مارچ شروع ہوتے ہی جہاں ٹھنڈی ہواوں کی جگہ گرمی نے لے لی ویسے ہی اقتدار کے تخت پر براجمان ریاست مدینہ کے معمار بھی گرمی کی لپیٹ میں آ گئے ۔موسم ہی تو تبدیل نہیں ہوا اس بار بلکہ بہت کچھ تبدیل ہوا ہے ۔کل کے اتحادی بھی بدل گئے ، ہٹو بچو کا شور مچانے والے حواری بھی نظریں چرانے لگے ۔سیاسی مخالف تو پہلے ہی جنگ کا بگل بجا چکے تھے ۔ مناسب وقت کے انتظار میں تھے اور بالآخر وہ مناسب وقت آ ہی گیا جب تحریک عدم اعتماد جمع کرادی گئی ۔اس کے بعد تو گویا جیسے محلات میں بھونچال آگیا ہو۔غلام مشعلیں لے کر ادھر ادھربھاگنے لگے گویا محل پر کوئی آسمان ٹوٹنے والا ہو
اس ساری ہڑبونگ اور افراتفری میں بھی معمار اعظم کی آواز گونجتی رہی کہ گھبرانا نہیں ہے گھبرانا نہیں ہے مگر اس طرز حکمرانی سے اور شاہ کے گرد گھیرا ڈالے نورتنوں سے اتحادی اور جماعتی منتخب اراکین نا صرف پریشان تھے بلکہ کچھ مدت سے گھبرانا شروع ہوچکے تھے لہذا اس بار گھبرانا نہیں ہے کی آواز پر کسی نے کان نہیں دھرے اور اپنے سیاسی مستقبل کی طرف توجہ دی اور ممکنہ سیاسی فیصلے کرلیئے ۔
یہ کوئی انہونی نہیں ہوئی ایسا ہی ہونا تھا ۔ڈی چوک کے کنٹینر پر کھڑے ہوکر بجلی کے بل جلادینا اور عالمی مالیاتی اداروں کو برا بھلا کہنا بہت آسان اور مقبول عام سیاسی شعبدہ بازی ہے ہر کوئی کرسکتا ہے اصل امتحان تو اقتدار سنبھالنے کے بعد شروع ہوتا ہے ۔اور تب جا کر اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ اقتدار پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا بستر ہے اوراس بات کا بخوبی اندازہ کپتان کو ہوچکا ہوگا کہ مسائل اس سے کہیں زیادہ بھیانک ہیں اور ان کا حل جوئے شیر لانے کے برابر ہے
کپتان کو یہ بھی اندازہ ہوگیا ہوگاکہ انتخابی مہم میں سیاسی وعدے بھی سوچ سمجھ کر کرنے چاہیں وگرنہ یہ وعدے دور اقتدار میں مسلسل پیچھا کرتے رہتے ہیں ۔ پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں سیاسی نعرہ تو ہوسکتا ہے مگر ایسا وعدہ ہر گز نہیں تھا کہ جس کو شرمندہ تعبیر کیا جاسکے ۔اور اس طرح کے دیگر بہت سے وعدوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت پہلے دن سے ہی دباو کا شکار تھی ۔رہی سہی کسر وزیروں اور مشیروں کی فوج نے پوری کردی ۔ایک سے بڑھ کر ایک ارسطو کو وزارتیں دی گئیں پے در پے وزیرخزانہ تبدیل کیئے گئے بارہا قلمدان تبدیل ہوئے بقول چوہدری پرویز الہیٰ کے باربار نیپی تبدیل کی گئی مگر افاقہ نا ہوا
افاقہ ہوتا بھی کیسے کہ ایک سادہ سی بات سمجھ میں نہیں آئی ۔سادہ سی بات یہ تھی کہ اپنی آمدن اور اخراجات کے گوشوارے میں توازن لانا تھا ۔اس فرق کو کم سے کم کرنا تھا تاکہ کم سے کم قرضے لیئے جاسکیں ۔غیر پیداواری اخراجات کو کم کرنا تھا ضروری ترقیاتی مںصوبوں کو شروع کرنا تھا ۔عوام کو تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کرنی تھیں اور ساتھ ساتھ سرکاری ، نیم سرکاری اور نجی شعبہ میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے تھے ۔اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں استحکام لانا تھا ۔مگر ستم ظریفی یہ کہ کپتان کی کابینہ نے شور مچایا، کپتان کو دنیا اور عالم اسلام کا لیڈر منوانے کی تگ ودو کی مگر ان بنیادی چیزوں پر کام نہیں کیا۔
