یہ دانشوروں کا اجتماع تھا۔ سیکورٹی سخت تھی۔ سکینر لگے ہوئے تھے۔ صرف تین ملکوں کے دانشور اندر آ سکتے تھے۔ مجھے اپنا حُلیہ بدلنا پڑا۔ واسکٹ پہنی ماتھے پر راکھ ملی۔ دھوتی پیچھے سے اُڑسی ۔ ہاتھ میں مالا پکڑی اور رام رام رام جپتا پہنچ گیا۔ دروازے سے گزرتے وقت مالا کے منکے تیزی سے چلانے شروع کر دیے اور آنکھیں بند کر لیں۔ اندر سے ڈر بھی رہا تھا۔ بہر طور خیریت گزری اور ہال میں داخل ہو گیا۔
یہ منظر میں زندگی میں پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ اسرائیل اور بھارت کے خفیہ گٹھ جوڑ کا ذکر اپنے ملک میں بارہا سنا تھا لیکن دیکھنے کا اتفاق یہاں ہوا، جس طرح بھارتی مندوب اسرائیل کے نمائندوں کےساتھ بے تکلفی سے مل رہے تھے، حیرت انگیز تھا۔ صاف پتہ چل رہا تھا کہ یہ لوگ برسوں سے ایک دوسرے سے مل رہے ہیں۔ تعارفی خطاب ایک امریکی دانشور نے کیا۔ اس کا لبِ لباب یہ تھا کہ اب تک ہم پاکستان کے حالات سے مطمئن تھے۔ جو کچھ ہو رہا تھا، ہماری خواہشات کے عین مطابق ہو رہا تھا، تین چیزیں پاکستان کو مسلسل کھائی کی طرف دھکیل رہی تھیں، کرپشن ، اقربا پروری اور ٹیکس چوری اور یہی ہمارے لئے اطمینان کا باعث تھیں۔ ہم امداد اس لئے دیتے تھے کہ بس پاکستان رینگ رینگ کر چلتا رہے، جاں بلب رہے، مرے نہ جیئے‘ ہم نے جب بھی امداد کے لئے شرطیں لگائیں، ان میں کبھی یہ نہیں کہا کہ اقربا پروری نہیں ہو گی، وزیراعظم کے صوابدیدی اختیارات ختم کرنے ہونگے یا کرپٹ لوگوں سے دولت واپس لینا ہو گی، ہم مطمئن تھے۔ ایک اور وجہ ہمارے اطمینان کی یہ تھی کہ عوام کو متحرک کرنے میں علماءبہت بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔ کروڑوں لوگ جمعہ کے خطبات سُن کر متاثر ہوتے ہیں لیکن ہماری خوش قسمتی کہ ٹیکس چوری، اقربا پروری اور اکِل حرام کےخلاف اس ملک کے علما نے کبھی تحریک چلائی نہ منظم کوشش کی۔ رہیں سیاسی جماعتیں، تو وہ تو جاگیریں ہیں۔ ایک ایک پارٹی ایک ایک خاندان کی ملکیت ہے۔ باپ کے بعد بیٹا تیار ہے۔ پارٹیوں کے اندر انتخابات کا کوئی امکان نہیں۔ پرویز مشرف نے سترھویں ترمیم میں ایک شق اسکے متعلق رکھی تھی۔ وہ اٹھارھویں ترمیم میں ختم کر دی گئی۔ جاوید ہاشمی، سعد رفیق اور کشمالہ بی بی نے اس پر احتجاج کیا تھا لیکن انہیں اپنی اپنی پارٹی کی طرف سے مناسب سرزنش کر دی گئی تھی! قصہ کوتاہ ۔ سب کچھ اسی طرح ہو رہا تھا جیسا ہم چاہتے تھے۔ لیکن اب ہمیں خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔ اس کی تفصیل ایک اور مندوب بیان کریں گے۔
ہال میں بیٹھنے کی ترتیب یوں تھی کہ سامنے سٹیج تھا۔ سٹیج کے دائیں طرف اسرائیلی تھے، بائیں طرف بھارتی اور سامنے امریکی۔ میں بھارتیوں کے حصے میں سب سے پیچھے بیٹھا، آنکھیں بند کئے مسلسل مالا جپ رہا تھا۔ کنکھیوں سے سب کچھ دیکھتا تھا۔ کارروائی کا ایک ایک لفظ غور سے سُن رہا تھا اور کوشش کر رہا تھا کہ سب کچھ ذہن میں محفوظ ہوتا جائے! جس خطرے کی نشان دہی تعارفی خطاب میں کی گئی، اس کی تفصیل بتانے کےلئے اسرائیلی مندوب سٹیج پر پہنچا۔
