میانوالی میں مُجھے ایک شادی پہ انوائیٹ کیا گیا ۔ تپتی دوپہر اور آگ برساتی گرمی میں وہاں پہنچا ۔ دالان میں مہمان بیٹھے ہوئے تو وہیں میں نے بھی ایک چارپائی سنبھال لی ۔ اے سی تو دور کی بات ، چھت والا پنکھا بھی کچھوے کی سپیڈ سے چل رہا تھا ۔ دیکھا تو میری ساتھ والی ننگی چارپائی پہ ایک بندہ بچوں جیسے اُلٹ پَلٹ ہو کر بے خبر سو رہا ۔ میزبانوں نے بتایا کہ سونے والا صاحب ہمارا کزن اور ایم این اے عمران خان ہے ۔ اِسے یوں سوتے دیکھ کر حیران نا ہوِں ، یہ کوئی بڑی شان وشوکت والا بندہ ہو گا تو باہر ہو گا ، یہاں صرف ہمارا کزن ہی ہے ۔
میں سوچ میں پڑ گیا کہ ایک کھرب پتی کا داماد اور جسے صرف چند سیکنڈ کے اشتہار یا لیکچر کے لئیے اربوں روپے مل سکتے ، جسے قانون کے عین مطابق اپنی بیوی کی کھربوں کی جائیداد مل سکتی تھی ، انگلینڈ کا ٹھنڈا موسم اور قارون جتنی دولت چھوڑ کر پاکستان کیوں آیا اور اب صحرا کی اِس آگ میں کیوں لیٹا ہے ۔ ؟ اِس لاڈلے کو اتنی گرمی میں یہاں نیند کیسے آ گئی ۔ باہر ہی رہتا اور موج مستی کرتا ۔
چند دفعہ مزید بھی خان صاحب کے نزدیک ہونے کا موقعہ ملا ۔ اپنے طور پر اُن کے خیالات اور سوچ کا تجزیہ کیا ۔ یہ بندہ کسی بھی ڈر ، خوف یا لالچ سے بے نیاز بندہ ہے ۔ دولت یا روپے پیسے کی اِس کی نظر میں صرف اتنی سی وقعت ہے کہ جتنی سڑک پہ پڑے پتھروں کی ۔ یہ بندہ جس چیز کو اپنے مشن میں رکاوٹ سمجھے گا تو ہر اُس چیز کو ٹھوکر مار کر رستے سے ہٹا دے گا ۔ اس کا اوڑھنا بچھونا ۔ اِس کے سانس کا اُتار چڑہاؤ ، سب کچھ مُلک اور قوم کے ساتھ ساتھ ہے ۔ یہ جئے گا بھی تو اس پاک سرزمین کی خاطر اور مرے گا بھی تو اِس مُلک کے لئیے ۔ اِس پاک سرزمین کے لئیے یہ بندہ کسی بھی ذاتی نفع نقصان کو خاطر میں لانے والا نہیں ۔
ایسا فقیر منش ، باصلاحیت اور مُحب وطن لیڈر ہمیں دوبارہ شاید نہیں ملے گا ۔ ہماری سوئی ہوئی قومی غیرت بیدار ہو چُکی ، معیشت کا رُخ سیدھا ہو چکا ، اِنکار کرنا ہم نے سیکھ لیا اور انشآ اللّٰہ ۔ تمام تر مشکلات اور سازشوں کے باوجود ، بہت جلد ہم مانگنے والوں کے بجائے دینے والوں میں شامل ہوں گے اور پاکستان دُنیا کے فیصلے کرے گا ۔
بہتر ہے کہ ہم سچ اور جھوٹ کی پہچان کرنا سیکھ جائیں ۔ کتنے دُکھ کی بات ہے کہ علی اعلان ملک کے خلاف بولا جاتا اور ہم سُن کر خاموش رہتے ۔ ثبوت سب کو آنکھوں سامنے نظر آتا لیکن مُجرم سے منوایا نہیں جا سکتا ۔ ملک لوٹنے والے جیل سے نکلتے اور کُچھ نادان دوست اُن پر پھول نچھاور کر رہے ہوتے ۔ شرم آتی جب دیکھتا ہوں کہ ستر ستر سال کے بزرگ تیس ، پینتیس سالہ لوگوں سامنے ہاتھ باندھ کر جی حضوری کر رہے ہوتے ۔
قسمت خُود بَخود نہیں بدلتی ، اپنی ہمت ، طاقت ، بے لوث جذبے اور اَنتھک محنت سے بدلی جاتی ۔ ہم عوام کو اپنے بچوں کی بہتری سامنے رکھ کر اپنا معیار درست کرنا ہو گا ۔ اَچھے بُرے میں تمیز سیکھنا ہو گی ۔ پہلے اِس مُلک کو اور بعد میں اپنا ذاتی نفع نقصان دیکھنا ہو گا ۔
یہ رویہ بالکل غلط ہے کہ ہم خود تو ٹھیک ہونے کو تیار نہیں لیکن دوسروں کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں ۔ ہم میں سے زیادہ لوگوں کو سچ سُننا پسند ہے لیکن خود جھوٹ بولتے ہیں ۔
جو بندہ حق پر ہو اور مُشکلات میں نا ہو تو اِس کا مطلب ہے کہ وہ حق پر نہیں کیونکہ سچ کا راستہ ہمیشہ کانٹوں سے ہو کر گُزرتا ہے ۔
مضمون کیسے لکھا جائے؟
مضمون کیسے لکھا جائے؟ بطور مڈل اسکول، ہائی اسکول یا پھرکالج اسٹوڈنٹ ہر کسی کا واسطہ ایک نہیں بلکہ بیشترمرتبہ...