عمران خان اور فاطمہ جناح: ناکام لیڈرز یا ناکام قوم
۔
مارک ٹوین ایک مشہور مزاح نگار ہے جو ہنسی ہنسی میں زندگی کے تلخ سچ بول جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ لوگوں کو بے وقوف بنانا آسان ہے مگر انکو یہ بتانا بہت مشکل ہے کہ انکو بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔ پوری دنیا میں جہاں جہاں بھی غربت اور پسماندگی نے اپنے جڑیں مضبوط کر رکھی ہیں وہاں کے عوام کے ساتھ یہی معاملہ انکے حکمرانوں کے بھیس میں چھپے ڈاکو کر رہے ہیں۔ وہ انکو بے وقوف بنا رہے ہیں، اور اگر کوئی ان عوام کو یہ بتانے کا مشکل کام اپنے زمہ لے بھی لیتا ہے کہ وہ یعنی عوام بے وقوف بن رہے ہیں، تو یہ ڈاکو نما حکمران ایسے کسی بھی شخص کا مقابلہ اس طریقے سے کرتے ہیں کہ اس کو عوام کی نظر میں ناقابل حکمرانی اور ناقابل اعتبار ثابت کر دیاجائے اور انکا عوام کو بے وقوف بنا کر لوٹنے کا کھیل جاری رہ سکے۔
عمران خان ہماری سیاسی تاریخ میں ایک ایسا شخص ہے جو ہماری عوام کو یہ بتا رہا ہے کہ وہ کس طرح سے ان بددیانت حکمرانوں کے ہاتھوں سے لٹتے آ رہے ہیں، اور آئندہ بھی لٹتے رہیں گے۔ عمران خان کے بیس سال کی سیاسی زندگی میں اس نے جتنے الزامات ان حکمرانوں پر لگائے ہیں، انکا جواب ہمیشہ عمران خان کی زاتی زندگی اور شخصیت پر جوابی الزامات اور کردار کشی کی صورت میں دیا گیا ہے۔ کیونکہ ہمارے ملک کے کرپٹ حکمرانوں کے پاس عمران خان کی سیاسی یا پیشہ ورانہ کیرئیر پر کسی قسم کی بد عنوانی ثابت کرنے کا کوئی موقع موجود نہیں ہے۔
عمران خان کی باتوں کے بے اثر کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ عوام کے جذبات کو مختلف طریقوں سے اس کے خلاف ابھار دیا جائے، اور عمران خان کو ایک زہنی مریض، حکمرانی کا شوق رکھنے والا سیاسی لیڈر، یا کسی اور شخصی کمزوری کا شکار مریض ثابت کر کے اسکی بات کی اہمیت کو ختم کر دیا جائے۔
کوئی بھی غیر جانبدار شخص جو میڈیا، سوشل میڈیا اور صحافتی دنیا کی خبریں رکھتا ہے، آپ کو بتا سکتا ہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے خاص طور پر عمران خان کو صرف ایسے ہی زاویے سے ٹارگٹ کیا جا رہا ہے، اور اس کی ان باتوں، عادات و اطوار، اور زاتی زندگی کے ان پہلوؤں کو سامنے لا لا کر ایک ایسا ماحول بنایا جارہا ہے کہ جس میں ملک لوٹنے والوں کے مظالم پیچھے رہ جائیں اور عمران خان کی زبان کی درستگی اس قوم کا ایجنڈا بن جائے۔
زیادہ لمبی مثالوں اور تفصیل میں نہیں جاتا کہ جاگے ہوؤں کو جگانے کا فائدہ کچھ نہیں، بس ایک مثال دیتا ہوں۔ محترمہ فاطمہ جناح کے الیکشن کی۔ ایوب خان جو کہ ایک ملٹری ڈکٹیٹر تھا، اس کے پاس محترمہ کے صاف شفاف ماضی اور قائد اعظم سے تعلق کے خلاف کوئی ٹھوس پوائینٹ نہیں تھا۔ تو محترمہ جناح کے خلاف ساری کی ساری سیاسی مشینری اس بات کو ثابت کرنے پر لگا دی کہ ایک عورت سربراہ نہیں بن سکتی کسی ملک کی۔ آج ہم آپ مڑ کر اس لمحے کو دیکھیں جو ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ ہے تو ہم سب کے لیے یہ ایک مضحکہ خیز بات ہوگی۔ نصف صدی گذرنے اور ایک عورت کے دو بار ملک کے سربراہ رہنے کے بعد ہمیں وہی بات مضحکہ خیز لگتی ہے جو کبھی اس قوم کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بنا دیا گیا تھا۔ اور اس کا مقصد محض ایک الیکشن تھا، اپنی جیت تھی، مخالف کی ہار تھی۔ آپنے ایجنڈے پر عمل کرنا تھا، مخالف کو کسی بھی قیمت پر چت کرنا تھا۔