”ہمارے لئے عمران خان خطرہ بن کر ابھر رہا ہے۔ اسکی تحریک زور پکڑ رہی ہے۔ نوجوان کثیر تعداد میں اسکے گرد جمع ہو رہے ہیں، اُس نے جو منصوبہ بندی پیش کی ہے اس میں تین باتیں ایسی ہیں جن سے یہ ملک نشیب سے مزید نیچے جانے کے بجائے واپس پلٹ سکتا ہے۔ اول، وہ کرپشن کے سخت خلاف ہے۔ باتیں تو کرپشن کےخلاف دوسری جماعتیں بھی کرتی ہیں لیکن وہ تو خود کرپشن میں گلے گلے تک ڈوبی ہوئی ہیں۔ عمران خان کبھی حکومت میں نہیں رہا۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ آ کر کرپشن کا خاتمہ کر دے۔ دوم، اس کا خطرناک ترین ارادہ ٹیکس چوری کا خاتمہ ہے۔ آپ اندازہ لگائیے، اس وقت پاکستان میں صرف دو فی صد آبادی ٹیکس ادا کر رہی ہے یعنی سرکاری ملازم، وہ بھی اس لئے کہ انکی تنخواہوں سے ٹیکس کٹتا ہے اور وہ اس کٹوتی کو روک نہیں سکتے۔ باقی ساڑھے سترہ کروڑ لوگ کوئی ٹیکس نہیں دے رہے۔ جھوٹ اور بدعنوانی کی حد دیکھئے کہ منتخب نمائندے جو اثاثے ظاہر کرتے ہیں انکی رُو سے انکے پاس گاڑیاں تک نہیں۔ ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ نے پانچ ہزار روپے ٹیکس دیا۔ یہ لوگ عوام کو دھوکہ دیکھنے کےلئے بتاتے ہیں کہ اُنکی فیکٹریوں نے اتنا زیادہ ٹیکس دیا حالانکہ وہ ٹیکس تو فیکٹریوں کی پیدا کردہ مصنوعات کی قیمتوں میں جمع کر کے خریداروں کی جیب سے نکلوایا جاتا ہے‘ اگر عمران خان تاجروں، صنعت کاروں اور زمینداروں سے ٹیکس لینے میں کامیاب ہو گیا تو یہ ملک اتنا امیر ہو جائےگا کہ غیر ملکی امداد سے بے نیاز ہی ہو جائے گا اور پھر اسکی پالیسیاں بھی آزاد ہو جائینگی۔ اس شخص کا تیسرا خطرناک ارادہ اقربا پروری کا خاتمہ ہے۔ اس وقت سب سیاسی جماعتیں اقربا پروری کا شکار ہیں۔ آپ اندازہ لگائیے سرحد کا وزیر اعلیٰ اور کراچی میں اس سیاسی جماعت کا سربراہ، دونوں پارٹی چیف کے بھانجے بھتیجے ہیں۔ پنجاب کی بڑی سیاسی جماعت میں نمایاں اصحاب سارے کے سارے ایک ہی خاندان سے ہیں۔ بھائی، داماد، بھتیجا، یا پھر ایک ہی برادری سے ہیں۔ پبلک سروس کمیشن ہر صوبے میں سفارشیوں کا دارالامان ہے۔ ایسے میں عمران خان اگر اقربا پروری کے انسداد میں کامیاب ہو گیا تو یہ ملک سنگا پور بن سکتا ہے، جاپان بن سکتا ہے اور کچھ بھی بن سکتا ہے۔ ہمیں اس کا تدارک کرنا ہو گا۔“
اب بھارتی مندوب کی باری تھی۔ وہ آیا، دھوتی کو ٹھیک کیا، ہاتھ باندھ کر سامنے، دائیں بائیں آداب بجا لایا۔ وہ مسکرا رہا تھا۔ اُسکے چہرے پر اطمینان تھا۔
”حضرات! اس خطے کا باسی بھارت ہے۔ امریکہ اور اسرائیل نہیں۔ یہاں کی نفسیات سے ہم واقف ہیں اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ خطرے کی کوئی بات نہیں!“
