میں اگر شام کا کھانا باہر کھاؤں تو سونے سے پہلے کبھی کبھار فلم دیکھتا ہوں ، کہ کھانا بھی ہضم ہو جائے اور سکون بھی مل جائے ۔ میری پسند زیادہ تر روحانی، رومانوی فلمیں ہی رہی ہیں ۔ کل کا میرا انتخاب beauty in the broken
تھا جو ایک ڈیپریشن کہ مریض نفسیات کہ ماہر اور بے گھر emotionally disturbed عورت کہ درمیان عشق کی کہانی ہے ۔ کیا نفسیات کہ ماہروں کو بھی ڈیپریشن ہوتا ہے ؟ کیا وہ بھی پیار کر سکتے ہیں ؟اور وہ بھی اپنے متوقع مریض سے ؟ کیا ماہر نفسیات ان حالات میں بھی پیار کا کنول اُگا سکتے ہیں جب جینا ہی جینا نہ رہا ہو ۔ یہ فلم ۲۰۱۵ میں ریلیز ہوئ تھی اور بہت خوبصورت ، دلکش اس کی سیٹنگز اور سارے سین ہیں ، امریکہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا میں نے اس فلم میں دیکھا ۔ میں نے اپنا فون چارجر پر لگایا ہوا تھا، پاکستان سے ایک دوست کی کال آئ کہ عمران خان کی ٹوئیٹ دیکھی ؟ میں ایک دم چونکا ، میں فلم میں ڈوبا ہوا تھا۔ میں نے کہا جی دیکھی بہت اچھی تھی، پاکستان کہ حساب سے اتنے زیادہ لائکس کوئ ٹوئیٹ نہیں کھینچتی جتنے وہ لے گئ ۔ کہنے لگا اب کیا ہو گا ، میں نے جواب دیا کہ جو ہہلے ہو رہا ہے ۔
میں دوپہر ، ایک نیویارک ٹائمز کی سابقہ رپورٹر جس نے امریکی سپریم کورٹ کی کوئ تیس سال رپورٹنگ کی اس کی ایک کتاب پڑھ رہا تھا ۔ صدیق جان ضرور پڑھے وہ کئ دفعہ انجانے میں جج کو کبوتر باز کہ جاتا ہے ادھر امریکہ میں تو رپورٹر کہیں تقریر نہیں کر سکتا ، ووٹ نہیں ڈال سکتا، جزبات نہیں رکھ سکتا۔ پاکستان میں تو ضلع کا رپورٹر لگنا ہو پیسہ اور اشتہار دینے پڑتے ہیں ۔
لِنڈا گرین ہاؤس اپنی کتاب
“Just a journalist “
میں کہتی ہے کہ ۔
“Our generation has not proved to be the solution . We are the problem.
There is a distinction between what a journalist may think about the issues of the day and how the journalist writes about the issue of the day “
اب تو سارے ۲۲ کروڑ لوگ جرنلسٹ بن گئے ۔ ویسے تو جرنلسٹ کہ لیے کسی ڈگری کی ضرورت نہیں ہوتی جیسے لنڈا نے Yale سے قانون کی ڈگری لی اور ہاورڈ کے Radcliffe کالج کی سوشل سائنسز کی ڈگری ۔ مجھے تو اس کتاب سے پتہ لگا کہ رپورٹر ووٹ بھی نہیں ڈال سکتا اور سیمینار میں تقریر بھی نہیں کر سکتا ۔ یہاں تک کہ ایک دفعہ لنڈا نے anti abortion تحریک کی ایک مارچ میں حصہ لیا اخبار نے وارننگ دی ۔ سب سے دلچسپ بات یہ کہ لنڈا کہتی ہے کہ یہ باتیں میرے نوکری کہ معاہدہ میں نہیں لکھی ہوئیں کہ میں یہ کچھ نہیں کر سکتی تو نفاز کیسا ؟
میں نے اپنے لاہور کہ دوست سے کہا اب دمادم مست قلندر کہ لیے تیار ہو جاؤ ۔ اب تو جنگ بہت آسان ہے ۔ ہاؤسنگ کالونیاں بارڈر تک پہنچ گئ ہیں ۔ گھر میں جو ہاتھ میں آئے، گملا، پتھر ، لوٹا، بالٹی ، چلا دو دشمن پر بلکہ موقع ملے تو اپنے پر بھی ۔ اسلام آباد اور دہلی سے نیوکلیر بٹن دبانا حکمرانوں کا کام ۔
