عمران خان اور عظیم پیش گوئیوں کی موت
حضرات، الیکشن سے پہلے کی چند مشہور پیش گوئیاں پیش خدمت ہیں:
1: عمران خان اپنے پانچوں حلقوں سے ہار جائے گا۔ 2: الیکشن میں پی ٹی آئی کا صفایا ہوجائے گا۔ 3: ن لیگ پنجاب سمیت پورے ملک سے کلین سوئپ کرے گی 4: الیکشن وقت پر نہیں ہوں گے۔ 5: عمران خان کے ہاتھ میں وزیراعظم کی لکیر نہیں۔
الیکشن سے لگ بھگ ایک برس قبل راقم الحروف نے ’’وزیر اعظم عمران خان‘‘ کے عنوان سے ایک کالم لکھا، جو ایکسپریس اور ’’ہم سب‘‘ پر شایع ہوا، جو ان پیش گوئیوں سے متصادم تھا۔
الیکشن نزدیک آتے ہی پیش گوئیوں کا سلسلہ زور پکڑنے لگا۔ ان میں ’’جنرلوں کو سڑکوں پر گھسیٹا جائے گا‘‘ نامی پیش گوئی بھی شامل ہوگئی۔ دعووں وعدوں کا زور تھا۔
فقیر نے پھر ایک کالم لکھا، ان افراد سے متعلق، جن پر اسے فخر تھا، جن سے وہ محبت رکھتا تھا۔ عنوان تھا: ’’جمہوریت پسند اور جیت کا واہمہ!‘‘، جو یقینی طور پر ایک بار پھر ان پیش گوئیوں سے متصادم تھا۔
صاحبو، عزیزو، پیش گوئیاں جاری رہیں، یہاں تک کہ فیصلہ کا دن آگیا، 25 جولائی 2018 کا سورج طلوع ہوا۔ اور تب ۔ ۔ ۔ تمام پیش گوئیاں غلط ثابت ہوئیں۔
اس تمہید کا مقصد اپنی ستائش نہیں، گو فقیر خود میں اس کی خواہش پاتا ہے، بلکہ یہ سوال اٹھانا ہے کہ آخر کیا وجہ تھی، ہمارے بزرگ، ہردل عزیز، قارئین کا وسیع حلقہ رکھنے والے قلم کاروں کی پیش گوئیاں اس سیاسی طور نیم پختہ فقیر کے تجزیہ کے سامنے ڈھیر ہوئیں؟
آخر کیوں؟
ایک ممکنہ سبب تو فقیر کی قسمت ہوسکتی ہے، اور دوسرا سبب شاید معروضی حقائق کو نظریات پر ترجیح دینے کی فقیرانہ عادت۔ (جعلی انکساری کے لیے معذرت)
ہمارے نزدیک اس نوع کی پیش گوئیاں داغنے والے یا تو ن لیگ کے کڑک حامی تھے، یا پی ٹی آئی کے شدید مخالف، یا پھر جمہوریت کے کٹر علم بردار!
سب ایک ہی صف میں کھڑے ہوئے، ایک ہوئے۔
وہ جو بھی تھے، بدقسمتی سے جذبات سے مغلوب ہو کر اسی ’’حقیقت‘‘ کو بھول گئے، جس کا وہ سب سے زیادہ شور مچا رہے تھے، یعنی خلائی مخلوق ۔ ۔ ۔ یعنی انجینئرنگ ۔ ۔ ۔ یعنی دھاندلی۔
اس بار ان کا شور ان کی پیش گوئیوں سے متصادم تھا۔
اگر خلائی مخلوق تھی، تو ن لیگ کی اڑان طشتریاں کیسے آسمان کو ڈھانپ سکتی تھیں؟ اگر انجینئرنگ تھی، تو پی ٹی آئی کا صفایا کیسے ممکن تھا؟
یہ کیسا طلسم تھا کہ ایک سمت دھاندلی کا دعوی، دوسرے سمت جیت کا اعلان۔
ن لیگ حامیوں اور پی ٹی آئی مخالفین سے کوئی شکوہ نہیں، ان کے رویے میں تبدیلی کی خواہش بھی نہیں۔
ہاں جمہوریت پسندوں کی پروا، ان کے خلوص اور جذبے کا نہ صرف احترام، بلکہ فیقر اسے قابل قدر، قابل فخر اور اچھے مستقبل کے لیے لازمی گردانتا ہے۔
یہ غلط ہوسکتے ہیں، شدید ہوسکتے ہیں، مگر ان کی کمٹ منٹ پر شک نہیں۔ یہ نوازشریف کا حامی نہیں تھے، مگر جب قائل ہوگئے کہ نوازشریف کو گرایا جارہا ہے، تو اس کا سہارا بنے۔
آج یہ عمران کے حامی نہیں، مگر کل جب انھیں لگے گا کہ عمران کو کمزور کیا جارہا ہے، تو یہ اس کی طاقت بنیں گے۔
البتہ سیاسی تجزیہ میں جذباتیت اور خواہشات بہ ہرحال ایسی ہی پیش گوئیوں کا نتیجہ بنتی ہے، سو ان سے اجتناب بہتر۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“