اندرا گاندھی یا میمونہ بیگم؟
فیروز خان یا فیروز گاندھی؟
اندرا گاندھی کے شوہر فیروز خان مسلمان تھے یا پارسی؟
نہرو اور گاندھی کا پھیلایا ہوا گورکھ دھندا!
ہندوستان کا وزیر اعظم بنے کے لئے جواہر لال نہرو کی الجھائ گئی گتھی جو آج تک نہ سلجھ سکی!
نہرو خاندان کے ذاتی کردار بڑے رومانوی قسم کے ہیں۔ خود جواہر لال
نہرو کا کدار کسی پلے بوائے سے کم نہیں اور بے شمار خواتین کے ساتھ ان کے تعلقات رہے۔ جن کی ایک طویل داستان ہے لیکن فیروز خان کا جواہر لال نہرو کی بیٹی سے معاشقہ اور شادی ایک ایسی داستان ہے کہ جس کو ہمیشہ دبیز پردوں میں چھپایا گیا۔ وہ فیروزگاندھی جن کا ایک بیٹا ملک کا وزیراعظم ہوا، بیوی وزیراعظم ہوئی اور سسر بھی ملک کے اس اعلیٰ ترین عہدے پر فائز رہے۔ ساتھ ہی ان کی اولاد کے ہاتھوں میں اب بھی ملک کے اقتدار کی چابی ہے۔ ان کا خاندان آزاد بھارت کا شاہی خاندان سمجھا جاتا ہے۔
آزادی کے بعد اس خاندان کے افراد نے ڈائرکٹ یا اِن ڈائرکٹ جس قدر اس ملک پر حکومت کی ،کسی دوسرے خاندان نے نہیں کی۔باجود اس کے ان کی اولاد نے انھیں بھلا دیا ،یا پھر دانستہ طور پر انھیں یاد کرنا نہیں چاہتی۔آخر کیا سبب ہے کہ راجیو اور اندرا گاندھی کی سالگرہ پراخبارات کو آٹھ آٹھ کروڑ کے ا شتہارات دینے والی حکومت نے فیروز گاندھی کو بالکل ہی نظر انداز کردیا۔ حالانکہ ابھی حال تک حکومت کی اصل مالکن فیروزگاندھی کی بہو سونیا گاندھی ہی تھیں،اور ان کے پوتے راہل گاندھی کی حکومت میں دخل اندازی تھی۔ ان دونوں ماں بیٹوں کی مرضی کے بغیر حکومت میں ایک پتہ نہیں ہل سکتا تھا۔ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ فیروز گاندھی کونظرانداز کرنے کی کوشش ہوئی ہو،بلکہ انھیں ہمیشہ ہی ان کی اولاد نے نظرا نداز کیا ہے۔ کبھی ان کے نام سے نہ تو کوئی راستہ منسوب کیا گیا اورنہ کسی یوجنا کا نام رکھا گیا۔ جب کہ اس ملک میں سب سے زیادہ سڑکوں، علاقوں اور یوجناؤں کے نام اسی خاندان کے افراد کے نام پر ہیں۔ راجیو چوک، اندرا چوک، جواہر لعل نہرو اسٹیڈیم،اندرا گاندھی اسٹیڈیم، جواہر لعل نہرو یونیورسیٹی،اندرا گاندھی انٹرنیشنل ایر پورٹ ، جواہر روزگار یوجنا ، اندراآواس یوجنا،راجیو گاندھی سدبھانا ایوارڈاور بھی نہ جانے کیا کیا اس خاندان کے افرادسے منسوب ہے۔یہیں تک نہیں سنجے گاندھی کے نام پر بھی بہت سے علاقوں کے نام ہیں اور شاید مستقبل میں راہل،پرینکا، اور ان کے بچوں کے نام پر بھی بہت سی جگہوں اور یوجناؤں کے نام رکھے جائیں گے،مگر فیروز گاندھی کا کوئی نام لینے والا نہیں ہے۔ یہ سوال بہت اہم ہے اور تاریخی ہے کہ آخر انھیں ان کی اولاد نے کیوں فراموش کردیا بلکہ یہ کہاجائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ان کی اولاد ان کے نام سے پیچھا چھڑانا چاہتی ہے۔
