وفاقی وزیراطلاعات و نشریات جناب فواد چودھری نے اپنے انتخابی حلقے کے ایک قصبے فتح پور میں اپنی جماعت کے کارکنوں کے ایک کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر مسلم لیگ (ق) کے رہنما اور ان کے اتحادی چودھری پرویز الٰہی وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے سامنے آئے تو ہم عثمان بزدار کے ساتھ ہوں گے۔ پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت جس نازک بنیاد پر کھڑی کی گئی ہے، اس حوالے سے جناب فواد چودھری صاحب کا بیان بڑا اہم ہے۔ وفاق میں بھی اُن کی حکومت انتخابی اراکین کی کمزور اکثریت پر کھڑی ہے۔ عمران خان ایک طویل عرصے کے بعد ایسے وزیراعظم ہیں جو سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے ایک خوش نصیب وزیراعظم ہیں۔ 1985ء کے انتخابات کے بعد یہ خوش نصیبی صدر جنرل ضیا کے چنے گئے وزیراعظم محمد خان جونیجو کے حصے میں آئی تھی۔ مگر طاقتور ملٹری ڈکٹیٹر جنرل ضیا کا اپنے ہی چنے گئے یا طے کردہ سول وزیراعظم کے ساتھ تصادم پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک ایسا باب ہے جس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ طاقت کا حتمی توازن کدھر ہے۔ اس کے بعد 1990ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو گرا کر یہ ’’خوش نصیبی‘‘ جناب میاں نوازشریف کو بھی ملی۔ لیکن اس کے بعد انہیں پے در پے جس طرح سیاسی دبائو کا سامنا کرنا پڑا، وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔
وزیراعظم عمران خان، آرمی چیف کے ہمراہ دبئی کے دورے پر سفر کررہے ہیں، یہ ان سول ملٹری تعلقات کی خوش گواری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہی وہ طاقت ہے جو عثمان بزدار سے اوپر تک اپنا آپ دکھا رہی ہے۔ مگر اس ’’خوش نصیبی‘‘ کے باوجود بھی سیاست کے اپنے ہی رنگ ہوتے ہیں۔ انتخابی ڈھانچے پر کھڑی حکومت وقت کے ساتھ ساتھ جن مشکلات کا سامنا کرے گی، اس پر شاید زیادہ لوگ توجہ نہیں دے رہے۔ اس سارے سیاسی کھیل میں سابق صدر آصف علی زرداری لڑائی اور دوستی کا ایک عجیب کھیل کھیلتے رہیں گے۔ اور یہ امکان بھی ہے کہ وہ پاکستان کو تبدیل کرنے والی حکومت کے کسی ’’مشکل وقت‘‘ میں براہِ راست یا غیرمحسوس اتحادی بن سکتے ہیں۔ انہوں نے اپنی ’’ایسی خدمات‘‘ کا اظہار بھی کیا ہے۔ موجودہ حکومت کا سب سے بڑا المیہ جو اس کے سر پر تلوار بن کر لٹکتا رہے گا، وہ اس پارٹی کے دعوے ہیں جو وہ پچھلے دس سالوں سے کررہے تھے۔ قرضے اتار دیں گے، لوٹی ہوئی دولت بیرون ملک سے واپس لائیں گے، کرپشن کو کچل کر رکھ دیں گے، دہشت گردی جادوئی انداز میں ختم کر دیں گے، ایک نیا پاکستان بنا دیں گے۔ عمران خان صاحب نے جو خواب عوام کے دماغوں میں پیدا کیے ہیں، وہی خواب اُن کی حکومت کے لیے مسائل کے انبار کھڑے کردیں گے۔ ایسے لوگوں کی حکومت جو سیاسی جدوجہد کے دوران کایاپلٹ کر ایک شان دار پاکستان کھڑا کرسکتی ہے۔ مگر افسوس اس قیادت میں اُن دعووں کو حقیقت میں بدلنے کی صلاحیت بہت محدود ہے۔ قرضوں کی کشکول توڑنے والی یہ سیاسی قیادت پچھلے تین ماہ سے قرضوں کی کشکول ہی لیے پھر رہی ہے۔ اسی حوالے سے وزیراعظم صاحب نے کہا ہے کہ یوٹرن نہ لینے والا لیڈر نہیں ہوتا۔ اس حوالے سے انہوں نے نپولین اور ہٹلر کی مثالیں دے کر اپنے سیاسی مطالعے میں "Clarity"کا راز بھی خوب کھولا ہے۔
میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وزیراعظم صاحب کو اقتدار کی سیج کا خوب اندازہ ہوگیا ہوگا اور آنے والے وقتوں میں اس کا اندازہ بڑھتا جائے گا۔ اور امکان ہے کہ جس ’’خوش نصیبی‘‘ کا میں نے درج بالا سطور میں ذکر کیا ہے، وہ خوش نصیبی بھی اُن سے چھن جائے۔ یہی انجام ہوتا ہے ہماری تقریباً تمام سیاسی قوتوں کا کہ وہ سیاسی جدوجہد میں دعوے تو بہت کرتے ہیں مگر اُن دعووں کی تکمیل کے لیے عملاً تیاری کرتے ہی نہیں۔ کبھی ہم نے اپنے جیسے ممالک کا وسیع مطالعہ کیا جہاں کچھ سیاسی قیادتوں نے اپنے اپنے ملک کو واقعی بدل دیا۔ بس سرسری سے کالم، آرٹیکل پڑھ لیے یا سفر کرلیا اور دعویٰ کردیا کہ ہم فلاں ملک کی طرح اپنے آپ کو بدل لیں گے۔
وزیراعظم عمران خان نے انتخابات میں کامیابی کے بعد اپنی تقریر میں ریاست مدینہ کو ماڈل کے طو رپر پیش کیا جوکہ بہت اچھی بات ہے۔ لیکن ذرا تضاد دیکھیں ریاست مدینہ کو ماڈل بنا کر دعوے کرنے والی قیادت دنیا کی سب سے بڑی کمیونسٹ پارٹی (چینی کمیونسٹ پارٹی) کے ساتھ تعلقات کے معاہدے کررہی ہے۔ یہ بھی کوئی غلط بات نہیں۔ لیکن میں اپنے سیاسی سفر کے تجربات سے یہ دعویٰ کرنے کی جرأت کرسکتا ہوں کہ اس قیادت کے پاس نہ تو ریاست مدینہ قائم کرنے والوں کا وژن ہے اور نہ ہی چینی کمیونسٹ پارٹی جیسی قیادت کا وژن ہے۔ ہاں، دعوے کرنے میں کیا ہے، کیے جائو، جہاں تک ہوسکے۔ اور ایسی قیادت جو کہے کہ کامیاب لیڈر ہی وہ ہے جو یوٹرن لے۔ کامیاب قیادتیں کبھی یوٹرن نہیں لیتیں۔ وہ آگے ہی آگے بڑھتی ہیں، اپنے وژن، سیاسی فلسفے اور عمل کے کامیاب امتزاج کی بدولت۔ اسی طرح وہ حکومت جو چودھری پرویز الٰہی کو پنجاب میں سپیکر نامزد کرنے پر بڑی نازاں تھی، اب ایک سیاسی تصادم کا شکار نظر آرہی ہے۔ اور تصادم بھی ایک ایسے خاندان کے ساتھ جس کی تاریخ اقتدار کے علاوہ کچھ نہیں۔ پاکستان کی حکمرانی کی سیاست میں جو اکھاڑ پچھاڑہوتی ہے، اس سے آشنا لوگوں کے لیے آصف علی زرداری کا کردار کسی بھی فیصلہ کن وقت میں ’’اپنا مقام‘‘ بنا سکتا ہے۔