گورنر ہاؤس لاہور کے بارے میں وزیراعظم کی تجویز یا فیصلہ آپ سن چکے۔ کسی کا مطالبہ نہیں تھا کہ ہمیں گورنر ہاؤس کے سبزے کا نظارہ کرایا جائے۔ جب کمپین کفایت شعاری کی ہے تو دیواروں کے انہدام اور جنگلہ لگانے کا غیر ضروری خرچ کیوں ؟
گورنر ہاؤس لاہور کے وسیع رقبے میں چڑیا گھر ہے، تالاب ہیں، ڈیری فارم ہیں،اصطبل ہے، بڑے بڑے میدان ہیں، پھلوں کے باغ ہیں، سبزیوں کے کھیت ہیں، پودوں درختوں کی نرسریاں ہیں، سکول ہے، فئیر پرائس شاپ ہےاور پتہ نہیں کیا کیا.( ان سب کی دیکھہ بھال کیلئے سیکڑوں ملازمین بھی ہیں جو کروڑوں تنخواہ لیتے ہیں) بیشتر چیزوں سے گورنر کا کوئی واسطہ نہیں. بعض گورنر بیوی بچے گورنر ہاؤس لائے ہی نہیں ، اکیلے ہی رہے اور کچھہ تو خود بھی نہیں رہے، دن کو کام نمٹا کے شام کو اپنے گھر چلے جاتے رہے.
نو آبادیاتی نشانی اس عمارت کو برقرار رکھنا ضروری ہے تو اسے باقی رہنے دیا جائے اور باقی متذکرہ چیزیں ختم کرکے اس زمین پر دفاتر اور رہائش گاہیں بنائی جائیں. جو دومنزلہ سے اونچی نہ ہوں تاکہ اس علاقے کی سبز skyline برقرار رہے. طرز تعمیر وہی ہو جو اس احاطے میں پہلے تعمیر کئیے گئے مکانات کا ہے.
گورنر وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے. سو یہ جگہ وفاق کی سمجھی جائے. لاہور میں کئی وفاقی دفاتر مختلف جگہوں پر کرائے کی عمارتوں میں ہیں… وہ ایک کرپشن کا ذریعہ بھی ہیں، کسی بااثر شخصیت یا بیورو کریٹ کی عمارت جائز سے بہت زیادہ کرائے پر لی جاتی ہے، پیشگی ادائیگی بھی کی جاتی ہے، بعض اوقات زیرتعمیر عمارت لے لی جاتی ہے اور ایڈوانس میں ملی رقم سے مکمل کی جاتی ہے. مثلا" پاکستان بیت المال کیلئے ایک وزیر خارجہ کی عمارت. پھر یہ ہوتا ہے کہ محکمے کا نیا سربراہ آتا ہے تو کسی اور کو نوازا جاتا ہے. یوں دفتر اور ان کا عملہ دربدر ہوتا رہتا ہے. ماہ نو اور پاک جمہوریت کا دفتر ہی دیکھہ لیں. بلی کے بچوں والا حال رہا.
یہ سب وفاقی دفاتر گورنر ہاؤس کی خالی جگہ پر تعمیر کئیے جاسکتے ہیں. ایسے ہی ضلعی اور ڈویژنل حکام کی رہائش گاہوں کی فالتو جگہ پر بھی رہائش گاہیں اور دفاتر تعمیر کئیے جائیں.
مالی دشواریوں کے اس وقت اتنی تعمیرات کیلئے پیسہ کہاں سے آئے گا ؟
اس کیلئے میری تجویز یہ ہے کہ بلڈرز سے یہ اس ترغیب کے ساتھہ تعمیر کرائے جائیں کہ مکانوں میں سے اتنے فیصد ان کی ملکیت ہوں گے. ایسی پرائم جگہ پر بنے گھر وہ مہنگے داموں بیچ سکیں گے. یہ ایسے ہوگا جیسے تنور پر گندھے آٹے کا ایک پیڑہ دے کر اپنے باقی پیڑوں کی روٹیاں لگوائی جاتی ہیں.
یاد رہے کہ وزرأ اور سیکریٹریوں کی رہائش والی لاہور کی GOR 1 میں بھی کئی نجی رہائش گاہیں ہیں.
اس تجویز پر عمل سے حکومت کچھہ خرچ کئے بغیر دفاتر کے کرایوں اور بڑی تعداد میں افسروں اور ملازموں کے ہاؤس رینٹ الاؤنس کی مد میں بھاری رقوم بچا سکتی ہے.
کسی الزام سے بچنے کیلئے بلڈرز سے بات چیت اور کنٹریکٹ دینے کیلئے کمیٹی میں اپوزیشن کو برابر نمائندگی دی جائے.
“