یحییٰ برمکی نے اپنے بیٹوں کو نصیحت کی تھی کہ تم افسروں سے کبھی بھی بے نیاز نہیں رہ سکتے اس لئے اس خدمت کےلئے شریفوں کا انتخاب کرو۔ لیکن عمران خان اقتدار میں آنے سے پہلے ہی اس گروہ کے نرغے میں آ رہا ہے جو اُسے شریف افسروں سے مکمل طور پر محروم کر دےگا۔ ایسا نہیں ہے کہ افسر شاہی کے اس بدنام گروہ کا ہر فرد بدنیت ہے۔ ایسا ہوتا تو شورش کاشمیری کے اس شعر پر معاملہ ہی ختم ہو جاتا
میں نہیں کہتا فلاں ابنِ فلاں گستاخ ہے
اس قبیلے کا ہر اک پیر و جواں گستاخ ہے
لیکن یہ لوگ بطور گروہ اس ملک کے مجرموں میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ عمران خان کےساتھ یہ کون لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ کیا پارٹی کے سولہ اندھیرے برسوں میں ساتھ دینے والوں کے ساتھ ان ”تازہ واردان بساطِ ہوائے دل“ کا کوئی نسبت تناسب ہے؟ کوئی موازنہ کیا جا سکتا ہے؟ یا حسرتا! عمران خان جس راستے پر بگٹٹ دوڑے چلا جا رہا ہے، اُس راستے کے اختتام پر اُس کی پارٹی کے وہ جاں نثار نہیں کھڑے ہونگے جنہوں نے ان سارے برسوں میں اُسکے صحرا نوردی کا ساتھ دیا۔ اگر لیل و نہار یہی رہے تو اس راستے کے اختتام پر موقع پرستوں کا ایک طائفہ کھڑا ہو گا جن کے چہروں پر ماسک چڑھے ہونگے۔
بیورو کریسی کے اس خوفناک گروہ کو پروفیسر اشفاق علی خان لگان جمع کرنے والوں کے نام سے پکارتے تھے۔ پروفیسر اشفاق علی خان کوئی معمولی شخص نہیں تھا۔ اشفاق علی خان نے قیام پاکستان سے چھ سال پہلے وہ مشہور کتاب لکھی تھی جس کا نام ”پاکستان : اے نیشن“ تھا۔ یہ انہوں نے ”الحمزہ“ کے قلمی نام سے لکھی تھی۔ تقسیم کے فوراً بعد بھارت میں پروفیسر راما رائو نے جواہر لال نہرو کو سمجھایا کہ لوہے کی صنعت ساری صنعتوں کی ماں ہے، نہرو نے اسکی نصیحت پر عمل کیا اور اُسی وقت لوہے کے کارخانے لگانے شروع کئے۔ یہی بات پروفیسر اشفاق علی خان پاکستان میں کہتے رہے لیکن اُنکی پکار کسی نے نہ سُنی۔ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے کسی خوف کے بغیر برملا کہا کہ حکومت کرنا بیوروکریسی کا کام نہیں ہے۔ انہوں نے ”حکومت اور حکمت“ کا نظریہ پیش کیا۔ اس نظریے کا لبِّ لباب یہ تھا کہ حکومت اُنکے ہاتھ میں ہونی چاہئے جو علم اور حکمت سے مالا مال ہوں۔ افسر شاہی کا آخر علم اور حکمت سے تعلق ہی کیا ہے؟
بیورو کریسی کے ایک مخصوص گروہ کو وہ لگان جمع کرنےوالے کہتے تھے اور دوسرے گروپ کو حساب کتاب کرنےوالے کہتے تھے۔ لگان جمع کرنےوالا گروہ افسر شاہی کا سرخیل ہے۔ آپ اس گروہ کی 63 سالہ ”کارکردگی“ کا اندازہ اس سے لگائیے کہ ”قومی کرپشن سروے“ کی 2011ءکی رپورٹ کےمطابق لگان جمع کرنےوالا محکمہ (لینڈ ریونیو ڈیپارٹمنٹ) ملک کا سب سے زیادہ بدعنوان محکمہ ہے۔ اس کرپشن کی ذمہ داری پٹواری اور تحصیلدار پر ڈالنا اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔
اس گروہ کے ایک ممتاز رکن الطاف گوہر، ایوب خان کے زمانے میں سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ جب ایوبی آمریت کے دس سال مکمل ہوئے تو الطاف گوہر نے ”عشرِہ ترقی“ منانے کا بیڑہ اٹھایا۔ مشرقی پاکستان کے بپھرے ہوئے دریائوں میں ڈولتی ڈگمگاتی کشتیوں پر ”عشرہ ترقی“ کے بینر لگائے گئے لیکن ع
مرے کام کچھ نہ آیا یہ کمالِ بے نوازی!
