یہ تصویر کی صورت میں باقی رہ جانے والے والے کم سے کم تین چوتھایؑ صدی پرانے نشاں ہیں جو میں نے 1948 کے آغاز میں بہ چشم خود دیکھے۔۔ میر سے معذرت کے ساتھ ؎ پنڈی کہ ایک شہر تھا عالم میں انتخاب۔۔ ثانی اپنا نہ رکھتا تھا اس مملکت خداداد پاکستان میں۔ یہ۔نہ مبالغہ نہ خیال آرایؑ۔۔ کراچی کہ آج دنیا کا پانچواں بڑا شہر ہے صرف سمندر رکھتا تھا کہ اس پہ ناز کرے۔۔ہاں لاہور اس وقت بھی لاہور تھا ۔۔ ہماری۔تاریخ تہزیب آرٹ ادب اور کلچر کا گہوارہ۔۔ لیکن راولپنڈی کالونیل عہد کا نمایندہ شہر تھا۔۔طرز تعمیر میں۔۔لایف اسٹایل میں۔۔اور ایگلو انڈین مخلوق کی طرح ایک "چھوٹا ولایت" کا دیسی نمونہ
داییں طرف شاید جنرل میسی کے نام پر"میسسی گیٹ" ھے جس کے نیچے سے گزر کے ڈلہوزی روڈ کی ٹریفک 'ہاتھی چوک" بازار کی طرف جاتی تھی۔۔بازار کی وجہ تسمیہ نامعلوم لیکن اب یہ نام بھی کہاں ہے۔ جیسے میسی گیٹ معدوم۔۔ دنیا کے غریب جاگے تو بولے،،جو نقش کہن تم کو نظر آۓ مٹادو۔۔ گوروں کو ہم نے نکال باہر کیا بہت جلد یہ اسلام آباد ہوگا۔۔ہمارے پاس اپنے شاندار ماضی کی قابل فخر یادگاریں ہوں گئ،،اور پھر ایسا ہوا۔،اب جہاں میں رہتا ہوں اس سوسایٹی میں داخل ہوتے ہیں تو آپ کا استقبال 4 فٹ اونچے چبوترے پر نصب ایک لایف سایؑز گھوڑے پر تلوار لہراتا محمد بن قاسم کا مجسمہ کرتا ہے
یہان "ٹوپی رکھ" کا میلوں ہر محیط پارک تھا جو (غالبا) جنرل ٹوپی کے نام پر تھا اور اسے مشرف بہ اسلام کیا گیا تویہ"ایوب پارک ہوا "آکنلک پول" جنرل آکنلک کے نام پرتھا۔۔یہ آج بھی گیریزن سٹی یا فوجی شہر کہلاتا ہے ۔یہاں ناردرن فورس کا "جی ایچ کیو" 1853سے تھا
دوسری تصویر "بینک روڈ" پر "سپرز آیس کریم" والے ریسٹورنٹ کی ہے۔اس وقت پاکستان میں کویؑ آیس کریم پارلر نہیں تھا۔۔اس سے تقریبا" متصل "کامران ریسٹورنٹ" تھا اور اس کے بعد ایک ریڈیو شاپ "ٹایم اینڈ ٹیون"۔برطانوی حکومت کا اٖفتاب غروب ہوۓ زیادہ دن نہیں گزرے تھے چنانچہ مارکٹ پر برطانوی مصنوعات کا قبضہ تھا،بعد میں جاپانی چھا گۓ جن کیلۓ کہا جاتا تھا کہ وہ مشین نہیں کھلونے بناتے ہیں۔عارضی اور ٹوٹ جانےو والے۔۔ جیسے ابھی تک جاپان کے مقابلے میں چین کی مصنوعات کیلۓ مشہور کیا گیا ہے کہ"چل جاۓ تو چل جاۓ۔۔پتا کچھ نہیں"۔۔اس دکان سے 1953 میں ہم نے پہلا ریڈیو خریدا۔۔پانچ والو تین بینڈ کے ریڈیو مقبول تھے ۔'جی ای سی' کے 330۔۔'بش'کے 300۔۔ 'مرفی' کے بھی 300 اور ' پایؑ' کے 310۔ روپے۔پہلا مجھے اور بھاٰ یؑ کو خوبصورت لگا مگر والد صاحب نے کسی وجہ سے بش لے لیا۔وجہ 30 روپے بہر حال نہ تھے۔ گھر آکے میں اور بھایؑ اپنی پسند منوانے کی سوچتے رہے۔15 دن کی گارنٹی تھی۔صرف 7 دن بعد ہم اسے خراب کرنے میں کامیاب ہوگۓ۔