عمران خان کا نظریہ
۔
حیرت کے ساتھ میں نے سوچا کہ یہ خیال پہلے کیوں نہ آیا۔ کیوں میں ایک پاپولر بیانیے کے ساتھ چلتا گیا۔ میں کیوں باقی سب بھی۔ عمران خان ایک نظریے کو لے کر اٹھا ہے۔ عمران خان کا ایک سیاسی ویژن ہے۔ قوم کی سمت متعین کرنے والا وغیرہ وغیرہ۔ ؎ یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں، کے مصداق یہ سب باتیں بھی ان لکھاریوں اور تحریک انصاف میں اول اول شامل ہونے والے مثالیت پسندوں نے پھیلائی ہیں کہ جن کو 1948 میں قائد کی وفات کے بعد ہر دوسرے لیڈر میں قوم کا "نجات دہندہ" نظر آتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کا کوئی نظریہ نہیں ہے۔ وہ ایک نظریاتی شخصیت کبھی نہیں رہا اور نہ ہی کبھی مستقبل میں بن سکتا ہے، کیونکہ آن کی آن میں عمر کے ساٹھ سالوں کے بعد صرف اور صرف ایک شخص نظریاتی بن سکتا ہے۔ اور وہ پچھلے دنوں میں بن چکا ہے، مزید کی گنجائش کے لیے کائناتی اصولوں میں لچک پیدا کرنی ہوگی۔
آئیے پیچھے چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں غلطی کہاں ہوئی۔ عمران خان ایک کھلنڈرا نوجوان کھلاڑی تھا۔ ملکی کرکٹ سے اس وقت ریٹائر ہو گیا جب اپنے کھیل کے عروج پر تھا۔ مقصد کیا تھا؟ عزت سے ایک ریٹائرڈ سلیبرٹی کی زندگی گذارنا۔ یا پھر انٹرنیشنل کرکٹ میں ماہر کھیل کے طور پر شامل ہونا۔ کیا ایک ایسا شخص عمرانیات و سماجیات کی کسی بھی تعریف میں نظریاتی ہو سکتا ہے؟ مگر قدرت کو کچھ اور منظور تھا، قحط الرجال کا ہمیں ہمیشہ سے سامنا رہا ہے، ایک اچھا کھلاڑی جو قیادت بھی کر سکے کرکٹ کے متوالوں کے ملک میں ہما بن گیا اور اگلی کرکٹ ٹیم کی کپتانی کا تاج اس کو زبردستی پہنا دیا گیا۔ ورلڈ کپ ہو گیا۔ چلو دشمنوں کی زبان میں یوں کہہ لیتے ہیں کہ عمران خان نے کچھ نہ کیا، سب بارش، اور دوسری ٹیموں کی نالائقی نے کیا اور پاکستان اپنی تاریخ میں پہلی بار (اور ابھی تک آخری بار) ورلڈ کپ جیت گیا۔ عمران خان کی واہ واہ ہوگئی۔ ماں کی کینسر موت سے دکھے ہوئے کھلاڑی نے پاکستان میں ایک کینسر ہسپتال بنانے کا ارادہ کیا اور ورلڈ کپ کی خوشی سے بے حال قوم نے اپنے ہیرو کے لیے اپنی غریب جھونپڑیوں سے سکے نکال کر کروڑوں روپے عمران خان کی جھولی میں ڈال دیے۔
یہاں تک کی کہانی میں بھی عمران خان کا نظریہ کہیں نظر نہیں آتا۔ صرف یہ کہ ماں کی موت نے ایک حساس کھلاڑی کو اپنے اردگرد دوسروں کے دکھوں سے زرا آشنا کرا دیا۔ اس نے دنیا میں پھیلی غربت، بے روزگاری، جہالت، بیماری کے بارے میں کوئی لمبا چوڑا نظریہ نہیں پالا، صرف سامنے کی بات کو پکڑا۔ ماں کینسر سے مری، کسی اور کی ماں کینسر سے نہ مرے، پاکستان کے غریب عوام کے لیے ہسپتال بنا دو۔ دوسرا خیال جو ہمیں ہمیشہ آتا ہے، وہ یہ کہ اس کے ثواب سے اپنی ماں کی مغفرت کی امید بھی رکھ لی ہوگی۔ اس سے زیادہ کیا؟