سب چوکنے ہو گئے، اسرائیلی اور امریکی دانشوروں کے چہروں سے صاف پتہ چل رہا تھا کہ وہ بھارتی دانشور کی اس بڑ کا مذاق اڑا رہے ہیں لیکن بھارتی مندوب مسلسل مسکرا کرائیں بائیں دیکھ رہا تھا۔ وہ پھر گویا ہوا ”حضرات! کیا عمران خان نے آج تک زرعی اصلاحات کی بات کی ہے؟ کیا اس نے ملک کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں سرداری نظام کے خاتمے کا کبھی ذکر کیا ہے، میرے سوال کا جواب دیجئے۔“
شرکا نے اپنے سامنے پڑے ہوئے کاغذات کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔ سب نے جواب نفی میں دیا۔ بھارتی دانشور نے اپنا خطاب جاری رکھا۔
”حضرات، امریکی اور اسرائیلی دانشور برصغیر کی تاریخ، نفسیات اور سماجیات سے بے بہرہ ہیں۔ 1951ءمیں جب ہم نے بھارت میں زرعی اصلاحات نافذ کیں تو ہمیں ڈر تھا کہ پاکستان بھی کہیں زرعی اصلاحات کی طرف قدم نہ بڑھا دے۔ ہم سخت اضطراب میں تھے۔ بالآخر ہماری امید بر آئی اور پاکستان میں ایسا نہ ہوا۔ ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ تقسیم سے عین پہلے جاگیردار مسلم لیگ میں جوق در جوق یوں ہی تو نہیں داخل ہوئے تھے ۔ مسلم لیگ کے منشور میں زرعی اصلاحات کا ذکر تک نہ تھا۔ بھٹو نے یہ اصلاحات کیں لیکن وقت گزر چکا تھا۔ جاگیرداروں نے یہ کوشش سبوتاژ کر دی۔ زمینیں نوکروں کے نام کر دی گئیں، آج صورتِ حال یہ ہے کہ سارا جنوبی پنجاب، سندھ کا سارا اندرونی حصہ اور بلوچستان سارا جاگیرداروں اور سرداروں کی مٹھی میں ہے۔ عمران خان ان علاقوں سے کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ کروڑوں ہاری، مزارع اور کارندے صرف ٹھپہ لگاتے ہیں، وہ بھی وہاں جہاں حویلیوں والے بتاتے ہیں، عمران خان فردِ واحد ہے اسکے پاس اپنی پارٹی کو دوسری پارٹیوں سے مختلف انداز میں چلانے کا کوئی میکانزم نہیں۔ اسکی پارٹی میں بے شمار عہدہ دار تو وہ ہیں جو دوسری جماعتوں میں منہ مار کر آئے ہیں اور جن کی شہرت مجہول ہے۔ آپ عمران خان کی ”بصیرت“ کا اندازہ اس سے لگائیے کہ اُس نے ایک ایسے ریٹائرڈ سرکاری ملازم کو پارٹی میں شمولیت کےلئے کہا جس کی اخلاقی دیانت کا یہ عالم ہے کہ وہ جب ایک محکمے کا سربراہ بنا تو اس نے سب سے پہلے ایک قریبی عزیز کو بیرون ملک تعینات کیا۔ دیگ کے باقی چاولوں کا حساب اسی سے لگا لیجئے۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ عمران خان کے گرد جو لوگ جمع ہیں ان میں سے کسی کو ادراک ہی نہیں کہ ملکیتِ زمین کا موجودہ ڈھانچہ
land ownership pattern
ملک میں کسی بنیادی تبدیلی کو آنے ہی نہیں دےگا۔ وہی جدی پُشتی نمائندے اسمبلیوں میں آئینگے اور اقربا پروری کےخلاف ہر کوشش کو سبوتاژ کر دینگے۔ شہروں سے لی گئی چند نشستیں عمران خان کو کچھ بھی نہیں کرنے دینگی! رہے عمران خان کے ارادے دہشت گردی کے خلاف توجب تک سندھ اور جنوبی پنجاب میں جاگیرداری ہے اور قبائلی علاقوں میں رشوت خور خان موجود ہیں، نوجوان دہشت پسند تنظیموں کے پاس جانے کے علاوہ کر بھی کیا سکیں گے۔!“
میں نے دیکھا کہ سب شرکائے اجلاس بھارتی مندوب سے گلے مل رہے تھے اور مبارکیں دے رہے تھے۔
http://columns.izharulhaq.net/2011_07_01_archive.html
“