فیروز گاندھی کا مذہب کیا تھا ؟یہ تحقیق کا موضوع ہوسکتا ہے۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ ایک پارسی تھے،لیکن شاید اس معاملے میں کچھ کنفیوزن ہے۔ان کے والد کا نام جہانگیرخان تھاجو کہ نواب خان کے نام سے مشہور تھے۔بعض روایتوں کے مطابق یہ ایک ایرانی مسلمان تھے ۔کے این راؤ نے بھی یہی لکھا ہے۔البتہ ان کی ماں رتی مائی پارسی سے تبدیلی مذہب کرنے والی نومسلمہ تھیں۔ان کے خاندان کا سرنیم’’گھنڈی‘‘ Ghandy ہوتا تھا۔ فیروز گاندھی کو جو پارسی کے طور پر مشہور کیا گیا یہ ہندستانی عوام کے مزاج اور یہاں کی سیاست کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا۔فیروز جہانگیر خان عرف فیروزگاندھی اپنے پانچ بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ ان کے دوبھائیوں کے نام دوراب جہانگیر اور فریدون جہانگیر بتائے جاتے ہیں اور بہنوں کے نام تہمینہ اور علو ہیں۔ ایرانی مسلمانوں کے نام فارسی ہوتے ہیں یہ عام بات ہے مگر پارسیوں کے نام عربی نہیں ہوتے۔ ان کے بھائیوں کے نام کے الفاظ فارسی ہیں مگر ان کی بہنوں کے نام خالص عربی ہیں۔ اس سے اس سلسلے میں کچھ اشارہ ضرور ملتا ہے۔ فیروز کے رشتے داروں کا کچھ اتہ پتہ نہیں ملتا۔البتہ اک آدھ جن کے بارے میں کچھ خبر ملتی ہے اور وہ پارسی ہیں ،یہ وہ ہیں جن کی رشتے داری ان کی نومسلمہ ماں کی طرف سے تھی۔
نہرو کی بیٹی اندرا پریادرشنی (بعد میں اندرا گاندھی) نے بھی خاندان کی اس اخلاقی بے راہروی کی روایت جاری رکھی۔ کیتھرین فرینک کی کتاب “The Life of Indira Nehru Gandhi” (ISBN: 9780007259304) by میں اندرا گاندھی کے ابتدائ ادوار اور زندگی کے دیگر ادوار میں وقتا فوقتا چلنے والے معاشقوں کا تفصیلی ذکر ہے۔ اندرا کا پہلا معاشقہ ان کے جرمن ٹیچر سے Shantiniketan میں چلا۔ ان کا دوسرا معاشقہ اپنے والد کے سیکریٹری ایم ۔او متھئ سے چلا۔ اپنے یوگا ٹیچر دھریندرا برہمچاری سے بھی اندرا کے تعلقات رہے۔ فیروز خان سے معاشقہ شادی میں تبدیل ہوا۔ جبکہ آخری معاشقہ وزیر خارجہ دھنیش چند سے چلا۔ ذہین و فطین اندرا گاندھی کو تعلیم کےلئے آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخل کرایا گیا لیکن وہاں اپنی غیر تعلیمی مصروفیات کی وجہ سے اچھی کارکردگی نہ دکھا سکی جس وجہ سے اسے وہاں سے نکال دیا گیا۔ بعد میں اس نے Shantiniketon یونیورسٹی میں داخلہ لیا لیکن یہاں سے بھی اسے گرودیورا بندراناتھ ٹیگور نے اپنے غیراخلاقی رویہ پر بھگادیا۔ یونیورسٹی سے تو بدنام ہو کر نکل چکی تھی۔ والد سیاست میں مشغول تھا جس کے پاس اندرا کےلئے وقت ہی نہ تھا۔ والدہ ٹی بی کی مریضہ تھی اور سوئیزرلینڈ میں زیر علاج تھی تو اب اندرا تنہائی اور ڈپریشن کا شکار ہوگئی۔ اس موقعہ پر فیروز خان اسکی زندگی میں داخل ہوا اور وہ اسکے پاس کھچی چلی آئی۔۔۔ دونوں اس حد تک قریب آگئے کہ ایک دوسرے میں ضم ہوگئے۔ اسی دوان فیروز خان بھی انگلینڈ چلا گیاجہاں وہ اندرا کی والدہ کی تیمار داری بھی کرتا اور اندرا کو بھی خوش رکھتا بلکہ ماں بیٹی دونوں کیلئے مسیحا بن گیا۔ فیروز گاندھی کانگریس کے بہت سینئر لیڈر تھے۔ ان سے جواہرلعل نہرو بھی خوفزدہ رہتے تھے۔1930 میں انھوں نے کانگریس جوائن کیا ،جنگ آزادی میں سرگرمی سے حصہ لیا اور اس کی پاداش میں گرفتار ہوکر جیل گئے۔ وہ فیض آباد جیل میں انّیس مہینے قید رہے۔فیروزگاندھی،مہاتما گاندھی کے بہت قریب تھے اور گاندھی جی انھیں پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے تھے۔ ایک مرتبہ فیروز کی ماں گاندھی جی سے ملنے گئیں تو گاندھی جی نے کہا کہ فیروز زبردست انقلابی ہیں اگر ایسے سات افراد مجھے مل جائیں تو سات دن میں ملک آزاد ہوجائے۔فیروز گاندھی ملک کی عبوری پارلیمنٹ کے ممبر تھے، پھر پہلی لوک سبھا کے لئے 1952 میں منتخب ہوئے۔ وہ دوسری لوک سبھا کے لئے 1958 میں بھی منتخب ہوئے۔فیروز گاندھی انڈین آئل کارپوریشن کے پہلے چیرمین بنے،ساتھ ہی وہ اپنے دور کے ایک بڑے اخبار نیشنل ہیرالڈ اور ہندی روزنامہ نوجیون کے پبلشر تھے۔وہ میڈیا کی آزادی کے علمبردار تھے ،اسی لئے وہ اس سلسلے میں ایک پرائیویٹ بل بھی پارلیمنٹ میں لائے تھے،جوپاس ہوگیا تھا۔فیروز گاندھی کی تعلیم الہ اباد کے ودیا مندر ہائی اسکول سے ہوئی تھی۔ کالج کی تعلیم اونگ کرشچین کالج سے ہوئی اور اس کے بعد اسکول آف اکانومکس،لندن گئے۔اس وقت کے مہارا شٹر کے وزیر اعلیٰ شری پرکاش نے نہرو کو اندرا کے فیروز خان کے ساتھ تعلقات کے بارے میں خبردار بھی کیالیکن نہرو شدید سیاسی مصروفیات کی وجہ سے بیٹی کےلئے وقت ہی نہ نکال سکا۔ جب اس نوجوان جوڑے کے تعلقات خطرناک حد تک بڑھ گئے تو نوجوان اندرا مسلمان ہوگئی اور لندن کی ایک مسجد میں دونوں نے شادی رچالی۔ شادی کے بعد اندرا پریادرشی نہرو نے اپنا نام تبدیل کرکے اسلامی نام میمونہ بیگم رکھا- اس بات کا ذکر نہرو کے پرسنل سکریٹری ایم ۔او،متھائی نے اپنی کتاب ''REMINENCES OF THE NEHRU AGE'' میں لکھا ہےنے اپنی ایک کتاب میں کیا ہے جس کو بعد میں انڈیا میں بین کردیا گیا تھا. ۔ اندرا کی والدہ کمالہ نہرو اس شادی کی سخت مخالف تھی لیکن اندرا نے اسکی ایک نہ سنی۔ نہرو بھی اس لئے سخت ناراض تھا کہ اندرا کے مسلمان بننے سے اسکا وزیراعظم بننے کا خواب پورا نہیں ہوسکے گا۔ یادرہے کہ یہ آزادی سے پہلے کا واقعہ ہے۔
گاندھی جی کے مشورے پر نہرو نے سیاست سے کام لیا اور اس کے شاطر ذہن نے بھارتی روام کو بیوقف بنانے کے لئے ایک نئ چال چلی۔
