عمران خان کا خطاب: ایک تجزیہ
1۔ عمران خان کا زہنی اور نظریاتی حصہ خاصہ کمزور اور یوٹوپیائی ہے۔ جتنا کثرت سے وہ مدینے کی ریاست کی بات کرتے ہیں۔ وہ اس کی حرکیات اور واقعاتی حقائق کے بارے کچھ علم نہیں رکھتے۔ حتی کہ زکوۃ کو انہوں نے 'پروگریسو' ٹیکس کہا ہے، حالانکہ زکوۃ فکسڈ ٹیکس ہے۔ ایک لاکھ والا بھی ڈھائی فیصد دیتا ہے اور ایک سو کروڑ والا بھی ڈھائی فیصد ، لیکن عمران جیسے ایمان یافتہ فرد کی عادت ہوتی ہے، وہ نہائت آسانی سے خود فریبی کی باتیں کرجاتے ہیں۔
2۔ ہم جیسے غورو فکر کرنے والوں کے نزدیک فلاسفییکلی بنیادی فکر ، بنیادی تضادات کے بارے کلئیر ہونا نہائت ضروری ہوتا ہے ، مسائل کا تجزیہ اور حل کرنے کے لئے، انہوں نے اس ریاست اور سماج کے کسی بنیادی تضاد کو ٹچ تک نہیں کیا۔ فلاحی ریاست اس وقت تک نہیں بن سکتی، جب تک سیکورٹی ریاست کا خاتمہ نہ ہو۔۔ سیکورٹی ریاست بھی ہو، اور وہ فلاحی ریاست بھی ہو۔۔ د ومتضاد چیزیں ہیں۔ اسی طرح کمزور اور محروم طبقات کی اپ لفٹ کے لئے بہت کچھ کہا ہے۔ لیکن غربت کا بنیادی مسئلہ ہے وہ کثرت آبادی ہے۔۔ یعنی بچے تو اسی حساب سے پیدا کرتے رہیں گے۔۔ اور معذروں، بیواوں، ڈھائی کروڑ تعلیم سے محروم بچے، سٹریٹ بچوں وغیرہ کے لئے پاکستانی ریاست ضروریات پوری کرسکے گی، دیوانے کا خواب ہی ہے۔
3۔۔ بلاشبہ باتیں بہت شاندار۔۔ اس کا 50٪ بھی ہو ، پاکستان میں انقلاب محسوس ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ ساری خوش کن خواہشات ہیں، Wishful thinking۔۔ کہنا اور عمل کرنے میں خلاوں جیسا فاصلہ ہوگا۔۔۔ یہ فرد واحد کی خواہشات تو ہوسکتی ہیں۔ 21 کروڑ لوگوں کثیرطبقاتی معاشرے میں وہ بھی 5 سال میں تو ناممکن ہے۔ تبدیلیاں خواہشات سے نہیں ہوتی۔ معاشرے میں تبدیلی کی حرکیات ہونی ضروری ہیں۔ اور ان کو مصنوعی طریقے سے اوپر سے مسلط نہیں کیا جا سکتا۔۔ جن کے مفادات پیوستہ ہیں۔ وہی اس کا جینا حرام کردیں گے۔ یہ سارے دعوے رفتہ رفتہ گھسنا شروع ہوجایں گے اور معاملہ آئین بائیں شائیں تک جا پہنچے گا۔۔ سلیم صافی نے خطاب کے بعد جیو چینل پرکہا، کہ جس وقت عمران یہ تقریر کررہا تھا۔ عین اسی وقت پی ایم ہاوس میں 250 بندوں کا ڈنر ہورہا ہے۔۔ اور کل پہلے دن ہی انتہائی شاندار بیڈ کو اٹھوا کر دوسرے فرنیچر کا آرڈر دے دیا۔۔ کل آتے ہی سٹاف سے پوچھا، کہ نواز شریف کا وزیراعظم ہاوس کا ذاتی خرچہ کیا تھا، مجھے فائل پیش کی جائے پتا چلا نواز شریف نے اپنے اور اپنے خاندان پر کبھی سرکاری ایک پیسہ خرچ نہیں کیا۔ وہ اپنی جیب سے ہر بل دیتے تھے۔۔
4۔ عمران کے اس طرح کے دعووں اور انقلابی تبدیلیوں کی خواہشات کو دیکھیں۔ تو اس کے لئے تین چیزوں کی پہلے ضرورت ہے۔ بجٹ کی تقسیم۔۔ پاکستانی بجٹ کا معاملہ اس قدر ٹائٹ ہے کہ اس کا کوئی جز بھی ادھر ادھر ہلایا نہیں جا سکتا ہے۔۔ دفاع کا بجٹ کسی صورت کم نہیں ہوسکتا، بیرونی قرضوں کی واپسی کسی صورت ٹالی نہیں جا سکتی، پھر ریاست اور حکومت کو چلانے کے لئے انتظامی اخراجات۔۔ یہ سب دینے کے بعد ایک نام نہاد سا 7-8 سو ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ بچ جاتا ہے۔۔ جس کا ہر سال 60٪ حصہ 'واپس' کردیا جاتا ہے۔۔ یہ حساب کتاب کونسے تعویز اور جادو سے ادھرادھرکیا جا سکے گا۔ کچھ دنوں تک اس کے معاشی اورمالیاتی مشیر عمران کا نشہ اتار دیں گے۔ اس طرح تبدیلی کے لئے دوسری چیز چاہئے ٹیم۔۔اسی طرح کی انقلابی سپرٹ کے ساتھ۔۔ ٹیم اور پارٹی تو ساری کی ساری روائتی مزاج کے لوگوں کی ہے۔۔ ان میں کوئی ارب کھرب پتی سے کم نہیں۔۔ اور سب بدمعاش ٹائپ لوگ ہیں۔ بالکل وہی جو ہماری قوم کا مزاج ہے۔ جو کسی بھی پارٹی کا حصہ ہیں ان کو تو نسلی عادتیں پڑی ہوئی ہیں لوٹ مار کی۔ پارٹی بدلنے سے فطرت کیا بدل جاتی ہے۔۔ تیسری چیز بیوروکریسی ہے جس نے ان سب منصوبوں اور خواہشات پرعمل درآمد کرانا ہے۔ اللہ رحم کرے۔۔ ہماری افسر شاہی اور پھر نیچے کلرک بادشاہ۔۔۔ اور سرخ فیتے، ضابطوں اور قانونوں کی پچیدگیاں۔۔ یہ سب دعوے نیچے جاتے جاتے۔۔ غائب ہوجائیں گے۔ اصلاحات کی یہ سب باتیں کسی بھی منسٹری کی فائلیں اٹھا کردیکھ لیں پہلے سے موجود ہونگی۔۔اور 'ان پر کام' ہو رہا ہوگا۔۔ لمبی لمبی رپورٹیں ہونگی، سنہرے لفظوں میں لکھی ہوئی۔۔ سامنے کچھ بھی نہ ہوگا۔۔ ہمارا تو مسئلہ ہی یہ ہے، کہ منصوبے اور خواہشات بے شمار۔۔ عمل زیرو۔۔ جب آپ ہزاروں کے حساب سے کمپرومائز کرکے کرسی پربیٹھتے ہیں۔ توپھر آپ کی بادشاہی بھی محدود ہوتی ہے۔
5۔ وزیراعظم کی پہلی تقریر ہے اور خارجہ امور پرصرف ایک لائن تھی، "سب ہمسایہ ملکوں سے دوستانہ تعلقات بنائیں گے'۔۔ یہ میرا خیال ہے کئی ہزار دفعہ ہماری خارجہ پالیسیوں میں لکھا ہوا لفظ ہوگا۔۔ لیکن عملی حقیقتیں کچھ اور ہیں۔ اور وزیراعظم صاحب کو اس پرکچھ بولنے کی اجازت بھی نہیں ملی۔۔ انتخابات جیتنے کے بعد جو کہا ہے بھارت ایک قدم اور دو قدم۔۔ اس تقریرسے وہ بھی خذف کروا دیئے گے ہیں۔
6۔ گزرتے گزرتے مختصر ان ڈائریکٹ انتہا پسندی کی بات کی ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کی۔۔وہ کب کا بنا ہوا ہے۔۔ اور اس کے باوجود احسان اللہ احسان محسن قوم بنا کرپیش کیا جاتا ہے اور ملی اور لیبیک اور جھنگوی کو الیکشن لڑوائے جاتے ہیں۔ اور مین سٹریم کیا جاتا ہے۔۔ فیٹاف والے خود دورے کرکے حکم جاری کررہے ہیں۔۔ عمران کا مدرسوں کے بارے بھی بہت غلط سوچ ہے۔ یہی کے پی کی طرح لگتا ہے اربوں روپے کا بجٹ مدرسوں کی 'اصلاحات' کے نام پردے دے گا۔۔ پاکستانی یونیورسٹیاں پہلے ہی مدرسہ سوچ رکھنے والے پروفیسروں سے بھری ہوئی ہیں، اور زہنی تباہی کررہی ہیں۔۔ یہ مدرسے کے طلبا کو ڈاکٹر انجنئر بنانا چاہتا ہے۔ کیا حشر ہوگا اس معاشرے کا پھر اس کے بعد۔۔
7۔ اسٹیبلش منٹ چاہتی کیا ہے عمران خان سے۔۔ ان کو اس طرح کا ایک پھدو وزیراعظم چاہئے۔ جو ان نیک نیک باتوں اور کفائت شعاری سے، کچھ ممکنہ کرپشن کی لیکیج بند کرکے بجٹ میں جو آمدن و خرچ کا بہت گیپ بنتا جا رہا ہے۔۔ اسے کسی طرح سے کم کرسکے۔۔ عوام کو کچھ لولی پاپ دے سکے۔۔ 'نیک لیڈر' آ گیا ہے۔ وہ ٹھیک کردے گا۔۔
بہرحال ہر ایک کے منفی مثبت پہلو ہوتے ہیں۔عمران کے بھی کچھ مثبت پہلو ہوسکتے ہیں۔ ہماری امید اور خواہش ہوگی، کہ وہ زیادہ سے زیادہ ڈیلور کرسکے۔ پاکستان کو بہتر ہونا چاہئے۔۔ ماضی کا تجربہ، حال کی حقیقتیں، طاقت ور عسکری اسٹیبلش منٹ، یہ ٹیکنو کریٹ اوربیوروکرسی۔۔ ان کو سن سن کراور دیکھ دیکھ کرتنگ آچکے ہیں۔ ہربار نتیجہ زیرو۔۔ ہوتا ہے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