور ذہنی کیفیت ہیں، جس میں واضح فرق موجود ہوتا ہے بلکہ دونوں کا تعلق انسانی نفسیات سے ہوتا ہے۔
اس بات سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کرسکتا ہے کہ دین اسلام کو پورا سمجھنے کے لیئے جس طرح قرآن اور حدیث کو صحیح سمجھنا ضروری ہے، پورے کائنات و سماج اور معاشرے و معاشرتی مسائل اور معاملات کو سمجھنے اور ان کا صحیح حل، علم فلسفہ، علم سماجیات اور علم سائنس کو سمجھنے میں پنہاں ہے۔ حساب و کتاب، پیمانہ اور اعدادو شمار کے لیئے علم ریاضیات اور معیشیت کے لیئے علم معاشیات، اسی طرح اشرف المخلوقات کو پیروں سے لیکر سر تک دل و دماغ، جسمانی حرکات و عمل، اقدامات، چہرے کی تاثرات، آنکھوں و ہاتھوں کے اشارات، علامات، خیالات و اظہارات، خواہشات، ارادات، رویوں، مزاج، کردار سے لیکر انسان کے ماضی، حال اور مستقبل کے ادراک سب کے سب کو صحیح سمجھنا اور جاننا علم نفسیات پر مہارت اور عبور حاصل ہونے میں پوشیدہ ہے۔
عظیم مفکر اور ماہر نفسیات کارل یونگ کے خیال میں انسانی ذہنی الجھاو اور کیفیات کی وجوہات لاشعور میں دبائے ہوئے تصورات اور خیالات میں ہوتے ہیں، اس خیال میں تصورات اور خیالات کا یہ مجموعہ جو ایک ہیجان کے ذریعے ایک جال (یاجنجال)کی شکل میں لاشعور میں مستقل طور پر بس جاتا ہے اور جب موقع ملتا ہے تو انسان کے کردار، رویوں اور رجحانات پر اثرانداز ہوتا رہتا ہے۔
اسی طرح کچھ مفکر اور ماہر نفسیات، اس کو ایک توانائی کی شکل بتاتے ہیں جو انسان کے مخصوص حرکات کا باعث ہوتی ہے اور ماہرین کے نزدیک سب سے اہم اور دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ایسے الجھاؤ کے وجود سے انسان خود واقف نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ انسان ایسے ذہنی الجھاو سے محفوظ رہنے یا ان کے تدارک کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھاتا، تو پھر ایسی الجھاو تحلیل نفسی کے وقت ظاہر ہوتے ہیں لیکن اس وقت تک وہ بڑی حدتک انسان کی زندگی و کردار اور رویوں میں اپنی جڑیں مضبوط کرکے اس کی ذہنی زندگی پر اثر انداز ہوچکے ہوتے ہیں، اکثریت لوگ یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ اس کے ذہن میں ایک الجھاو ہے اور اس کی ذندگی پر اثرات چھوڑ رہا ہے۔
اسی طرح ذہنی الجھاو یا کیفیت inferiority feeling یعنی احساس کمتری یہ تو ویسے وقتی احساس اور وقتی کیفیت ہوتا ہے یہ انسانی ذہن میں آتا ہے اور چلا جاتا ہے، انسان اپنے آپ کو دوسروں سے کمتر محسوس کرتا ہے، اثر لیتا ہے اور کچھ وقفے کے بعد فراموش کردیتا ہے۔ اس قسم کے وقتی احساسات و خیالات اکثر انسانوں کو کبھی نہ کبھی ہوتے ہی رہتے ہیں، جو ایک انسانی فطری عمل ہے۔ مثال کے طور پر کسی محفل میں جہاں زیادہ تر لوگ قیمتی پوشاک میں ملبوس ہوں، ان کے ساتھ اچھے اچھے چیزیں وغیرہ ہوں، وہاں ایک فرد جو سیدھے سادے کپڑے پہنے ہوئے ہو اور اسکے پاس کچھ نا ہو تو انسان احساس کمتری کا شکار ہوجاتا ہے، حالانکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ احساسات اور خیالات ہر انسان کے لیے یکساں ہوں، کمتری کا احساس کرنا انفرادی بات ہے کچھ لوگ زیادہ حساس ہوتے ہیں اور کچھ ایسی باتوں کو محسوس نہیں کرتے ہیں، کچھ ایسے ہیں جو اپنی شخصیت کو کسی لحاظ سے بہتر سمجھ کر اپنے آپ کو برتر مان کر سمجھوتہ کرلیتے ہیں۔
