عمران خان، اس کا منشور، سیاست:
عمران خان نے اپنے لاہورکے جلسے میں اگلے الیکشن کا منشورپیش کردیا۔ مدینے کی ریاست، یورپ کی مثالیں، مطالعہ پاکستان اور نویں دسویں جماعت کی اسلامیات کا متن 'دو نہیں ایک پاکستان' پرانے 'محمدی مساوات' ، 'روٹی کپڑا مکان' کا چربہ۔ اصلاحات کی باتیں ہرپارٹی ہمیشہ کرتی ہے۔ جوچیز سامنے آئی، ہمیں اس پرغورکرنا چاہئے۔ عمران خان کی کل کی تقریر تجسیم ہے، ہماری خاکی اسٹیبلش منٹ کے تصور سیاست کی، ہم نے بھٹوکے دورکی سیاست دیکھی ہوئی ہے۔ اس وقت سب پارٹیاں اپنے منشورمیں خارجہ پالیسی کے متعلق اپنے موقف کوپیش کیا کرتی تھی۔ اس کے بارے ایک لفظ نہیں، ملک کی داخلی سیکورٹی مسائل پرایک لفظ نہیں، مزہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی پرایک لفظ نہیں، پارلیمنٹ کے اختیاراعلی پرایک لفظ نہیں، جس کا ایک شخص بابا رحمہ دن رات ریپ کررہا ہے۔ ہمسایوں کے ساتھ تعلقات پرایک لفظ نہیں۔ یعنی یہ وہ تصور ریاست اورسیاست ہے، جس میں ملک کی اہم داخلی اورخارجہ پالیسیاں فوج کے ہاتھ میں ہونگی۔ پارلیمنٹ یعنی وزیراعظم کو فوج ڈکٹیٹ کرے گی۔ وزیراعظم جنرلوں کا کٹھ پتلی ہوگا۔ وہ صرف" معاشی، سماجی وزیر اصلاحات" ہوگا۔۔ عمران خان جنرلوں کی سوچ کی مجسم تصویرہے۔ عمران خان کا سارا بیانیہ جنرلوں کا بیانیہ ہے۔ ' پاکستان عظیم خواب ہے، پاکستان کا پوٹینشل ایک عظیم ملک بننا ہے، پاکستان خطے کا اہم ملک ہے، پاکستان کے پاس بڑے وسائل ہے، اس کا مستقبل بڑا شاندار ہے،ٹیکسوں سے اتنا پیسا اکٹھا کیا جاسکتا ہے کہ فوج کو بے حساب دیا جاتا رہے، صرف کرپٹ اورنکمے سیاست دان اس کی راہ میں رکاوٹ ہیں، اورتمام مسائل کا سبب ہیں، یہ اگرہٹ جائیں اورآب پارے کی پیکنگ اورتربیت یافتہ سیاست دان اس ملک کوسنبھال لے، تو پاکستان کے سب مسائل حل ہوسکے ہیں۔ انڈیا دشمنی اوراسلام پاکستان کی بنیادی اساس ہیں'۔ عمران خان کی اس تقریرنے واضع کردیا ہے کہ وہ وزیراعظم کے ٹائٹل پر 'وزیر معاشی سماجی اصلاحات' کا کردارادا کرنے کوتیارہے۔ اسکی حثیت شوکت عزیز جیسی ہوگی۔ اصلاحات کے دعوے خیالی اور مبہم ہوتے ہیں۔ چیزیں اتنی سادہ اورآسان نہیں ہوتی، معاشرے، سماجی معاشی حرکیات پچیدہ عمل ہوتا ہے۔ یہ شخص فکری، سماجی،اقتصادی سیاسی شعورسے عاری ہے۔ اس کی سوچ عام گلی محلے کے میٹرک پاس نوجوان کی سطح کی ہے۔ اس نے گلیمرس کی زندگی گزاری ہے۔ یہ عالیشان Elitist پروٹوکول ماحول کا عادی ہے، کرکڑ کا ہیروازم ہے، ایسے لوگوں میں 'نیک کام' کرنے کا دورہ ہوتا ہے۔ وہ شوکت خانم کی صورت ہوگیا۔ اب اسی کی توسیعی شکل کی خواہش رکھتا ہے۔ یہ سمجھتا ہے ، چونکہ وہ چندہ جمع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور لوگ اس پراعتبار کرتے ہیں، لہذا وہ اپنی چندہ جمع کرنے والی صلاحیت سے پورے ملک کے معاشی مسائل کوبھی حل کرلے گا۔ اورپورے ملک کی تصویرشوکت خانم اسپتال کی بن جائے گی۔ جنرلوں کواس طرح کے بونگے، خوابی باتیں کرنے والے چاہئے۔ جو قوم کو بے وقوف بنا سکیں۔ جنرل تو پریکٹیکل ہوتے ہیں۔ ٹھوس سالڈ حلوے پران کا قبضہ ہوگا۔ یہ صرف اتنا ہی ڈیلیور کرسکے گا، جتنا یہ کے پی میں کرچکا ہے۔ اگرکوئی کے پی کونیا کے پی سمجھتا ہے، توپھرنیا پاکستان اگلے 5 سال میں ویسا ہی ہوگا۔ یہ شخص سطحی اورفروعی مسائل کا زکرکرتا ہے۔ یہ پاکستان کے اصل مسائل نہیں ہیں۔ جڑکوٹھیک کئے بغیرپاکستان کی صورت حال نہیں بدل سکتی۔ جڑوں کو ہماری خاکی اسٹیبلش منٹ مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہے۔ جب دفاعی اخراجات کم نہیں کرتے، علاقائی امن و دوستی کا ماحول نہیں بناتے، عوام، پارلمینٹ، منتخب وزیراعظم کو آزادئی عمل نہیں دیتے۔۔ ملائیت کا عفریت کم نہیں کرتے۔ پاکستان کو بحرانی کیفیت سے کوئی نہیں نکال سکتا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“