اب نہرو نے اپنے نوجوان داماد فیروز خان کو مجبور کیا کہ وہ بے شک مذہب تبدیل نہ کرے لیکن صرف اپنے نام کے ساتھ خان ہٹا کر گاندھی Gandhy بطور لقب (Surname) لگالے۔ ایساکرنے کیلئے کسی زیادہ کاروائی کی ضرورت بھی نہ تھی بلکہ یہ تبدیلی صرف ایک بیان حلفی سے ممکن تھی۔ اس نام کا اسلام یا ہندوازم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ تو یوں نہرو کے اصرار پر وہ فیروز خان سے فیروز گاندھی بن گیا۔
مذکورہ کتاب کے مطابق جب ان حالات کی خبر مہاتماگاندھی کو ملی تو انھوں نے فوراً دونوں کو بھارت بلوایا اور ان کی شادی ویدک طریقے سے کرائی۔ انھوں نے فیروز جہانگیرخان کا نام تبدیل کراکر فیروز گاندھی کرایا۔ نہرو اس شادی کے حق میں نہیں تھے ،جس کے پیچھے ان کے سیاسی مفادات تھے،مگر انھیں آخرکار ہتھیار ڈالنا پڑا۔ یہ 1942 کا واقعہ ہے۔ تاریخی شواہد کے مطابق راجیو گاندھی کی پیدائش کے بعد اختلافات کے سبب اندرا اور فیروز الگ ہوگئے تھے۔کے این راؤ نے لکھا ہے کہ سنجے گاندھی، فیروز گاندھی کی اولاد نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے شخص محمد یونس کی اولاد ہیں۔ یہ محمد یونس ایک بیوروکریٹ تھے اور اندرا گاندھی کے بہت قریبی تھے۔ یہ خارجہ معاملات میں ان کے مشیر تھے اور ترکی، انڈونیشیا،عراق واسپین میں سفیر بھی رہے۔یہ مجاہدآزادی تھے اور خان عبدالغفار خان کے قابلِ اعتماد ساتھیوں میں سے تھے۔
محمد یونس کا
، جون ۲۰۰۱۱ء میں راجدھانی دلی میں انتقال ہوا۔انھوں نے بھی اپنی یادداشتوں پر مشتمل ایک کتا ب لکھی،جس کا نام ہے PERSONS,PASSIONS& POLITICSاس کتاب میں انھوں نے اس سلسلے میں تو کچھ نہیں لکھا ہے البتہ یہ لکھا ہے کہ سنجے گاندھی کا اسلامی طریقے کے مطابق ختنہکیا گیا تھا۔محمد یونس سنجے کی موت پر پھوٹ پھوٹ کر روئے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ وہ کسی مسلمان لڑکی سے شادی کریں۔
فیروز گاندھی صرف
Gandhi یا Gandhy?
یہاں یہ باریک سا ہجوں کا فرق واضح ہونا چاہیے کہ Gandhi تو ہندو لقب ہو سکتا ہے لیکننGandhy ہندو لقب یا ہندو نام نہیں ہے۔ گو یہ ہے بڑا عجیب سا نام جیسے ”بسم اللہ سرما“ وغیرہ۔ بدقسمتی سے اردو میں Gandhi اور Gandhy کے ہجے ایک جیسے ہیں‘ اس لیے فرق کا پتہ نہیں چلتا۔ بہرحال یہ امر نہیں بھولنا چاہیے کہ فیروز خان اور اندرا دونوں نے اپنے اپنے نام بھارتی عوام کو بے وقوف بنانے کےلئے بدلے تھے۔ جب یہ واپس ہندوستان آئے تو ان دونوں کی ایک نقلی قسم کی شادی ہندوانہ رسم و رواج کے مطابق بھی رچائی گئی۔
مہاتماگاندھی نہرو کا آئیڈیل شخص اور سیاسی ر اہنما تھا۔ اسکے مجبور کرنے پر گاندھی کے ہجے مزید تبدیل کر دئیے گئے ۔ حیران کن بات ۔ تو یوں اندرا اور اسکے سلسلہ نسب کو دو جعلی ناموں سے تاریخ نے محفوظ کر لیا۔ دونوں فینسی نام یعنی ”نہرو اور گاندھی “ہی تاریخ بن گئے۔ ان جعلی ناموں کی اوٹ میں اس خاندان کی اصل تاریخ بھی مسخ ہوچکی ہے۔
