میرے گزشتہ کالم ’’عمران خان کے تضادات‘‘ پر بڑا بھرپور ردِعمل سامنے آیا ہے۔ جو لوگ عمران خان کو مسیحا قرار دیتے ہیں، انہوں نے میرے تجزیے پر تنقید، اختلاف اور احتجاج بھی کیا۔ کچھ نے یہ بھی کہا کہ ہم آپ کی تحریروں کو پسند کرتے ہیں لیکن اگر آپ نے ایسا ہی لکھا تو ہم آپ سے نفرت کریں گے۔ جو لوگ عمران خان کے مخالف ہیں، انہوں نے پسندیدگی کا اظہار کیا۔ میرے لیے اہم ردِعمل وہ ہے جو جناب عمران خان کے چاہنے والے حلقے سے آیا، اس لیے کہ یہ لوگ عمران خان کی قیادت میں پاکستان کو تبدیل ہوتا دیکھ رہے ہیں اور اس طرح یہ لوگ تبدیلی کے اُس کارواں میں شامل ہیں جس کی قیادت عمران خان کررہے ہیں۔ ان احباب میں سے کچھ لوگوں نے یہ بھی خواہش کی کہ میں آصف علی زرداری پر بھی اسی طرح لکھوں، یہ کوئی دلیل نہیں۔ اور اگر یہ احباب پچھلے پانچ برسوں میں میرے شائع شدہ کالم پڑھ لیں تو انہیں معلوم ہو کہ بحیثیت تجزیہ نگار میرا کام تجزیہ کرنا ہے، کسی لیڈر کی وکالت کرنا نہیں۔ چوںکہ ہمارے بیشتر کالم نگار، تجزیہ نگار اور اینکرز سیاسی دھڑوں میں بٹے ہوئے ہیں، اس لیے ہمارے ہاں غیر جانب دار تجزیے کی روایت معدوم ہوتی جا رہی ہے۔
یہاں میں زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتا، بس اتنا عرض ہے کہ عمران خان وہ قومی رہنما ہیں جن تک میری براہِ راست رسائی ہے۔ آصف علی زرداری اور نوازشریف یقینا میرے نام سے بھی آگاہ نہیں ہوں گے۔ میری جناب عمران خان صاحب سے اتنی قربت ہے کہ اپریل 2007ء میں بھارت میں ایک کانفرنس میں، میں نے اُن کا نام تجویز کیا، اس وفد کی قیادت میں کررہا تھا اور جب وہ وفد بھارت پہنچا تو مجھے بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کے ساتھ سٹیج پر بیٹھنا تھا۔ میں نے میزبان کو تجویز کیا کہ مجھے نہیں بلکہ جناب عمران خان کو سٹیج پر بیٹھائیں۔ اس عزت افزائی کا وہ حق رکھتے ہیں کہ وہ ہمارے سپورٹس ہیرو اور ایک سیاسی جماعت کے رہنما ہیں۔ مجھے اگر سیاسی اور حکومتی مقام حاصل کرنا ہوتا تو آج میں سیاست کی معراج پر ہوتا۔ میں اُن لوگوں میں سے نہیں جو صحافت اور قلم کاری کے زینوں سے ہوتے ہوئے سیاسی درباروں تک پہنچے اور نہ ہی پلاٹ لینے ، سربراہوں کے ہمراہ سرکاری دوروں حتیٰ کہ درباروں میں بریفنگ لیتے ہوئے مجھے کسی نے آج تک نہیں دیکھا۔ میں سیاست کی اس معراج سے باقاعدہ قلم کاری کی طرف آیا جس کا خواب بڑے بڑے لوگ دیکھتے ہیں۔ مجھے بس دو چیزیں عزیز ہیں، وطن عزیز سرزمینِ پاکستان اور اس کے محکوم عوام۔ عملی سیاست میں تھا تو تب بھی اور اب جب قلم، لفظ، حروف اور اشاعت کاری کو اپنا اوڑھنا بچھونا طے کرلیا۔ مجھے کیا غرض جناب عمران خان صاحب سے، جناب آصف علی زرداری سے، جناب نوازشریف یا کسی اور سیاست دان سے۔ میرے نزدیک خلق خدا اہم ہے۔ اسلام کے مطابق مجھ پر حقوق اللہ سے زیادہ حقوق العباد کی ذمہ داری ہے اور اسی طرح سیاسی فلسفے میں بھی میں عوام پر یقین رکھتا ہوں، شخصیات یا خاندان پر نہیں۔ ہاں میرا تجزیہ مکمل طور پر غلط ہوسکتا ہے، یہ کوئی مذہبی عقیدہ نہیں۔ اور ہرکسی کو سیاسی اختلاف کا حق ہے۔ میرے ایک دوست جن کی دوستی پر میں مرتے دم تک نازاں رہوں گا، وہ دنیا کے عظیم لوگوں میں شمار ہوتے ہیں، ترکی کے سابق وزیراعظم جناب بلند ایجوت۔ اُن سے میں نے زندگی کا ایک اہم راز پایا جو میں اپنی ذات، شخصیت اور سماج پر نافذ کرنے پر یقین رکھتا ہوں کہ ’’جمہوریت ایک طرزِ زندگی ہے۔‘‘ جمہوریت زندگی کے تمام معاملات، لین دین، افکار، نظریات، رویے اور روزمرہ زندگی سے متعلق ہے۔ اس لیے اختلاف کا حق تو سمجھ میں آتا ہے، لیکن سیاست میں نفرت اور فتویٰ گیری سمجھ سے بالاتر ہے۔
لہٰذا اس سارے بیان کے بعد میں پھر عرض کروں گا، عوام عمران خان کی شکل میں تبدیلی کے خواہاں تھے، ایک ایسے وقت میں جب ملک بے نظیر بھٹو کے قتل، آصف علی زرداری کی قیادت میں پارٹی سے مایوس اور شریف برادران سے زیادہ مطمئن نہ ہوئے تو انہوں نے اپنا بازو عمران خان کی حمایت میں کھڑا کردیا۔ لیکن افسوس، عمران خان نے اپنی جماعت میں اُن لوگوں کو لا کھڑا کیا جن کے خلاف دہائیوں سے لوگ جدوجہد کررہے ہیں۔ اور اہم بات یہ ہے کہ عمران خان ایک انتخابی عمل کے تحت مقبول ترین لیڈر قرار دئیے گئے تو پھر وہ کس ایک انگلی کے اشارے کے منتظر رہے؟ یعنی وہ کروڑوں لوگوں کے زورِبازو پر یقین نہیں رکھتے۔ احتجاج یقینا جمہوریت میں بنیادی حق ہے، لیکن احتجاج جو جمہوریت کو مضبوط کرے۔
میں ایک بار پھر عرض کروں جناب عمران خان نے اپنے چار سالوں میں جمہوریت کو کمزور اور نوازشریف کو مضبوط کیا ہے۔ آج نوازشریف جس اعتماد کے ساتھ محلاتی سیاست میں آگے بڑھ رہے ہیں، اس کے مواقع عمران خان نے پیدا کیے۔ عمران خان کے چاہنے والوں اور عمران خان کو تبدیلی کا سمبل سمجھنے والوں کو اس پر غور کرنا چاہیے۔ نوازشریف نے پچھلے چار سالوں میں اقتدار کی سیاست میں اُن کوششوں کو ناکام بنایا جو اُن کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کے لیے کی گئیں اور ان کوششوں کی تاریخ دراصل عمران خان کی جدوجہد ہے۔ عمران خان نے یوں جمہوریت مضبوط نہیں کی، انہوں نے تو غیرشعوری طور پر نوازشریف کو ایک مضبوط لیڈر کے طور پر پنپنے کے مواقع فراہم کردئیے۔ نوازشریف کا دورِحکومت بھی پچھلے تمام سول ادوار کی طرح سول ملٹری تعلقات کی بحث میں آلودہ رہا اور اس تناظر میں انہوں نے اُن اندیشوں، خواہشات اور سازشوں کو ناکام بنایا جو سول ملٹری تعلقات کے گرد گھومتی تھیں۔ نوازشریف اپنے منتخب شدہ اقتدار کے آخری سال میں داخل ہوچکے ہیں اور وہ اب اپنے انداز میں انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ دوسری طرف عمران خان کی جھولی میں ناکام دھرنے اور ناکام مقدمے ہیں۔ اور ہاں اس سارے تصادم میں عوام کہیں نہیں۔ یہ حکمرانی کی لڑائی اور تصادم ہے۔ اس میں کہیں ذکر نہیں کہ کسانوں کو بارہ ایکڑ زمین کا مالک، تعلیم یونیورسٹی تک مفت، مزدور کی بنیادی تنخواہ ایک تولے سونے کے مطابق اور شہریوںکو صحت کی سہولیات کے مفت یا سستے مواقع فراہم کیے جائیں۔ تصادم کا عنوان Governance ہے۔ جی ہاں، حکمرانی نہ کہ عوام۔ اگر عمران خان اس تصادم کا عنوان عوام کو بناتے تو ہم کہتے کہ عمران خان نے جمہور اور جمہوریت کی جنگ لڑی۔ ذرا غور کریں، جرنیل کا ایک بیٹا جو نوازشریف کی پارٹی سے ایک صوبے کا گورنر ہوا تو دوسرا بیٹا، عمران خان کی پارٹی کا کرتا دھرتا۔ کہاں ہیں پاکستان تحریک انصاف کے وہ لوگ جنہوں نے ایک غیرمعروف پارٹی کو ایک معروف پارٹی بنانے میں کئی سال لگا دئیے۔ عمر چیمہ اور میاں ساجد پرویز جیسے لوگ۔ کہیں نہیں۔ پاکستان تحریک انصاف بھی انہی کی پارٹی ہے جو دوسری حکمران طبقات کی سیاسی جماعتوں کے ہمیشہ کرتا دھرتا رہے۔
عمران خان عوام کا مقدمہ لڑنے سے ہچکچاتے ہیں، شعوری طور پر۔ اس لیے کہ اگر عوام کا مقدمہ لڑا تو پھر عوام اور اُن کی قیادت آجائے گی۔ وہ بس اتنی ہی تبدیلی چاہتے ہیں جو انہیں اقتدار کے ایوانوں تک لے جائے اور نوازشریف کی جگہ وہ لے لیں، عوام نہیں۔ یہ باتیں آئیڈیل ازم نہیں، حقیقت پر مبنی ہیں۔ اگر وہ جمہور اور جمہوریت پر مکمل یقین رکھتے تو آج پاکستان کا سیاسی منظرنامہ کچھ اور ہوتا۔ آج پاکستان ایک عوامی تبدیلی کے دہانے پر کھڑا ہوتا۔ انہوں نے عوامی تبدیلی کا سیاسی فلسفہ ہی پیش نہیں کیا۔ شعوری طور پر۔ جی ہاں۔ وہ تو خود ڈرتے ہیں ایسی تبدیلی سے جس میں ایک شخص کے مسیحا بننے کی بجائے کروڑوں لوگ خود اپنے مسیحا بن جائیں۔ وہ درحقیقت اس تبدیلی کے رستے کی رکاوٹ ہیں۔ ذرا تصور کریں اگر وہ آج یا 2018ء میں وزیراعظم بن جائیں تو وہ پاکستان کو کیسے تبدیل کریں گے۔ ممکن ہی نہیں، انہوں نے اپنی سیاسی جماعت کو اس قابل بنایا ہی نہیں جو پاکستان کو تبدیل کردے۔ فروری 1997ء کے انتخابات میں ناکامی کے بعد وہ جب میرے غریب خانے پر تشریف لائے تو میں نے اُن سے عرض کی تھی کہ ممکن ہے ایک وقت آپ اس ملک کے وزیراعظم بن جائیں اور پھر آپ دو، چار یا پانچ سال مدت بھی پوری کرلیں اور اس کے بعد آپ میرے ہاں اس صوفے پر بیٹھے کہہ رہے ہوں گے، ’’گوئندی، میرے ہاتھ اور پائوں، بیوروکریسی اور طاقت ور لوگوں نے باندھ رکھے تھے جو میں کرنا چاہتا تھا، نہیں کرسکا۔‘‘ بس قارئین کے لیے اتنا عرض ہے ۔ عوام تو ہر دس پندرہ سال کے بعد ایک انقلاب کو برپا کرنے کے قریب ہوتے ہیں۔ کوئی سحرانگیز لیڈر آتا ہے، اس تبدیلی یا انقلاب کے جنم سے پہلے ہی اس کا قتل کردیتا ہے۔ عمران خان 2011ء سے آج تک جمہور اور جمہوریت کی جنگ لڑنے سے گریزاں رہے۔ انہوں نے حکمرانی کی جنگ کی قیادت کی ہے۔ اگر وہ جمہور کی جنگ لڑتے تو آج پاکستان انقلاب یا تبدیلی کے دہانے پر کھڑا ہوتا۔