پھر عمران خان پیسے اکٹھے کرنے گلی گلی گیا۔ اسکو حلقہ این اے ایک سو بیس 120 جیسے کئی حلقوں سے گذرنا پڑا۔ جہاں گلی کے عین درمیان میں بہتی گندی نالی میں اس کا پاؤں کئی بار پڑتے پڑتے بچا، اور بچتے بچتے پڑا ہوگا۔ ایسے ہی کسی لمحے میں کرکٹ کے ریٹائرڈ کھلاڑی کے ذہن میں اس عوام کی مصیبت اور دکھ کا خیال آ گیا۔ اس کو نظر آ گیا کہ اس ملک کے سسکتی مرتی عوام کے دکھ کینسر کے ایک ہسپتال سے ختم ہونے والے نہیں ہیں۔ تھوڑا اور غور کرنے اور دوستوں سے مشورے کے بعد سمجھ میں آگیا کہ اگر ان عوام کی مدد کرنا ہے تو سیاست ہی واحد رستہ ہے۔ کیونکہ ایدھی بن کر آپ ساری زندگی میں صرف ایک شہر کی آبادی کے کھانے اور کفن کا بندوبست ہی کر پائیں گے۔ مگر تعلیم، صحت، گلی، محلے، سڑک، اور پورے ملک کو ٹھیک کرنے کے لیے اس سیاست میں اترنا ہوگا جو پاکستان جیسے ملکوں میں گٹر کی حیثیت رکھتی ہے، اور جہاں صرف کاکروچ اور "بے ناک کی مخلوق" ہی زندہ رہ سکتی ہے۔ اور وہ لاپرواہ بندہ جس نے ساری زندگی کسی سیاسی گٹر میں جھانک کر نہیں دیکھا تھا، پورے کا پورا اس میں اتر گیا۔
مگر نظریہ؟ اس کا "الزام" پھر بھی خان پر نہیں دھرا جا سکتا تھا۔ نظریہ تو بعد میں لوگوں نے اس کے سر پر تھوپنا چاہا۔ جیسے کہ ہمارے معاشرے میں رواج ہے، کوئی دیگ پکانے لگے تو بہت سے لوگ مشورے لے کر آ جاتے ہیں کہ اس میں یہ مصالحہ ڈالو تو مزہ اور بڑھے گا۔ عمران خان کے ساتھ بھی بہت سے "نظریاتی" لوگ اپنے اپنے نظریے کا مصالحہ لے کر آ گئے اور یوں ایک تحریک انصاف وجود میں آ گئی۔ جس کو فوری طور پر عوام میں پذیرائی بھی اس لیے نہیں ملی کہ روٹی کپڑا مکان پر لپکنے والی مخلوق کے لیے "انصاف" کوئی ایسی کشش والا لفظ نہیں تھا۔ مگر یہ عمران خان کی خوبی ہے کہ وہ کسی برانڈ، کسی رکاوٹ کو خاطر میں نہیں لاتا، اور اپنی بے پناہ قوت ارادی کے ساتھ ہر بھاری پتھر سرکا دیتا ہے۔ اس نے "تحریک انصاف" جیسے (پاکستان کے لوگوں کے لیے) بے معنی لفظ میں بھی جان ڈال دی اور اسکو ایک چہرہ دے دیا۔ ورنہ لوگ بہت عرصہ تک اس کو سیاسی جماعت سے زیادہ ایک اصلاحی یا پریشر گروپ کے طور پر ہی لیتے رہے۔
عمران خان نظریے نہیں مقصد کا بندہ ہے۔ اول و آخر وہ ایک گول کو سیٹ کرنے والا اور پھر اس کو حاصل کرنے کے اپنی تمام تر جان لگا دینے والے بندہ ہے۔ کرکٹ کی تربیت نے اسکو یہی ایک بات سکھائی ہے۔ عمران خان کسی بھی نظریے پر سیاست میں نہیں آیا تھا، اسکا صرف ایک مقصد تھا۔ پاکستان کے عوام کے دکھوں کو کم کرنا۔ انکی مدد کرنا۔ اس کے لیے لوگوں نے کہا، سیاست میں آؤ، وہ سیاست میں آ گیا۔ اس کے لیے اسکے اردگرد اکٹھے "نظریاتی" لوگوں نے بتایا کہ لوگوں کو انصاف دلانے کی تحریک چلاؤ، اس نے یہی نعرہ اٹھا لیا۔ مگر اس کے ذہن میں سوشلزم، کمیونزم، اسلامی شریعت، خلافت، سرمایہ دارانہ نظام، یا قومی رہنمائی کا کوئی اور نظریہ کبھی نہیں رہا۔ اگر کبھی آپ سنجیدگی سے عمران خان کے نظریے پر اسکے بیانات اکٹھے کرنے لگیں تو آپ حیرانی سے اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ اس کا "نظریہ" صرف یہ ہے کہ باقی ملکوں سے لوگ پاکستان میں نوکری کرنے آئیں۔ آپ اس کو نظریہ کہہ لیں، کون روکتا ہے؟
بات لمبی ہے، آپ جلسہ انجوائے کر لیں، باقی اگلی پوسٹ میں لکھتا ہوں کہ عمران خان کا نظریہ یا مقصد ہے کیا؟ اس کے لیے اس نے کیا کیا کیا؟ الیکٹیبلز کیوں آئے؟ جاوید ہاشمی، جسٹس وجیہہ الدین جیسے لوگوں کی مایوسی کیوں؟ اور عمران خان کی حکومت آنے کی صورت میں پاکستانی عوام کو زیادہ سے زیادہ کیا مل سکے گا۔
ملتے ہیں ایک کمرشل بریک کے بعد۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“