25 جولائی 2018 کے انتخابات میں توقع کے عین مطابق تحریک انصاف ایک اکثریتی جماعت کے طورپر سامنے آئی ۔قطع نظر اس الزام کے جو اپوزیشن لگاتی ہے کہ تحریک انصاف کا مینڈیٹ حقیقی نہیں ہے اس میں طاقتور ہاتھوں کی سیاسی انجینئرنگ شامل ہے پھر بھی تحریک انصاف نے پنجاب اور وفاق میں حکومت سازی کے لیئے ہدف کے قریب ترین نشستیں جیت لیں۔کے پی کے میں ان کی حکومت کے دوبارہ بننے کی امید پہلے ہی کی جارہی تھی ۔اگست میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ملک کے 22ویں وزیراعظم کا حلف اٹھا لیا۔
اس دن کو اگر یاد کیا جائے تو ایک ہی بات یاد آتی ہے کہ عام تاثر یہی تھا کہ جیسے بہت بڑی جنگ جیت لی گئی ہو اور پہلی بار عوامی امنگوں اور خواہشات کے مطابق حکومت بننے جارہی ہے۔اور بہت جلد ملک وقوم کے حالات بدلنے والے ہیں ۔ اس وقت کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ عدم اعتماد کے نتیجے میں یہ حکومت اپنی مدت پوری نہیں کرے گی اور عمران خان وزیراعظم نہیں رہیں گے۔اور اسی مدت میں ایک نئی حکومت تشکیل پاجائے گی۔حکومت کے اتحادی جس طرح ملک وقوم کے وسیع تر مفاد میں کپتان کے ساتھ شامل ہوئے وہ دوبارہ ملک وقوم کے مفاد میں اپوزیشن کےساتھ مل جائیں گے۔
مگر سیاست ممکنات کا کھیل ہے اور پھر ایسا ہی ہو گیا اور آج کی تلخ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کی نا صرف حکومت ختم ہوچکی ہے بلکہ وہ اپنے اتحادیوں کےساتھ ساتھ اپنی جماعت کے بہت سے منتخب اراکین اسمبلی کے ساتھ ساتھ اپنے قریبی ساتھیوں جن میں جہانگیر خان ترین ، علیم خان اور چوہدری سرورشامل ہیں کی حمایت سے بھی محروم ہوچکے ہیں ۔ تحریک انصاف کے ورکرز اور سپورٹرز کو یہ حقیقت تسلیم کرنی پڑے گی کہ کپتان حکومت چلانے میں ناکام ہوگیا یہی نہیں بلکہ بری طرز حکمرانی کی ایسی مثال قائم کی جو اس سے قبل کی سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی۔
کپتان کی ناکامی کی وجوہات کیا ہیں ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ہر کوئی اپنی سوچ کے مطابق دے گا ۔تحریک انصاف کے مطابق تو اس کا جواب یہی ہے کہ ان کی حکومت کے خلاف غیرملکی سازش کی گئی ہے ۔جبکہ میری سوچ کے مطابق عمران خان کی ناکامی کی تین بنیادی وجوہات ہیں ۔نمبر ایک ناقابل عمل انتخابی وعدے دوسرا بہتر ٹٰیم کا انتخاب نا کرنا اور تیسرا معاشی میدان میں ناکامی شامل ہیں ۔اب ان تین وجوہات کا مختصر جائزہ لے لیتے ہیں
ناقابل عمل انتخابی وعدے بنیادی طورپر وہ وعدے تھے جو کپتان نے اپنی انتخابی تقاریر کے دوران جوش خطابت میں عوام سے کیئے۔ 90 روز میں کرپشن کا خاتمہ ، بے رحم احتساب ، لوٹی گئی ملکی دولت کی وطن واپسی، قرض نہیں لوں گا ، صوبہ جنوبی پنجاب کا قیام ، گورنر ہاوسز اور وزیراعظم ہاوس کو یونیورسٹی بنانا، 50 لاکھ گھر ، ایک کروڑ نوکریاں، مہنگائی میں کمی ، بجلی ، پٹرول اور گیس کی نرخوں میں کمی، یہ وہ وعدے تھے جن کو کپتان کسی بھی سطح پر پورا نہیں کرسکا۔قرضوں میں ڈوبی ہوئی معیشت سے انقلاب کی توقع کرنا نادانی کے سوا کچھ نہیں تھا ۔