قدرت اللہ شہاب بھی بیورو کریسی کے اسی گروہ کے سردار تھے۔ اس کالم نگار نے اخبار میں وہ تصویر اپنی آنکھوں سے دیکھی جس میں شہاب صاحب سینے پر ہاتھ باندھے تھے اور تصویر کے نیچے لکھا تھا ”ایوب خان کے سامنے اس طرح کھڑے ہوتے تھے۔ کاش جمیل الدین عالی شہاب صاحب کے بارے میں وہ سب کچھ لکھ دیں جو وہ کبھی کبھی سُناتے ہیں!
یحیٰی خان، پھر ضیاالحق اور پھر مشرف کے تاریک ادوار اسی گروہ کے بل بوتے پر چلتے رہے۔ آخر اس گروہ کے ممتاز رکن غلام اسحاق خان کو ضیاالحق نے کیوں اتنا نوازا تھا؟ اُس نے وزیراعظم بھٹو کے حوالے سے کونسی خدمت ضیا ءالحق کےلئے انجام دی تھی؟ ان آمروں کے زمانے میں پالیسیاں بنانے والے، سیاست دانوں کو بدنام کرنےوالے، داخلہ اور اطلاعات کی وزارتیں چلانے والے افسر شاہی کے اسی گروہ سے تعلق رکھتے تھے، اب یہ حضرات اخبارات میں مضامین کے ذریعے جمہوریت کا درس دیتے ہیں، آج ملک کے سب سے بڑے صوبے میں عملی طور پر جو شخص مالک و مختار ہے وہ اسی گروہ کا سابق رکن ہے اور طاقت کا یہ عالم ہے کہ عباسیوں کے زمانے میں برامکہ کی طاقت بھی ہیچ لگتی ہے۔
اس گروہ کا طریقِ واردات بہت سادہ ہے، ہر حال میں اپنے گروہ کے ارکان کی پشت پناہی اور ہرممکن منصب پر انکی تعیناتی! اس گروہ کے جو رکن یا ارکان عمران خان کی جماعت میں داخل ہو رہے ہیں، اُنکی وفاداریاں سب سے پہلے اپنے گروہ کے ارکان کے ساتھ ہوں گی۔ آپ اس دلچسپ صورتحال کا اندازہ لگائیے کہ تحریک انصاف، مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی، سب ایک دوسرے کی مخالف ہوں لیکن اس گروہ کے سابق ارکان ان جماعتوں کے لیڈروں کو اپنی مٹھی میں کر لیں اور آپس میں شیر و شکر ہوں! سبحان اللہ! سیاسی خاندانوں کو بدنام کیا جاتا ہے کہ ایک بھائی برسر اقتدار جماعت میں ہوتا ہے اور دوسرا حزب اختلاف میں، لیکن لگان جمع کرنےوالے سیاسی خاندانوں کو اپنے سامنے طفلِ مکتب سمجھتے ہیں جس انداز میں یہ حضرات سیاسی پارٹیوں میں نقب لگا رہے ہیں، اُس کا مقابلہ سیاست دان کبھی بھی نہیں کر سکتے!
عمران خان پر جب اعتراض کیا گیا کہ مشرف کی باقیات اُسکی پارٹی میں کیوں جوق در جوق داخل ہو رہی ہیں تو جواب یہ دیا گیا کہ آخر فلاں پارٹی میں بھی تو یہ باقیات گئی ہیں؟ گویا آپ نے فلاں پارٹی کی تقلید کرنی ہے! اب اگر یہ نصیحت کی جائے کہ بیورو کریسی کے طاقتور گروپ کے ارکان کیوں لئے جا رہے ہیں تو تعجب نہیں اگر یہ جواب ملے کہ آخر حریف پارٹی میں بھی تو طاقت کا منبع یہی گروہ ہے! ع
قربان تیرے! پھر ذرا کہہ دے اسی طرح