رات آدھی ادھر اورآدھی ادھر ہوچکی تھی۔ دونوں لشکر سوئے ہوئے تھے۔ صبح گھمسان کا رن پڑنے والا تھا اور فیصلہ ہونا تھا کہ شمالی ہند شیرشاہ سوری کا ہوگا یا ہمایوں کا۔ پہریدار تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد اندھیرے میں گھورتے اور خبردار ہوشیار کا نعرہ لگاتے لیکن چست و چالاک پہریداروں کو معلوم نہ ہو سکا کہ نصف شب کے بعد کچھ سائے ہمایوں کے لشکر سے نکلے اور شیرشاہ سوری کی خوابیدہ سپاہ کے کناروں سے ہوتے ہوئے اس بڑے خیمے میں غائب ہوگئے جہاں شیرشاہ کے بااعتماد رفقا ان کا انتظار کررہے تھے۔ ابتدائی گفت و شنید کے بعد حتمی مذاکرات کیلئے ان ”سایوں“ کو شیرشاہ کے حضور پیش کیا گیا۔ شرائط طے ہوئیں، عہد وپیمان ہوئے اور ”سائے“ صبح کاذب سے پہلے اپنے لشکر میں واپس آگئے۔
وفاداریاں بدلنا اور گھوڑوں کی تجارت برصغیر کے خون میں رچی ہوئی ہے۔ ہمایوں کے بھائیوں نے جتنی دفعہ اس کا ساتھ چھوڑا اور جتنی دفعہ تعلقات کی تجدید کی، تاریخ کا وہ سبق ہے جو آج بھی یادرکھنا چاہیے۔ شاہ جہاں کے بیٹوں نے ایک دوسرے کو تباہ کرنے کے پانچ سالہ عمل کا آغاز کیا تو فلور کراسنگ اس پورے زمانے میں مسلسل جاری رہی لیکن وفا داریاں بدلنے والے ہمیشہ خوش بخت ثابت نہیں ہوتے۔ کبھی کبھی ان کی ذہانت دھوکہ بھی دے جاتی ہے۔ یہ سب اس لیے یاد آرہا ہے کہ متعدد ٹیلیویژن بحثوں میں تحریک انصاف چھوڑ دینے والوں کا تذکرہ ہوا ہے اور ایک سینئر کالم نگارنے تو اسے عمران خان کیلئے لمحہ فکریہ بھی قرار دیا ہے ۔ تاہم بحث کرنے والے دو بنیادی نکات کا ادراک نہ کرسکے۔ ایک یہ کہ پارٹیاں تبدیل کرنے کا عمل یہاں پینسٹھ سال سے جاری ہے اور یہ عمل ہماری تاریخ میں بہت کم فیصلہ کن رہا ہے۔ دوسرے یہ کہ تحریک انصاف کو چھوڑنے والے افراد سیاست میں اتنے نمایاں نہیں کہ اسے نقصان قرار دیا جائے۔
اصل میں یہ ایک بے معنی بحث ہے۔ تحریک انصاف کی کامیابی یا ناکامی کو اس سے مشروط کرنا سطحیت کے سوا کچھ نہیں۔ عمران خان کی کامیابی کا اگر امکان واضح ہے تو اس میں اس کا کمال کم اور تاریخ کا جبر زیادہ ہے۔ وہ تو مسلسل ایسے قدم اٹھا رہا ہے جن کا نہ اٹھایا جانا بہتر تھا۔ ٹیکسلا اور قصور سے اس نے جن صاحبوں کو اپنی جماعت میں ڈالا ہے ان سے کون متاثر ہوسکتا ہے؟ یہ اثاثے نہیں، مجسم خسارے ہیں۔ پھر راولپنڈی کے جس سیاستدان کو اس نے اپنا اتحادی بنایا ہے، اس کی عزت شاید ہی کسی کے دل میں ہو۔ ٹیلیویژن پر آ کر لوگوں کو محظوظ کرنے اور اینکر حضرات کی ریٹنگ کو اوپر لے جانے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ لوگ احترام بھی کرتے ہیں۔ کیا پنڈی کے لوگ اتنے ہی بودے اور گاﺅدی ہیں کہ رات دن مشرف کی چاکری کرنے والے کو بھول جائیں گے؟ مشرف کا عہد اس سیاست دان کا عروج تھا۔ سورج دیوار کے عین اوپر آنے کے بعد نیچے آتا ہے۔ ٹیلی ویژن پر اس کی بے پناہ ”کوشش“ اورشدید ”محنت“ دیکھ کر یہ شعر یاد آنے لگتا ہے۔