کرپشن کے خلاف فیروز کی لڑائی:فیروز گاندھی کو کرپشن کے خلاف لڑائی کی شروعات کرنے والا پہلا لیڈر سمجھا جاتا ہے۔ انھوں نے اپنے دور کے بڑے معاشی گھوٹالے مندھرا اسکنڈل کا پردہ فاش کیا تھااور اسی وجہ سے اس وقت کے وزیرِ خزانہ ٹی ٹی کرشنم چاری کو مستعفی ہونا پڑا تھا،فائننس سکریٹری کو برخواست کیا گیا تھا اور صنعت کار ہری داس مندھرا کو جیل کی ہوا کھانی پڑی تھی۔ فیروز گاندھی وزیرِ اعظم کے داماد تھے اور حکمراں پارٹی کے لوک سبھا رکن تھے اس کے باوجود انھوں نے اپنی ہی سرکار کے تحت ہورہی بد عنوانی کے خلاف آواز اٹھائی تھی،یہ ان کا حوصلہ تھا،جس کا تصور موجودہ حالات میں ممکن بھی نہیں ہے۔فیروز،نہرو اور اندرا کے رشتے:فیروز کے اس رویے نے جواہر لعل نہرو کو پریشان کر رکھا تھااور دونوں کے بیچ سرد جنگ شروع ہوگئی تھی۔ان کی بیوی اندرا گاندھی بھی ان حالات سے پریشان تھیں۔جب 1960 میں صرف 48،سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوگیا تو دونوں نے چین کی سانسیں لیں۔نہرو کے پرسنل سکریٹری ایم ۔او،متھائی نے اپنی کتاب ''REMINENCES OF THE NEHRU AGE'' میں لکھا ہے کہ انھیں پی ایم او میں جانے کی اجازت نہ تھی اورمیاں بیوی الگ الگ رہتے تھے۔ان دنوں فیروز دوسری شادی کا پلان بنا رہے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ فیروز گاندھی کی چتا ہندو طریقے سے جلائ گئی اور پھر ان کی راکھ کو الہ باد کے پارسی قبرستان میں دفن کردیا گیا۔ اگر فیروز خان پارسی تھے تو ان کو پارسی عقیدے کے مطابق پارسیوں کے مینار خموشاں میں چیل کووں اور گدھوں کی خوراک بننے کے لئے کیوں نہ رکھا گیا؟
البتہ جہاں پارسیوں کا مینار خموشاں موجود نہیں ہوتا اس صورت میں پارسی مجبورااپنے مردے کو دفن کردیتے ہیں۔
غور طلب بات یہ ہے کہ اگر فیروز گاندھی پارسی ہوتے تو یہ اتنی کہانیاں اور لندن میں اندرا کا قبول اسلام اور نکاح کی کہانیوں کا کوئ جواز ہی نہیں بنتا ہے. کچھ تو دال میں کالا تھا کہ جس کی پردہ پوشی کی کوشش میں یہ گتھی بنائ گئی۔
راہل، اپنے دادا کی قبر پر:ابھی چند سال قبل کی بات ہے کہ راہل گاندھی الہ آباد کے دورے پر گئے تو رات کی خاموشی میں اپنے چند سیکوریٹی والوں کے ساتھ چپکے چوری فیروز گاندھی کی قبر پر گئے۔ اس خبر کو میڈیا سے چھپائے رکھا گیا گویاوہ اپنے دادا کی قبر پر نہیں کسی بدنام جگہ پر جارہے ہوں اور اگر دنیا کو پتہ لگ گیا تو قیامت برپا ہوجائے گی۔یہ خبر صرف ایک اخبار میں شائع ہوئی اور وہ تھا پارسیوں کا کمیونیٹی اخبار۔ اس خبر کو اب بھی انٹر نیٹ پر دیکھا جاسکتا ہے
۔Sanaullah Khan Ahsan
http://www.savehinduism.in/stories/article/635.html
http://creative.sulekha.com/rajiv-gandhi-was-a-born-muslim-…
https://www.sikh24.com/…/the-immoral-life-of-maimuna-begu…/…
http://www.unp.me/f15/more-on-indra-gandhi-189157/
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