عمران خان اپنی اہلیہ کے ہمراہ پاکپتن میں معروف صوفی بزرگ بابا فرید شکر گنج کے مزار پرجانے اور چوکھٹ پر سجدہ ریز( ان کی حماتیوں کا موقف ہے کہ انھوں نے سجدہ نہیں عقیدت میں چوکھٹ کا بوسہ لیا تھاٰ) ہونے کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں تو ان کے سیاسی مخالفین نے طوفان کھڑا دیا۔ ان کی رجعت پسندی ، مزار پرستی اور دکھاوے کی مذہبیت کا مذاق اڑایا گیا۔ کہا گیا کہ وہ ہر قیمت پر اقتدار حاصل کرنے کی خواہش میں پاگل ہوئے جارہے ہیں اور اس کے لیئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔ مزار پرستی اور پیر پرستی ہماری صدیوں کی ثقافتی روایت کا حصہ ہےاوراس کی ٹھوس مادی بنیادیں موجود ہیں ا سے محض یک قلم مسترد یا مذمت کرنے سے چھٹکاراممکن نہیں ہے۔ جب تک ان مادی وجوہات کا سراغ لگا کر ان کا حل نہیں ڈھونڈا جاتا توہم پرستی، پیر پرستی اور مزار پرستی کے خاتمہ کی خواہش محض ڈرائنگ گب شپ ہے۔ ایک ایسا سماج جہاں ہسپتال میں سانپ کے کاٹے کی ویکسین موجود نہ ہو وہاں عام شہری تو اس پیر کے پاس جائے گا جو سانپ کے ڈسے کا علان دم سے کرتا ہے۔ پیر پرستی ۔مزار پستی اور توہم پرستی صرف ہماری ان پڑھ یا نیم پڑھے لکھی عوام ہی کا مشغلہ نہیں ہے اس میدان میں ہمارے اعلی تعلیم یافتہ اور بڑے سرکاری عہدوں پر فائز خواتین و حضرات بھی پیش پیش ہیں۔ پیر پرستی اور مزار پرستی ہمارے خون خمیر میں شامل ہے۔ قیام پاکستان کے بعد پاکستان ریاست تو بائی ڈیفالٹ دیوبندی ہوئی ہے جب کہ عوام میں توہم پرستی۔ پیر پرستی اور مزار پرستی کے رحجانات میں اضافہ ہوا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری ریاست عوام کے معاشی اور سماجی مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ یہ جو توہم پرستی۔ پیر پرستی اور مزار پرستی ہمیں نظر آتی ہے اس کے پس پشت ہماری ریاست ہے جو عوام کو اپنے حقوق کے حصول کے لئے جدو جہد کرنے سے پرے رکھنے کے لئے انھیں اپنی مادی خواہشات کی تکمیل کے لئےمزاروں اور پیروں سے رجوع کرنے پر اکساتی اور اس مقصد کے لئے سہولتیں مہیا کرتی ہے۔ داتا دربار کی اس قدر وسعت جو آج ہم دیکھ رہے ہیں اسحاق ڈار کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ لاہور کا قدیم ترین ہائی سکول اسلامیہ ہائی سکول گرا کر اسے دربار کا حصہ بنایا گیا تھا۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ قبر پرستی دراصل بت پرستی ہے اور یہ ہمیں ہندووں سے ورثہ میں ملی ہے لیکن جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ قیام پاکستان کو ستر سال ہوچکے ہیں ہندو یہاں جاچکے ہیں لیکن مزار ہیں کہ کم ہونے کی بجائے ان کی تعداد میں ہوش ربا اضافہ ہورہا ہے تو ہندو ورثہ والی بات کچھ درست نظر نہیں آتی۔
اگر ہم کسی پیر اور مزار کو نہیں مانتے تو ہم نے اپنے والد صاحب کو پیر کا درجہ دے لیا ہوتا ہے اور موقع بموقع ان کےدینی اور دنیاوی کارنامے دوست احباب کو سناتے رہتے ہیں۔ کبھی ہم اپنے ماں با پ کو تمام احترام رکھتے ہوئے تنقیدی نظر سے نہیں دیکھتے۔ ہمارےعوام کی بہت بڑی اکثریت آج بھی مزاروں پر حاضری دیتی اوران قبور میں موجود افراد سے نہ صرف متنیں مانگتی ہے بلکہ اس بات پر پختہ یقین رکھتی ہے کہ ان کی متتیں ان ہستیوں کی بدولت ضرور پوری ہوں گی۔ یہ ہماری آبا پرستی ہے کہ ہم اپنے بزرگوں خواہ وہ سیاسی ہوں یا مذہبی کے سیاسی اورسماجی کارناموں کا معروضی تجزیہ کرنے اور جائزہ لینے سے گریزاں رہتے ہیں۔ ہم نے انھیں الوہی درجہ دے کر اونچے سنگھاسن پر بٹھا دیا ہے۔ ہمارے تو ترقی پسند بھی اپنے رہنماوں کی سالانہ برسی تزک و احترام سے مناتے اور ان کے نظریات سے سرمو اںحراف کو مذہبی گنا تو نہیں لیکن سماجی اعتبار سے اںحراف ضرور خیال کرتے ہیں جو ان کے نزدیک قابل گرفت ہے۔ ہماراسماج فکری اورثقافتی طور پر پسماندہ اور پچھڑا ہوا ہے۔ چند سال قبل لاہور ہائی کورٹ کا ایک پارسی جج رستم ایس سدھوا ہوا کرتا تھا وہ بلا ناغہ داتا دربار جایا کرتا تھا۔ اب اس کو آپ کیا کہہ سکتے ہیں۔ جسٹس بھگوان داس بہت اچھے نعت خوان تھے اوروہ محافل میں نعتیں سنا کر داد وصول کیا کرتے تھے۔
پاکستان میں سیاست مذہب کے نام پر کی جاتی ہے یہاں ہر سیاسی لیڈر خود کو مذہبی طور پر پاکباز،نیک اور اللہ والا ثابت کرنے کا دکھاوا ضرور کرتا ہے۔ مذہبی شخصیات کے مزاروں پر حاضری دینا ہمارے ریاستی اور حکومتی اہلکا روں کا وتیرہ بن چکا ہے۔ جو مزار وں پر نہیں جاتے وہ تبلیحی جماعت کے اجتماع کے اختتام پر ہونے والی دعا میں شریک ہوتے اور اس کی میڈیا تشہیر کرتے ہیں۔
مزاروں پر حاضری دینا اور چادریں چڑھانے اور اس کی میڈیا میں تشہیر کرنے ہمارے سبھی مین سٹریم سیاسی لیڈر پیش پیش رہے ہیں لیکن بھٹو صاحب نے تو اس کو کمال مہارت سے سیاسی مقاصد کےلئے استعمال کیا تھا۔ داتا دربار اور قلندر کے مزاروں کو سونے کا دروازہ انہی نے دیا تھا۔ الیکشن مہم کا آغاز داتا دربار سے حاضری سے شروع کرنا انہی کی اختراع تھی۔ بے نظیر ، فاروق لغاری۔ نواز شریف سبھی پیروں فقیروں سے دعا اور دم پر یقین رکھتے ہیں ان کے اپنے اپنے پیر اور مزار ہیں۔عمران خان بھی مذہب کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کرنے پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ بابا فرید کے مزار پر ان کی حالیہ حاضری دراصل مذہب اور سیاست کے باہمی اختلاط پر مبنی ڈرامہ کا ایک پارٹ ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“