نتیجہ یہ نکلا کہ زندگی کی ہربنیادی ضرورت کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں ۔روزگار کے مواقع کیا پیدا ہونے تھے پہلے سے روزگار پر موجود بے روز گار ہونے لگے ۔پٹرول، ڈیزل ، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نے زندگی اجیرن کرکے رکھ دی ۔کوئی ایک شعبہ ایسا نہیں تھا جس کی کارکردگی مثالی ہو ہر جگہ نااہلی اور نالائقی نے ڈیرے ڈال لیئے ۔عوام متنفر ہونا شروع ہوگئی نتیجہ یہ نکلا کہ اقتدار میں آنے کے بعد جتنے ضمنی انتخابات ہوئے سوائے ایک دو نشستوں کے حکومت ہر الیکشن ہاری مگر ہوش تب بھی نہیں آیا۔
عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کی بجائے ریاست مدینہ کا چورن بیچنے کی کوشش کی گئی۔ صنعتی معاشی انقلاب لانے کی بجائے عوام کو بھیڑ ، بکریوں ، انڈے اور مرغیاں پالنے کا معاشی پلان دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ منتخب اراکین سمیت اتحادیوں نے گھبرانا شروع کردیا۔کیا سوچا تھااور نکلا۔سیاسی اتحاد جزوقتی ہوتے ہیں نا کہ کل وقتی ۔مگر کپتان کو لگتا تھا کہ جن مہربانوں نے یہ بھان متی کا کنبہ ترتیب دیا ہے یہ ہمیشہ ایسا ہی رہے گا۔اس لیئے کپتان کسی کو خاطر میں نہیں لایا اور نتیجہ یہ کہ اتحادیوں کے درپر حاضری کے باوجود وہ لوگ ساتھ دینے کو تیار نہیں ہیں۔چوہدری پرویز الہیٰ کے مطابق شگاف پڑگیا ہے اور اب یہ شگاف پر نہیں ہوسکتا۔
تحریک عدم اعتماد کے لیے 28 مارچ کی تاریخ مقرر ہوئی ہے مگر میرا اندازہ ہے کہ معاملہ اس سے قبل ہی حل ہوجائے گا اور اتحادیوں کے واضح اعلانات کے بعد شائد ووٹنگ کی نوبت نا آئےتاہم اگر ہوئی بھی تو جو تھوڑا بہت بھرم رہ گیا ہے وہ بھی ختم ہوجائے گا۔تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں نئی بننے والی حکومت کے کاندھوں پر بھاری زمہ داری ہوگی اور اس کوعوام کو ڈلیور کرنا ہوگا اگر وہ بھی پرفارم نا کرسکے تو عوام کے حالات مزید دگرگوں ہوجائیں گے ۔تبدیلی سرکار کی کارکردگی کے بعد مایوس عوام کی نئی بننے والی حکومت سے حد درجہ توقعات ہوں گی اور اگر یہ پوری نا ہوئیں تو آئندہ عام انتخابات میں اپوزیشن کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
رہی بات کہ آئندہ کے سیاسی منظر نامہ پر کپتان کا کیا کردار ہوگا تو کپتان کو اطلاع ہوکہ بطور اپوزیشن اس بار کٹھن حالات کا سامنا کرنا پڑے گا اورکپتان کو شائد پہلی بار احساس ہوکہ اپوزیشن کرنا کیا ہوتا ہے۔کیونکہ جہاں سے کپتان کو ٹھنڈی ہوا آتی تھی وہ بھی اس تجربے کے بعد کم سے کم کپتان کا دوسرا تجربہ نہیں کریں گے اور نا ہی کرنا چاہیے کیونکہ اب یہ ملک اس طرح کی ناتجربہ کار اور کارکردگی سے عاری طرز حکمرانی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...