نہ پوچھ حال مرا، چوبِ خشکِ صحرا ہوں
لگا کے آگ جسے کارواں روانہ ہوا
لیکن آخر اس کاکیا کیا جائے کہ عمران خان کو وہی فوائد حاصل ہیں جو اٹھارویں صدی کے ہندوستان میں انگریزوں کو حاصل تھے۔ پچیس سال دکن میں جنگیں لڑ کر اورنگ زیب نے سلطنت کو اندر سے کھوکھلا کردیا تھا۔ اس کی وفات پر یہ عمارت ڈھے گئی۔ جو راجے، مہاراجے اور نواب ٹکڑوں کے مالک بنے وہ عیاش تھے اور جتنے بلند القابات اپنے لیے پسند کرتے تھے اتنی ہی پست ان کی سوچ تھی۔ بیگمات اور باورچی ان کیلئے امور سلطنت سے زیادہ اہم تھے۔ ہم انگریزوں کو مکار اور دھوکے باز کہہ کر تسکین تو حاصل کرسکتے ہیں، حقیقتوں کو نہیں بدل سکتے۔ کلائیو اٹھارہ گھنٹے گھوڑے کی پیٹھ پر رہتا تھا اور سراج الدولہ پالکی کو ترجیح دیتا تھا۔ سکندر مرزا کے بیٹے کی کتاب ”پلاسی سے پاکستان تک“ پڑھیں تو سراج الدولہ کے جانشینوں کی ذہنی پستی اور کلائیو کے جانشینوں کی شبانہ روز محنت پر حیرت ہوتی ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے پہلے دن ہی سے ایسا ٹھوس مالی نظام اپنایا تھا کہ بات بات پر موتیوں سے مُنہ بھر دینے اور سونے میں تولنے والے ہندوستانی حکمرانوں نے ان کے مقابلے میں ضرور قلاش ہونا تھا۔
ایسی ہی خوش بختی، تاریخ عمران خان کو پلیٹ میں رکھ کر پیش کررہی ہے۔ آج کا پاکستان اتنا ہی متعفن اور گلا سڑا ہے جتنا اٹھارہویں صدی کا ہندوستان تھا۔ نااہلی اور کرپشن عروج پر ہے۔ وفاق کا تو ذکر ہی کیا جہاں اوسط درجے سے کہیں کم ترافراد وزارت عظمیٰ پر یکے بعد دیگرے بیٹھ رہے ہیں اور وزارتوں میں کوئی کام قاعدے قانون کے مطابق نہیں ہورہا۔ صوبوں کا حال کئی گنا زیادہ ابتر ہے۔ وائٹ ہاﺅس میں صدرزرداری کے ساتھ بیٹھے ہوئے لیڈر کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ خیبر پختونخوا میں ایک عام آدمی کس حال میں ہے۔ صوبے میں خواندگی کتنی ہے اور غربت کی سطح کیا ہے۔ ان لیڈروں کواس بھیانک حقیقت کا بھی شایدہی ادراک ہو کہ پورے ملک میں آبادی کی شرح اضافہ تین فی صد سے کم ہے لیکن خیبر پختونخوا میں ساڑھے چار فیصد سے بھی زیادہ ہے۔
