عمران خان نے مزار فرید پر ماتھا ٹیکا، بہت اچھا کیا۔ یہ اس خطے کی روایت ہے، عوامی عمل ہے۔ آپ کا عقیدہ اسے برا کہتا ہے تو بھلے کہتا رہے لیکن میری نظر میں اس عمل میں کوئی برائی نہیں۔ میں خود بھی مزار فرید پر جاوں تو ماتھا ضرور ٹیکوں گا۔ وہ عظیم ہستی اسی عقیدت کے لائق ہے (ویسے جن دوستوں کو عمران خان کے ماتھا ٹیکنے کے بعد بابافرید کی عظمت یاد آرہی ہے ان سے گزارش ہے ایک بار بابا فرید کے حالات زندگی کا مطالعہ کرلیں)۔
یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن دو نکات قابل توجہ ہیں۔ اس ماتھا ٹیکنے کی بظاہر دو وجوہات ہو سکتی ہیں
اول یہ کہ اقتدار کی حرص میں عمران اس حد تک مبتلا ہو چکا ہے کہ اب وہ ہر قسم کی توہمات کا سہارا لے رہا ہے۔ گلالئی والا معاملہ سامنے آنے پر بھی خان صاحب بھاگے بھاگے پاکپتن تشریف لے گئے تھے۔ پھر بھلے پانامہ کیس کے دوران کمرہ عدالت میں مسلسل تسبیح پھیرنا ہو، اپنے خلاف کیس کا فیصلہ آنے تک پیرنی کے حکم پر پہاڑوں میں براجمان رہنا ہو، ننگے پاوں مدینے کا سفر ہو، گھر میں سے کتے کو نکال کر جنات کے لئے کمرے خالی کرنا ہو یا ٹیرس پر ان کے لئے گوشت پھنکوانا ہو، توہم پرستی پر مبنی اعمال کا ایک سلسلہ ہے جو پچھلے کچھ عرصے سے عمران کی زندگی میں در آیا ہے۔ ایک عام انسان سے ایسے اعمال سرزد ہوں تو کوئی بڑی بات نہیں۔ لیکن ایک عوامی لیڈر کا یوں سیاسی حرکیات سے انکار اور اپنے اقتدار کی لڑائی میں مخالفین پر حاوی ہونے کے لئے مافوق الفطرت قوتوں پر حد درجہ انحصار نہ صرف یہ کہ ہماری جگ ہنسائی کا باعث بنے گا بلکہ ہمارے مجموعی قومی کردار کو بھی مسخ کرے گا۔ عوام لیڈروں کی ذاتی زندگیوں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے سو کچھ عجب نہیں کہ عمران کے ان اعمال کے زیر اثر عوام میں توہم پرستی کو فروغ حاصل ہو، پیروں فقیروں اور جوتشیوں نجومیوں پر انحصار میں اضافہ ہو۔ لوگ اس کا موازنہ "بم بردو" والوں سے کرتے ہیں، کہ چلو کسی کو دھماکے سے اڑانے سے تو بہتر ہے کہ بندہ ماتھا ٹیک لے۔ یہ موازنہ بھی ایک فکری مغالطہ ہے۔ دونوں ہی اعمال ناقابل قبول ہیں۔ ایک آپ کی جان کے درپے ہے تو دوجا آپ کی عقل کے۔
دوسرا قابل غور نکتہ سیاسی ہے۔ بظاہر یہ بھی دکھائی دے رہا ہے کہ عمران کی پارٹی اب آہستہ آہستہ شہری متوسط طبقے کی امنگوں کی ترجمانی سے ہاتھ کھینچ کر کسانوں اور دیہی و قصباتی متوسط طبقوں کی جانب توجہ مبذول کر رہی ہے۔ شائد عمران کو یہ سمجھ آگئی ہے یا اسے سمجھایا گیا ہے کہ شہری متوسط ملازمت پیشہ طبقے کی حمایت سے الیکشن میں کامیابی نہیں حاصل کی جاسکتی۔ یہ لوگ اول تو ووٹ دینے نکلتے نہیں، اگر راضی ہو بھی جائیں تو ان کی گوناگوں مجبوریاں ہیں۔ کچھ ملازمتوں کی غرض سے دوسرے شہروں میں مقیم ہیں تو کچھ بیرون ملک۔ ووٹ ڈالنے کے لئے اپنے آبائی شہر یا گاوں کا سفر بہت تھوڑے ہی کرتے ہیں۔ یہ سب رکاوٹیں عبور کر بھی لی جائیں تو بھی ان کی تعداد سوائے بڑے شہروں کے چند حلقوں کو چھوڑ کر فی حلقہ بہت کم ہے۔ کرپشن کے نعرے کو پس پشت ڈال کر الیکٹیبلز کو قبول کرنا بھی اسی نئی ابھرتی سوچ کی نشانی ہے۔ پیرپرستی دیہاتی معاشرت میں ایک غالب عنصر کا درجہ رکھتی ہے۔ عمران کے ماتھا ٹیکنے کو دیہاتوں اور قصبوں میں نہایت ستائش سے دیکھا جائے گا۔ شائد سیاسی حربے کے طور پر یہ کوئی اتنی بری چال نہیں، دنیا کے سبھی سیاست دان ایسا کرتے ہیں۔ جسٹن ٹروڈو مسلمانوں کی افطاری میں اس لئے شامل نہیں ہوتا کہ اسے پکوڑے بہت پسند ہیں، وہ بھی مسلمان ووٹر کی حمایت حاصل کرنے کے لئے ہی ایسا کرتا ہے۔ نصرت جاوید صاحب کا ایک جملہ بار بار یاد آتا ہے ایسے موقعوں پر کہ سیاست دان بوائے سکاوٹ نہیں ہوتے۔ سو عمران کی اس سیاسی چال میں بھی کوئی برائی نہیں لیکن میرے خیال سے الیکش بہت قریب ہیں، اب ایسی چالوں کے لئے وقت گزر چکا ہے۔ اس کا فائدہ 2018 الیکشن میں کم ہی ہوگا اور 2023 تک نجانے کیا کچھ بدل چکا ہو۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“