آپ کرکٹ میں بیٹنگ کریز پر ہیں۔ بالر بائیس گز دور سے گیند پھینکتا ہے۔ گیند ٹپہ کھا کر آپ کے پاس آ رہی ہے۔ آپ بلا گھما کر گیند کو ضرب لگا کر مطلوبہ سمت کی طرف روانہ کر دیتے ہیں۔ یہ سب کرنے میں فزکس کے کئے اصول پنہاں تھے۔ گیند کا اچھال، رفتار، سوئنگ، سپن، سبھی کو آپ کے دماغ نے ٹھیک طرح کیلکولیٹ کیا اور پھر ہاتھوں کی درست حرکت سے بلے اور گیند کا ٹھیک جگہ، رفتار اور زاوئے سے ملاپ کروایا اور یہ سب کچھ ایک سیکنڈ سے بھی کم عرصے میں ہو گیا۔ اس سب کے پیچھے ذہن کے شارٹ کٹ ہیں جن سے وہ بہت ہی سرعت سے ایسی کیلکولیشن اور فیصلے ہر وقت کرتا رہتا ہے جو خود ہمارے اپنے شعور سے بھی پوشیدہ ہیں۔ یہ شارٹ کٹ ہمارا وجدان ہے اور ہماری روزمرہ زندگی کے بیشتر معاملات کا کنٹرول انہی کے ہاتھ میں ہے۔ اسی میں ہماری زندگی ہے مگر یہیں پر ہمارے تعصبات بھی چھپے ہیں۔ ان تعصبات پر تفصیل کبھی بعد میں (اس پر ہارورڈ یونیورسٹی کا آئی اے ٹی ٹیسٹ دیکھ سکتے ہیں) مگر اسے سائنس کی سمجھ کے حوالے سے جاننا ضروری ہے۔
جب ہم اپنی روزمرہ زندگی سے باہر قدم رکھ کر سائنس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو کئی چیزیں عقل کو چکرا دیتی ہیں کیونکہ ہمارے دماغ کی مطابقت ان سے نہیں۔ جب گلیلیو نے یہ کہا کہ زمین ساکن نہیں تو اس کو ماننے سے انکار کر دیا گیا۔ آئن سٹائن نے جب زیادہ رفتار پر وقت کے سست ہو جانے کا تصور دیا اور فزکس کی بنیاد بدل دینے والی تھیوری آف ریلیٹیویٹی پیش کی تو وہ نوبل پرائز کمیٹی کو اس قدر عجیب لگی کہ اس کے ثابت ہو جانے کے بعد بھی نوبل پرائز نہیں دیا گیا (آئن سٹائن کا نوبل پرائز فوٹو الیکٹرک ایفیکٹ پر ہے)۔ جب درجہ حرارت بہت کم ہو اور مائع ہیلئیم کو کسی پیالے میں انڈیلنے کی کوشش کریں تو وہ اوپر کی طرف جائے گی۔ درجہ حرارت زیادہ ہو تو ذرے ٹکرانے کے بعد اپنی شکل ہی بدل لیتے ہیں۔ الیکٹران اور پوزیٹرون کے تصادم سے زی بوزون کا بننا ایسا ہے جیسے دو سائکلیں ٹکرائیں اور ایک ٹرک بن جائے۔ بہت چھوٹے سکیل پر جائیں تو کوانٹم سپرپوزیشن سمجھنا عقل کو گھما دیتا ہے اور بڑے سکیل پر چلیں جائیں تو بلیک ہول محیرالعقل ہیں۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں جنہیں عقل قبول نہیں کرتی کیونکہ یہ روز مرہ زندگی سے باہر ہیں اور انہیں سمجھنے کے لئے ہمارے ذہن میں کوئی شارٹ کٹ نہیں۔
انفرادی عقل کی حد سے بڑھ کر سائنس کو سمجھنا اتنا مشکل نہیں۔ حقیقت کیا ہے اور کیا ہونی چاہئیے کا تضاد ہمارے ذہن کا ہے۔ اگر عقل کی حد کا اعتراف کرتے ہوئے سائنسی طریقہ سمجھ لیں تو یہ تضاد حل ہو جایا ہے ورنہ اپنی عقل کو معیار رکھا جائے تو روزمرہ زندگی کے دائرہ کار سے باہر سائنس کی درست سمجھ آسان نہیں رہتی چاہے اس کا تعلق سائنس کے کسی بھی شعبے سے ہو۔ اور اگر اس طریقے کو چھوڑ دیں تو چاہے زمین کی گردش ہو یا نیوٹن کے قوانین، سب کچھ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