انڈس ویلی سویلائزیشن کی ابتدا کہاں سے ہوئی۔یہ بات تاحال ایک سوالیہ نشان ہی ہے۔ عام طور پر ماہرین اس بات کے حامی ہیں کہ انڈس ویلی سویلائزیش کا ابتدائی دور مہر گڑھ میں بلوچستان سے شروع ہوتا ہےاور بتدریج بلوچستان ، سندھ، جنوبی پنجاب، پنجاب، سرحد، ہریانہ اور گجرات تک پھیل گئی مگر بھارت میں حالیہ دنوں میں بڑھتی ہوتی ہندو انتہا پسندی نے اس ملک میں میں تاریخ کے حوالے سے سوچ کے ایک مختلف انداز کو جنم دیا ہے۔ بھارتی تاریخ دانوں اور آرکیالوجسٹ نے اب دوسرے کئی معاملات کی طرح انڈس ویلی سویلائزیش پر نئے اور بے بنیاد سوالات کو جنم دینا شروع کر دیا ہے۔ پچھلے دنوں ایسی بے شمار تحقیقات پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ جن میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ انڈس ویلی کو سرسوتی سویلائزیشن کہنا چاہیے کیوں کہ اس کی زیادہ تر سائیٹز سرسوتی کے کنارے ہیں۔ سائنسی طریقہ تحقیق کو ان مقالات میں جس طرح نظر انداز کیا گیا ہے وہ اپنی جگہ ایک المیہ ہے۔ یہ بات کہ انڈس ویلی کی زیادہ سائیٹز انڈس دریا کے کنارے نہیں ہیں اور سرسوتی کے کنارے ہیں ایک بالکل ہی بے بنیاد بات ہے۔ پاکستان میں آزادی کے بعد سے انڈس سائیٹ پر بہت کم کام کیا گیا ہے۔ جب کہ انڈیا میں ان سائیٹز پر کھدائی کا کافی کام ہوا ہے۔ اس وجہ سے لگتا ہے کہ شاید پاکستان سے زیادہ انڈس سائیٹز انڈیا میں ہیں لیکن ایسا ہے نہیں۔ صرف ساہیوال ضلع میں ہی ایسی کئی سائیٹز ہیں جو کہ انڈس کے دور سے ہیں۔ یہ بات ابھی تک بالکل بے بنیاد ہے کہ زیادہ انڈس سائیٹز بھارت میں ہیں یا سرسوتی کے کنارے ہیں۔ جب تک انڈس سائیٹز کا ایک مکمل سروے نہ ہو۔ایسی کوئی بات حقیقت سے دور کہی جائے گی۔ انڈس دریا میدانی علاقوں سے گذرتا ہے اور اس کے کنارے بڑی آبادیاں ہیں۔ اس لئے ان سائیٹز کا نقصان بھی زیادہ ہوا اور یہاں کھدائی بھی مشکل رہی۔ پاکستان کے کئی شہر تو انڈس سائیٹز کے ملبے پر آباد ہیں۔ جب کہ سرسوتی کو ایک حقیقی دریا مان بھی لیا جائے تو بھی اس کا زیادہ حصہ ہریانہ کو چھوڑ کے صحرا سے گذرتا ہے۔ جیسے راجھستان کا مغربی علاقہ، چولستان اور سندھ میں بھی یہ دریا تھر پر ختم ہوتا ہے۔ صحرا میں ایسے آثار آبادی کی کمی کی وجہ سے زیادہ محفوظ ہوتے ہیں۔ پاکستان کے چولستان میں کئی سو انڈس سائیٹز نامور آرکیالوجسٹ رفیق مغل نے دریافت کیں۔ پھر سرسوتی کے متعلق یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس کو قدیم ہندو دانشوروں نے ہندوؤں کے ہر مقدس مقام تک کھینچ لیا ہے۔ یہ گنگا اور جمنا کے ساتھ بھی پریاگ راج میں جا ملتا ہے۔ اور گندھارا میں موجود تیرتھ دوتیا وانا ) موجودہ کٹاس راج( پر بھی پانڈو بھائی اسے پاتے ہیں۔قدیم ہندی ادب میں ہندو دھرم کی ہر مقدس جگہ سے سرسوتی کو جوڑ دیا گیا لیکن رہا یہ ایک فرضی دریا ہی۔اب بھی ہریانہ سے پاکستان تک جن ٹکروں کو سرسوتی کہا جا رہا ہے۔ ان کو کو بڑا دریا ثابت کرنا ہی بڑا مشکل کام ہے اور اس کو سندھ دریا کے مقابلے پہ کھڑا کیا جا رہا ہے۔ حد یہ کہ انڈیا کی نامور تاریخ دان رومیلا تھاپر کے مطابق سرسوتی افغانستان میں تھا اور بعض ماہرین کے مطابق خود سندھ کا نام عرصہ تک سرسوتی تھا۔ ان حالات میں جب سرسوتی پر کوئی متفقہ رائے موجود نہیں اور اس کے حقیقی ہونے پر بھی اتفاق نہیں۔ بھاجپا سرکار کے تاریخ دان انڈس ویلی کا سارا بوجھ سرسوتی دریا کے کندھوں پر ڈالنے پر تلے ہیں۔ بی جے پی کے پچھلے پانچ سال کے دوران ہریانہ سے ایسے آثار بھی دریافت کیے گئے جو بقول انڈین ماہرین بلوچستان کے مہر گڑھ کے آثار بھی دو ھزار سال قدیم ہیں۔یعنی بات اب اس طرف جا رہی ہے کہ انڈس ویلی کی ابتدا ہی سرسوتی کے کنارے ہریانہ سے ہوئی اور وہاں سے یہ موجودہ پاکستان میں پھیلی۔یہ ایسے جھوٹ کا پہلا موقع نہیں بلکہ گجرات میں کامبے کے آثار کی دریافت پر بھی ایسی باتیں ہوئی کہ یہ ۷۳۰۰ سال پرانے ہیں مگر یورپی ماہرین کی تحقیقات میں یہ اتنے پراے نہیں نکلے۔ ہریانہ کے ان آثار کا یورپی یا غیر جانبدار ماہرین کے ہاتھوں تجزیہ بھی جھوٹ اور بددیانتی کے ماہر بی جے پی کے پے رول پر موجود ماہرین تاریخ اور آثار قدیمہ کے لیے شرمندگی ہی لائے گا اور ان سے تاریخ کا دھارا بی جے پی کے حق میں بدل نہیں جانے والا۔