کپتان کی ناکامی کی دوسری بنیادی وجہ بہتر ٹٰیم کا انتخاب نا ہونا ہے ۔انتخابات کے دوران معاشی انقلاب کا دعویٰ کرنے والے عمران خان کے چار سالہ دورحکومت میں چار وزیر خزانہ اسد عمر،عبدالحفیظ شیخ ، حماد اظہر اور پھر شوکت ترین کو لایا گیا۔ وفاقی وزیرہوابازی غلام سرور خان کے پائلٹوں کے لائسنس کے متعلق بیان نے قومی ائیرلائن کا جنازہ نکال دیا۔ایک موقع پر گیلپ سروے ہوا جس کے مطابق 55 فیصد پاکستانیوں کی رائے تھی کہ حکومتی وزرا نااہل ہیں ۔جبکہ پنجاب کے وزیراعلیٰ کا انتخاب بھی پہلے دن سے ہی تنقید کی زد میں رہا اور حکومت کے خاتمے تک اس پر تنقید ہوتی رہی۔ رہی سہی کسر ان ترجمانوں نے پوری کردی جنہوں نے کسی مرحلے پر سیاست کے درجہ حرات کو کم نہیں ہونے دیا اور آگ جلائے رکھی نتیجہ یہ کہ سیاسی مخالف اپنی جگہ اپنے اتحادی بھی ناراض ہونا شروع ہوگئے
ناکامی کی تیسری وجہ بری معاشی کارکردگی تھی۔بہتری معاشی ٹیم کے دعویدار کپتان کی حکومت میں ملک کی معاشی پالیسی کی سمت طے نا ہوسکی اور پے درپے نئے تجربات نے معیشت کا جنازہ نکال دیا۔حکومتی اعداد وشمار بھلے جو ہوں مگر اس دور میں عام آدمی کی حالت مزید دگرگوں ہوگئی۔مہنگائی سے جب عوام چیخنے لگی تو حکومتی ترجمانوں کے اس جواب نے جلتی پر تیل کاکام کیا کہ مہنگائی دنیا بھر کا مسلئہ ہے اور اس وقت بھی خطے میں سب سے کم مہنگائی ہمارے ملک میں ہے ۔وجوہات جو بیان کریں مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ کپتان کے عہد میں ڈالر کی اڑان اونچی رہی، روزمرہ کی اشیائے ضروریات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا، بجلی ، پٹرول ، گیس کے نرخوں میں اضافہ نے عام آدمی کی کمر توڑ کے رکھ دی۔
اس کے علاوہ کپتان کی آخری سیاسی غلطی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد اسمبلیوں سے مستعفی ہونےکا فیصلہ ہے۔میدان سیاسی مخالف کے لیے خالی چھوڑ دینا بھیانک سیاسی غلطی ہوتی ہے اور یہ غلطی کپتان کررہا ہے جو کہ اس کو نہیں کرنی چاہیے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا کپتان اپنی غلطیوں سے سبق سیکھے گا یا پھر اپنے غیر لچکدار رویے کے ساتھ سیاست کرئے گا۔ جو بھی ہے یہ بات طے ہے کہ کپتان کی حکومت عوامی امنگوں، خواہشات اور امیدوں کے مطابق پرفارم نہیں کرسکی ۔معاشی کارکردگی کے نام پر کپتان کے پاس کچھ نہیں ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں کیا عمران خان اپنے خلاف غیر ملکی سازش کا تذکرہ کرکے عوامی حمایت حاصل کرسکے گا یا نہیں ۔حرف آخر یہ کہ کپتان نے اپنے سیاسی کیریر کا بہترین موقع اپنی ہی غلطیوں کے سبب گنوا دیا ہے۔اگر کپتان چاہتا تو اس سے کہیں زیادہ اچھا پرفارم کرسکتا تھا اور عوام کو کچھ نا کچھ ڈلیور کرسکتا تھا
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...