آج بھی اگر دیکھیں تو صورتحال کچھ ایسی ہی نظر آئے گی۔ عمران خان کے کتے، گھر، جوتے، جہاز پر سفر، بیوی، طلاق، بچے، زبان، آفشور کمپنیاں، اور حتی کہ اس کے خیراتی کاموں پر ہر طرح کی تنقید کی جائے گی، مگر ایک بات جو نہیں کی جاسکی وہ یہ کہ عمران خان کے لگائے گئے الزامات کا بہتر جواب دیا جائے یا عمران خان پر خود کرپشن کا الزام ثابت کیا جائے۔
میں اپنے پڑھنے والوں کو صرف ایک لٹمس ٹیسٹ کرنے کا مشورہ دیتا ہوں۔ آج سے اس پر عمل شروع کر دیں، کم از کم سیاست میں کسی بھی کنفوژن کا شکار ہونے سے بچ جائیں گے۔ اور وہ ٹیسٹ یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہر سیاسی لیڈر جو اس ملک کو لیڈ کرنا چاہتا ہے اس کے کس عمل کا تعلق ملک کے نقصان سے ہے اور کس کا نہیں۔ جب بھی آپ کسی بھی لیڈر کے بارے میں ایسا کچھ سنیں ، اس کو اس لٹمس ٹیسٹ سے گذاریں، آیا یہ بات ملک کے لیے نقصان دہ ہے، یا اس لیڈر کی زاتی زندگی یا کسی وقتی واقعے سے متعلق ہے؟ بس اسی کے جواب سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ کون سی بات اور کونسا لیڈر ملک کے لیے مفید ہے اور کونسا نقصان دہ۔
مثال لے لیجیے، مسٹر ایکس پر کرپش کے ہزار ارب کے الزامات، اور مسٹر وائی پر تیتر کے شکار کا الزام۔ اب آپ دیکھیے کہ کونسی بات ملک کے لیے نقصان دہ ہے اور کونسی بات قانونی اور اخلاقی لحاظ سے ایک شخصی کمزوری میں آتی ہے، جسکا بحرحال ملکی سلامتی سے کوئی تعلق نہیں۔ اب اگر ایسے میں کوئی شخص، کوئی ادارہ، یا کوئی میڈیا گروپ، صحافی، دانشور، یا کوئی اور میاں بوجھ بجھکڑ، آپ کو یہ بتانے کی کوشش کرے کہ بھائی تیتر کے شکار کرنے والے کے خلاف ملک گیر مہم کا حصہ بن جاؤ، اور کرپش والے ہزار ارب پر بات کرنے کی کیا ضرورت ہے، ایسا تو ملک میں ہوتا ہی رہتا ہے، تو میرا خیال ہے اگر آپ تسمے والا جوتا پہنتے ہیں، اور گانٹھ زرا ٹائیٹ لگاتے ہیں تو آپ کی بردباری کا بھرم رہ جائے گا۔
آخری بات، یہ عمران خان، یا محترمہ فاطمہ جناح ناکام لیڈرز نہیں ہیں، جو وقتاً فوقتاً ہمارے سیاسی منظر نامے پر ابھرتے ہیں اور اپنی سی کوشش کر کے منظر سے ہٹ جاتے ہیں، بلکہ ناکام اصل میں ہم بحیثیت قوم خود ہو جاتے ہیں جب ہم ایسے پروپیگنڈے کا شکار ہو جاتے ہیں، جس کا کسی ملکی سطح کے فائدے نقصان سے تعلق نہیں ہوتا، جو محض ہمارے جذبات کو سامنے رکھ کر ترتیب دیا گیا ہے، اور ہمارے ہی ملکی وسائل اور کرپٹ عناصر کو استعمال کر کے ہم تک پہنچایا جاتا ہے۔
اللہ سے دعا ہے کہ ہم اپنا اچھا برا سوچنے کے لائق بنیں اور غیر ضروری بحثوں میں الجھنے کی بجائے اپنے ملک پاکستان، اپنی آئندہ آنے والی نسلوں اور اس دنیا کی بھلائی کے لیے بہتر لیڈرز چننے کی صلاحیت حاصل کر سکیں۔ آمین۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“