میں ایک دفعہ کالج کہ زمانے میں قزافی اسٹیڈیم میں پاکستان اور ہندوستان کا کرکٹ میچ دیکھ رہا تھا، تو جب بھی لگتا کہ پاکستان اچھا نہیں کھیل رہا تو لڑکوں کا ایک گروپ جنگلہ پھلانگتا اور نعرہ لگاتا
“توانوں نئیں کھیلنا آندا تے سانوں بلاؤ” یہی حال ہماری ہندوستان سے جنگ کا ہو گا ۔ جنرل غفور اپنی جنگ لڑے گا ، عمران خان اپنی اور ۲۲ کروڑ اپنی ۔
مودی بہت بڑا تماشبین اور قاتل شخص ہے ۔ اپنا اب ایپ بنا لیا ۔ کروڑوں لوگ اسے ہندوستان میں سوشل میڈیا پر فالو کرتے ہیں ۔ اس کا مداری پن خطہ میں آگ بھی لگا سکتا ہے اور قیامت بھی ۔ مودی نے ہندوستان کو غربت ، جہالت اور زلالت کی آخری حدوں تک پہنچا دیا اب اس کی نجات اسی میں ہے کہ کوئ کھڑاک کر دے ۔پاکستان کہ بھی حکمرانوں نے کوئ کم نہیں کی ۔ عمران نے بھی آتے ہی کہا خزانہ خالی ہے ، چندہ دو ، پیسے لاؤ، ٹیکس لگا دیا ، مال کہ پجاری دوست کابینہ میں رکھ لیے ۔ بابؤوں کو کہا پرانا حساب کتاب چلے گا، خود بھی کھاؤ اور ہمیں بھی وزیر اعظم تا حیات رہنے کا خرچہ پورا کرو ۔ پاکستان کہ حکمران بھی اس آبادی سے جان چھڑوانا چاہتے ہیں ۔ لنڈا ٹھیک کہتی ہے ہم سب اس مسئلہ کا حصہ ہیں ۔ پھر لُوٹ مار سے حصہ بمطابق جُسہ کہ خواہشمند ۔
جب ہم زندگی پیار اور محبت سے گزارنا ہی نہیں چاہتے ، پبلک گُڈ کہ ہم متلاشی ہی نہیں ، تو کیسا جینا؟ اگر واقعہ ہی اچھے طریقے سے جینا ہی مقصد ہو تو پھر بے گھر ہو کر ، زہنی مریض ہوتے ہوئے بھی ہم اس محبت والا کھیل جیت سکتے ہیں ۔ انسان دراصل کچھ ہار کر کچھ پاتا ہے ۔ لگتا ہے ہم سرحد کہ دونوں پار ابھی پوری طرح ہارے نہیں لہازا چلو ایک اور جنگ سہی ، قدرت کہ خلاف نہیں تو اپنے خلاف ہی سہی ۔ جنگ تو پھر جنگ ہے ، بے شک جعلی کیوں نہ ہو ۔ کوشش کریں وہ فلم ضرور دیکھیں اور اس ایک خاتون کہ مندرجہ زیل کمینٹ میں بہت جان ہے ۔ زندگی گزارنے کا آسان حل جو کل ہراری نے بھی بتایا ۔ اپنے اندر جھانکنے کا ۔
can finally see the beauty in my broken .I have been broken for so long I forgot what it was like to be me ,I came here to watch a motivating movie although at first I didn't relate but the more a watch the closer it got. The therapy part help to forgive the past me and grow the future me most importantly push the present me . if you happen to read this comment its time to live the one life God give you ,it not about what anyone things about you but how you see yourself . we are all unhappy, zunsuccessful and depressed because we are wait for a miracle fix . You want to loss weight,get good grades ,build a business whatever your dream is , you only have to do one thing, work persistently toward it. I may not know much but from to day on I am gone work on me because I deserve all that I wish for
بہت خوش رہیں ۔