بہرحال احساس کمتری کا احساس وقتی کیفیت ہوتا ہے اور ایک خاص حالت اور وقت میں ہوتا ہے جب وہ حالت بدل جاتا ہے تو یہ احساس بھی ختم ہو جاتا ہے۔
لیکن اس کے برعکس inferiority complex کمتری الجھاو جو ایک ذہنی اور نفسیاتی خطرناک مرض ہے، عام طور پر مستقل ہوتا ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے انسان کی زندگی اور کردار سے لپٹ جاتا ہے یہ الجھاو انسان کا ہر جگہ ہر حالت اور ہر وقت پیچھا کرتا ہے اور ہر مقام پر اس کے ذہن کو جھنجھوڑتا رہتا ہے، ایسے الجھاو کا انسان کے ماضی سے تعلق ہوتا ہے اور اس کے اسباب حقیقی ہوتے ہیں۔
ماہر نفسیات الفریڈ ایڈلر نے انفرادی نفسیات میں اس الجھاو کا ذکر کرتے ہیں اور اس کا خیال تھا کہ دوسرے انسانوں سے فوقیت لے جانے کی خواہش اور خارجی دنیا سے برتری حاصل کرنے کی کوشاں رہنا انسان کی فطرت میں شامل ہوتا ہے، کمتری الجھاو کا شکار ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ وہ دوسروں کے مقابلے میں اس کی اہمیت اور حیثیت زیادہ ہو، جب انسان ایسی کوششوں میں ناکام ہوجاتا ہے اور اپنی کسی کمزوری، معذوری، ناکامی اور غلطی کی وجہ سے وہ اپنے نشانے کو نہیں چھوسکتا تو وہ کمتری الجھاو کا شکار ہوجاتا ہے۔
کمتری الجھاو میں مبتلا شخص جب ناکام ہوتا ہے تو وہ اپنی خود اعتمادی کھودیتا ہے، وہ پھر ہمیشہ دوسروں کا سہارا لیتا ہے اور دوسروں پر انحصار کرتا ہے اور وہ شخصیت پرست بھی بن جاتا ہے اور اپنی زندگی، کردار اور عمل وقت و حالات اور ماحول کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے۔ وہ وقت و حالات اور ماحول سے جلد متاثر ہوتا ہے، وہ بے عمل اور غیر متحرک ہوکر بھی عملی اور متحرک لوگوں کی طرح بننے کی صرف خواہش کرتا ہے۔ خود کچھ بھی نہیں کرتا اور نہیں کرسکتا ہے اور کمتری الجھاو میں مبتلا شخص ہمیشہ نقطہ چینی، تنقید برائے تنقید اور ہر چیز میں کیڑا نکالنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی اپنی کوئی سوچ و اپروچ پروگرام اور ہدف نہیں ہوتا ہے۔ وہ بس وقفے وقفے سے مختلف مزاج، رویے اور نقطہ نظر کو لیکر اپنے خیالات، آراء اور موقف کو تبدیل کرتا ہے۔ ناکامی کے بعد کمتری الجھاو کے شکار لوگوں کا جھوٹ، منافقت اور سازش کرنا بنیادی خصلت ہوتا ہے۔ وہ بازی ہار جانے کے بعد ہمیشہ افسردگی، مایوسی اور پریشانی میں مبتلا ہوتا ہے۔ اس کی ہمیشہ باتوں میں شکایت، شکوہ، غیبت اور چغل خوری ہوتا ہے۔ وہ جس طرح بننے اور جس چیز کو حاصل کرنے میں جب ناکام ہوتا ہے، تو پھر نہ بننے والے اور نہ حاصل کرنے والی چیز کا ہمیشہ مخالفت کرتا ہے۔ دوسروں کی مہارت صلاحیت اور قابلیت پر جب فوقیت حاصل کرنے میں ناکام ہوا تو ان کی بھر پور مخالفت کرتا ہے۔
علم نفسیات اور ماہرین نفسیات کے تجزیات، تجربات اور تحلیل نفسی سے یہ بات ثابت ہوچکا ہے کہ کمتری الجھاو ایک خطرناک نفسیاتی مرض ہے، جو انسان میں جسمانی امراض کی بھی سبب بن سکتا ہے اور انسان کو غلط رخ اور غلط سمت لیجاتا ہے اور اس کی وجہ سے انسانی کردار کا زوال ہوسکتا ہے۔
تحلیل نفسی کے ذریعے کمتری الجھاو کی تشخیص اس کے بعد احساس برتری کے منفی پہلو نرگسیت سے نہیں بلکہ خوداعتمادی کے ذریعے چھٹکارہ پانا ممکن ہوگا، مضبوط ارادہ، قوت ارادی، دوراندیشی اور مستقل مزاجی ہی خوداعتمادی کو جنم دیتا ہے اور خود اعتمادی ہی سے احساس برتری پرورش پاتا ہے پھر کمتری الجھاو سے نجات ممکن ہوگا۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔
“