ہمارے ہاں مروجہ سیاست شدید تنقید کی زد میں رہتی ہے ۔خاص طورپر سوشل میڈیا پر متحرک وہ نوجوان نسل جو مارشل لا کے عہد میں فکری اور زہنی کرب سے نہیں گذرئے ۔ان کو اندازہ ہی نہیں کہ جبر کے عہد میں پاوں میں پڑی زنجیر کی جھنکار بھی داروغہ کے کانوں پر گراں گذرتی ہے ۔مظلوم کی آہ وبکا سے کوتوال کی نیند میں خلل پڑتا ہے ۔یہ ایک ایسا دور ناروا ہوتا ہے جس میں پابند سلاسل کرنے کے لیے کسی جرم کا ہوناضروری نہیں ہے بسا اوقات تو سوچنا اور پھر بولنا بھی ناقابل معافی جرائم تصورہوتے ہیں اور ان کی سزا طویل مدت تک کال کوٹھڑیوں میں قیام ہوتا ہے ۔تاہم اس سب کے باوجود چند شوریدہ سر اس آزادی کے لیے جدوجہد کرتے رہے جو ہماری آج کی نسل کو میسر ہے
بھلے ہزار خامیاں ہوں ہماری سیاست میں مگر کچھ اچھائیاں بھی تھیں جن کا اقرار کرنا بھی ضروری ہے ۔کچھ روایات تھیں کچھ اخلاقی اصول تھے جن کی پاسداری کی جاتی تھی ۔تاہم ماضی قریب میں جو کچھ دیکھا اس کا تو تصور بھی نہیں کیا گیا تھا۔ انا ، ضد ، ہٹ دھرمی اور میں نا مانوں کی رٹ نے کچھ نئی سیاسی روایات قائم کی ہیں ۔وزیراعظم ، اسپیکر قومی اسمبلی ، ڈپٹی اسپیکر کے بعد پنجاب اسمبلی میں ہونے والے تماشہ کے بعد ایوان صدر کے ٹریلر جاری ہیں ۔کیا صدر کا کردار ایسا ہوسکتا ہے جیسا کہ پیش کیا گیا ۔حلف نا لینے کی خاطر خرابی طبعیت کا بہانہ صدارت کے منصب کے مقابلے میں بہت حقیر تھا۔اسی لیئے وزیراعظم ایوان صدر گئے اور 15 منٹ کی ملاقات ہوئی ۔اتنے قلیل وقت رسمی دعا سلام کے بعد بچنے والے مختصر وقت میں کیا بات ہوئی ہوگی اس کا اندازہ کرنا قطعی مشکل نہیں ہے ۔
اب اگر جناب صدر اس ملاقات کے بعد بھی حکومتی سفر میں تعطل کا باعث بنتے ہیں تو اس کا تدارک کیا ہے تو اس کا واحد حل صدر کی تبدیلی ہے ۔اب صدر مملکت مستعفی تو ہوں گے نہیں اس کے لیے صدر کو فارغ کرنے کے لیے حکومت مواخذے کی تحریک پیش کرسکتی ہے اور مواخذے کی تحریک کی کامیابی کے لیئے حکومت کے پاس دونوں ایوانوں میں سے مجموعی طورپر 296 ووٹ ہونے چاہیں جبکہ حکومت کے پاس قومی اسمبلی میں منحرف اراکین کو ملاکر 200اور سینیٹ میں 72اراکین کی حمایت حاصل ہے لہذا مواخذے کی تحریک کو کامیاب کرانے کے لیے کم وبیش 30 ووٹ مزید درکار ہیں۔اور اس وقت تک جناب عارف علوی ہی صدر رہیں گے ۔اب یہ قصر صدارت پر منحصر کرتا ہے کہ نظام حکومت کیسے چلے گا
اب یہ کسی المیے سے کم نہیں ہے کہ جو کچھ ایوان صدر سے لے کر گورنر ہاوس تک ہورہا ہے اس رویے کی مثال کہیں نہیں ملتی ۔ملک و قوم کے مفاد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اگر آئینی عہدوں پر فائز شخصیات آئین سے وفاداری کی بجائے کسی شخصیت سے وفاداری نبھانے لگ جائیں تو سوائے ماتم کے اور کیا کیا جاسکتا ہے ۔ایسے حالات میں عہدے بڑے ہوجاتے ہیں اور ان پر براجمان بونے نظر آنے لگتے ہیں ۔ملک و قوم سے محبت اور وفاداری یہی ہے کہ اپنی زات سے بالاتر ہوکر سوچا جائے وسعت قلبی کا مظاہرہ کیا جائے ۔اگر نظام میں اپنے لیئے کچھ گنجائش باقی رکھنی ہے تو یہ ضد چھوڑنی پڑے گی کہ اگر میں نہیں تو پھر کوئی بھی نہیں ۔ناگزیر کوئی نہیں ہوتا اور نا ہی قوموں اور ملکوں کی تاریخ میں حب الوطنی کا تاج کسی ایک کے سر ہوتا ہے۔ہر شخص اپنی سطح پر محب وطن ہوتا ہے بس سماجی کردار اہمیت کا تعین کرتا ہے
