انفرادی شناخت اور ذات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انفرادی شناخت الگ چیز ہے اور ذات الگ ۔ انسان کا جوھر تیار ہوتے ہوتے بھی برسوں نکل جاتے ہیں۔ ہرانسانی بچہ محض اظہار ِ ذات سے آغاز کرتا ہے، کسی مخصوص شناخت سے نہیں۔ اُس کا جوھر اُس کی مخصوص شناخت کو الگ کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ محض ذات کا اظہار کیا ہوگا؟
دراصل جوھر کی تلاش کا عمل تب ہی ممکن ہے جب وہ مختلف جوھریوں کو سونپ سونپ کر پرکھوایا جائے۔ بچہ ابتدا سے ہی اپنی ہر اُس بات کو نکھارنا چاہتا ہے جو اُس کے ماحول نے پسند کی۔ اور ہر اُس بات کو دبانا چاہتا ہے جو اُس کے ماحول نے ناپسند کی۔ وہ اُس دکاندار کی طرح ہے جو ایک سے ایک ورائٹی دکھاتا ہے تاکہ گاہک کو جو پسند ہے وہ لے لے۔
تمام عمر اظہار ِ ذات میں گزر جاتی ہے۔ خوش نصیب ہوتے ہیں جو اُس مہیب اور تاریک خلا سے باھر نکل آتے ہیں جسے بیگانگی ِ ذات کہتے ہیں۔تشخص کی تشکیل جن عناصر سے ہوتی ہے اُن میں غیر رسمی تربیت کو اوّلیت حاصل ہے۔ مجموعی ماحول میں رسمی تبدیلی سے غیر رسمی تربیت کے خطوط کو درست کیا جاسکتاہے۔
اظہار ذات ایسی طاقتور جبلت ہے جو مارکس اور فرائیڈ سے معذرت کے ساتھ شہوت اور اشتہأ پر بھی بھاری پڑ جاتی ہے۔ بلکہ شہوت کی حد تک تو یہ کہونگا کہ یہ بھی اسی جبلت کا کرشمہ ہے۔ نہ ہی اس سے بڑے کرب کا کہیں وجود ہے کہ جب کوئی آپ کی موجودگی سے واقف نہ ہو۔ "ہونے" کا احساس دلاتے رہنا مسلسل اور متواتر جاری رہتا ہے۔ کبھی لکھ کر، کبھی بول کر، کبھی کچھ بنا کر، کبھی کچھ پہن کر، کبھی کچھ اتار کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الگ شناخت حاصل کرلینا جبلتِ اظہار ِ ذات کی بدولت ممکن ہوتا ہے نہ کہ انسان کی شعوری کوشش یا رضا و رغبت سے۔ یہ وہ شناخت ہے جس کے بارے میں ہم عموما کہتے ہیں کہ ہمارے آباؤاجداد، ماحول اور معاشرے نے ہمیں دی۔ جوھر ِ ذاتی ہر کسی کے پاس ہوتاہے۔ ایک جرائم پیشہ انسان کے پاس بھی۔ اُسی سے ہم اُس فرد کو پہچانتے ہیں۔ وجود ایک چٹان کی طرح سے ہے جس میں سے ہم ذات کا مجسمہ تراشتے ہیں۔ یہ مجسمہ حسن و قبح میں ہر حد تک جا سکتاہے۔ ہم چاہیں تو حسین سے حسین مجسمہ تراش لیں، چاہیں تو بدصورت اور بھدّے سے صُمُّن بُکۡمُن پتھر بن جائیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