والد صاحب بھی کچھ مایوس ہوۓ اور'جی ای سی' آگیااس کے ساتھ فخریہ بنوایا گیا گروپ فوٹو موجود ہے۔ ان دنوں کی سنسنی خیزی الفاظ میں بیان نہیں کی جاسکتی۔میں کالج سے کلاسیں چھوڑ کے دوپہر کی مجلس میں گانے سننے آجاتا تھا،ہر پیریڈ میں حاضری لگتی تھی اورایک پیریڈ سے غیر حاضری کا جرمانہ 4 آنے تھا۔دن بھر کا رعایتی ریٹ پر ایک روپیہ۔۔اگلے ماہ جب والد صاحب کو فیس کے ساتھ جرمانہ براۓ غیر حاضری دینا پڑا۔۔ تو ۔۔ چلۓ چھوڑۓ۔۔جو ہم پہ گزری سو گزری۔۔۔ ریڈیو 1967 میں ٹی وی آنے تک ہمارے ساتھ کراچی میں رہا
صدر میں دو سکھ برادران کا 'لندن بک اسٹور' تھا ایک بھایؑ تھا سوڈھا سنگھ دوسرے کا نام یاد نہیں،،کراچی اور لاہور سے آنے والے اس کا بجلی سے لکھا ہوا "نیون سایؑن" دیکھ کر خدا کی قدرت پر واہ واہ کرتے تھے،یھاں صدر مملکت فیلڈ مارشل ایوب خاں اکیلےاپنی گاڑی خود چلا کے کتابیں لینے آتے تھے۔ان سے ملاقات کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں،وہ بھی برطانیہ کے 'سیڈ ہرسٹ' ملٹری اسکول سے پاس آوٹ ہونے والے آخری جنرل تھے۔ اس گوروں کی روایات کے شہر میں جب 'شیزان' ریسٹورنٹ موجودہ 'جی پی او' کے سامنے کھلا تو کویؑ شلوار پوش اندر نہیں جاسکتا تھا۔ایوب خان کی اسمبلی کے چند معزز ارکان پتلون میں نہ تھے تو روک دۓ گۓ۔اس پر بڑا شور مچا۔۔ پھر یہ پابندی ختم ہوٰیؑ۔پنڈی کلب کے علاوہ خالص کلب کلچر کی علامت'سلور گرل' ریسٹورنٹ تھا جہان اسی مزاج کے لوگ آتے تھے۔یہ یک پرانی کالونیل طرز کی عمارت میں تھا،اندر انگلش میگزین۔۔ایک پیانو۔۔اور "جوک باکس" کا عجوبہ تھا۔۔ مشینی ہاتھ سے آپ کی پسند کا گراموفون ریکارڈ بجانے کی خود کار مشین جو 8 آنے کا سکہ ڈالنے پر متحرک ہوتی تھی اور آپ شفاف شیشے میں سے سب دیکھتے تھے۔مجھے ایک بوڑھا انگریز یاد ہے جو پیانو نواز تھا،اس کی چاۓ اور کنفیکشنری مجھے پھر کہیں نہ ملی۔۔ ایک شخص نے ولایت سے آکے تماشا کیا۔۔اس نے صدر میں کونے کی دکان لی اور مسمار کردی۔۔اس کی جگہ گارے کی بے ہنگم دیوایں کحڑی کر کے ٹیڑھی میڑھی درخت کی لکڑی کے شھتیروں والی چھت ڈالی۔۔پبلک گم بخود کہ آخر بنے گا کیا۔۔پھر باہر بجلی کےحروف یعنی نیون سایں میں لکھا گیا "ڈرگ اسٹور" تو دیکھنے والوں کیبھی عقل حیران کہ یہ کیسا کیمسٹ۔ ۔مگر وہ ایر کنڈیشنڈ اور اندر چاےؑ کافی کولڈ ڈرنک بھی دستیاب۔۔ کاونٹر کے سامنے اونچے بار ٹایُپ اسٹول پر بیٹھ کے نوش فرماییۓ،یہاں اب مولٹی فوم والے بیٹھے ہیں
تفسیل لمبی ہوتی ہے۔۔لہکن تب یہ سب کہیں نہ تھا جو یہاں تھا ۔۔اب یہاں بھی کچھ نھیں۔۔ یاد باقی ہے ۔۔ دنیا فانی ہے۔۔ بس رہے نام اللہ کا
https://www.facebook.com/ahmed.iqbal.7737/posts/1033476166734401