شائد یہی بات کپتان کو بھی سمجھ آنے لگی ہے اقتدار کا جاہ وجلال کچھ کم ہوا تو احساس ہوا کہ غصے اور جلد بازی میں قوم کو غلط نعرے دے بیٹھے ۔اب آہستہ آہستہ مزاج اور حالات نارمل ہوتے جارہے ہیں ۔بہت ساری ابتدائی جذباتی باتوں کی نفی شروع ہوگئی ہے ۔اچھی بات ہے کسی غلط بات پر رجوع کرلینا مثبت رویہ ہے اور اس کی تعریف ہونی چاہیے ۔ تاہم کپتان ایک جگہ فرماتے ہیں کہ اینگلو سیکسن ملکوں کے علاوہ کہیں بھی پارلیمانی نظام جمہوریت نہیں چلا۔بارہا عرض کی ہے کہ کپتان اپنے مشیر بدلیں اور ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کریں جن کا تاریخ کا مطالعہ وسیع اور سمت درست ہو۔
کپتان کے اس تاریخی مغالطے کو دور کرنے کے لیئے عرض ہے کہ سیکسن اور اینگلز قبائل نے پانچویں صدی عیسوی کے وسط میں جزائر برطانیہ پر حملہ کیا اور اس کے بعد برطانیہ کے جنوب اور مشرق میں اینگلو سیکسن بادشاہت کا قیام عمل میں آیا اورپھر جدید برطانیہ بھی اس میں شامل ہوا۔یہ ہے اینگلوسیکسن کی مختصر تاریخ اور اس کے ساتھ کپتان کی خدمت میں عرض ہے کہ دنیا میں اس وقت کم وبیش 65 کے قریب ممالک میں پارلیمانی نظام چلایا جارہا ہے ۔
کپتان کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مسلئہ صدارتی یا پارلیمانی نظام کا نہیں ہے مسلئہ ان نظام کے چلانے والوں میں ہے ۔ہر نظام کا قیام صرف اور صرف عوام کی بہتری کے لیے ہوتا ہے اب اگر کوئی عوام کی بہتری کے لیے کامیاب کوشش نا کرسکے تو اس میں نظام کی کیا خامی ہے۔چلیں نظام کی خامیاں اپنی جگہ کیا کوئی اپنی خامیوں پر بھی ایک نظر ڈالنا پسند کرئے گا اپنا محاسبہ بھی کرئے گا کہ اس سے کہاں کہاں غلطیاں سرزد ہوئیں۔اگر ہم ڈلیور نہیں کرسکتے تو کیا نظام کو بدل ڈالیں گے خود کو کیوں نا بدلا جائے اپنی غلطیوں کو کیوں نا ٹھیک کیا جائے ۔
ان رویوں کو کیوں نا بدلا جائے جو ہماری کارکردگی میں رکاوٹ بنتے ہیں جھوٹی انا اور غلط ضد کو کیوں نا ختم کیا جائے جس کے سبب ہمارا ترقی کا سفر رک جاتا ہے ۔ہماری زات کی تکمیل نہیں ہوپاتی ہماری الجھنیں بڑھتی جاتی ہیں ۔ہم بے سمت سفر کرنے لگتے ہیں ہماری منزل کھو جاتی ہے۔ہم اپنی زات کا بوجھ لیئے دربدر بھٹکتے پھرتےہیں ۔اپنی ناکامی کی آواز کو عوامی اجتماعات کے شور میں چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں ۔اب بھی وقت ہے کہ اپنا احتساب کرکے مستقبل کی سیاست کو بچایا جاسکتا ہے
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...