پنجاب کا حال اور بھی برا ہے۔ بدترین مرکزیت نے اٹھارہ وزارتوں کو ایک شخص کی جیب میں ڈال رکھا ہے۔ خاندان کا ہر فرد حکمرانی کا حق ادا کررہا ہے اور چند مخصوص علاقوں کو چھوڑ کر باقی ماندہ صوبہ شدید ترین محرومی کا شکار ہے۔ صوبائی دارالحکومت کی ایک اپنی دنیا ہے اور اس دنیا میں رہنے والوں کو باقی صوبے کا علم ہے نہ اس سے غرض ہی ہے۔ سندھ عملی طور پر طوائف الملوکی کا شکار ہے۔ کراچی شہرِ اموات بن کر رہ گیا ہے۔ بلوچستان کی حکومت ایک مذاق سے زیادہ نہیں۔ معاشرے کا یہ حال ہے کہ سرداری نظام کی کوئی مثال مہذب دنیا میں نہیں ڈھونڈی جاسکتی۔
پورے ملک میں نوجوان مایوس ہیں اور جرائم پر آمادہ ہیں۔ تعلقات اور رشوت، یہ دو کنجیاں ہیں جن کے بغیر کوئی دروازہ نہیں کھلتا۔ پی پی پی، نون لیگ، اور قاف لیگ کا ایک عام پاکستان سے کوئی تعلق نہیں۔ ان جماعتوں سے وابستہ افراد اہلیت اور میرٹ کو اپنے لیے خطرناک سمجھتے ہیں۔اس پس منظر میں عمران خان جو وعدے اور جودعوے کررہا ہے وہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ہیں۔ اس زبردست خلا کو کسی نہ کسی نے پر کرنا ہے اور تاریخی عمل نے یہ فائدہ عمران خان کو بخشا ہے۔ اگر لوگ اسے بھی آخری امید نہ سمجھیں تو کیا کریں؟ انہیں کوئی نعم البدل نہیں نظر آرہا۔ صرف عمران خان یہ دعویٰ کررہا ہے کہ وہ برسراقتدار آ کر ٹیکس کا نظام منصفانہ بنائے گا۔ صرف وہ یہ وعدہ کررہا ہے کہ سفارش اور رشتہ داری نہیں بلکہ میرٹ نوکریوں کا فیصلہ کرے گا۔ صرف وہ یہ امید دلا رہا ہے کہ اہل افراد کو اداروں کی سربراہی سونپی جائے گی اور تاریکی میں ڈوبے ہوئے مظلوم عوام کو صرف وہ، یہ روشنی دکھا رہا ہے کہ مراعات یافتہ طبقات کے اقتدار کا خاتمہ کردیا جائیگا۔
اس سیاق وسباق میں چند افراد کا تحریک انصاف کو چھوڑ کرکہیں اور روانہ ہوجانا کوئی ایسا بیرو میٹر نہیں جس سے مستقبل کو ناپا جاسکے۔ جوموضوع بحث کا متقاضی ہے، یہ ہے کہ کیا عمران خان اپنے دعوﺅں میں سچا ثابت ہوگا؟ کیا وہ عوام کو وہ سب کچھ دے سکے گا جس کے وعدے کررہا ہے؟کیا حد سے زیادہ امیر افراد جو اس کے ہم رکاب ہیں اسے انقلابی پالیسیوں پر عمل پیرا ہونے دیں گے؟ کیا مفادات کا ٹکراﺅ
(Conflict of Interests)
جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی جیسے مخصوص ذہن کے ارکان تحریک کوزیادہ دیر تک عمران خان کے ساتھ رہنے دے گا؟
اگر ، اور یہ بہت بڑا ”اگر“ ہے
(It is a Big"IF")
عمران خان کامیاب ہوجاتا ہے اور پچیس فیصد وعدے بھی پورے کر دکھاتا ہے تو نئے پاکستان کیلئے یہ گھاٹے کا سودا نہیں!
http://columns.izharulhaq.net/2012_09_01_archive.html
“