وزیراعظم عمران خان جس جوش سے اپوزیشن رہبر کے طور پر متحرک تھے، کاش اُسی جذبے، حکمت، دانش، فیصلہ سازی اور وژنری انداز میں حکمرانی میں بھی کامیاب ہوں۔ یہ کہنا کہ پچھلی حکومتیں ورثے میں بہت مسائل دے گئی ہیں، حالات کو ٹھیک ہونے میں بہت وقت لگے گا، کامیاب رہبر کبھی ایسے بیانات نہیں دیتے۔ کامیاب اپوزیشن لیڈر وہ ہوتا ہے جس کو یہ یقین ہو اور اس کے لیے وہ تیار ہو کہ حکومت واقتدار میں آنے کے بعد وہ کس طرح اور اپنی حاصل شدہ مدت میں اپنے اعلان کیے گئے بیانات اور دعووں کو عملی طور پر کامیاب کرپائے گا۔ عمران خان تو پچھلے انتخابات کے تقریباً ایک سال بعد نوازحکومت گرا کر نئی حکومت بنانے کے خواہاں تھے۔ یقینا اُن کے پاس تو چار سال قبل ہی معاشی، اقتصادی اور لاتعداد سیاسی مسائل کے حل موجود ہوں گے۔ اسی لیے وہ اپنے ہر خطاب میں پُرامید ہی نہیں بلکہ پُرجوش تھے۔ یقینا سو دن میں کبھی حکومتیں کامیابی تو حاصل نہیں کرتیں مگر کامیاب ہونے والی حکومتیں اپنے سو دن ہوں یا دو سو دن ، کسی طے شدہ مدت میں کامیابی کے امکانات پیدا کرلیتی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو دسمبر 1971ء کو اقتدار میں آئے۔ بے آئین مملکت، جہاں یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ کس آئینی حیثیت کے مالک ہیں۔ اسی لیے اُن کو سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ لینا پڑااور پھر عبوری آئین بنایا اور نافذ کیا ۔ سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر کی حیثیت سے انہوں نے ایک شکست خوردہ مملکت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لی۔ اسی دوران انہوں نے نہ صرف سیاسی بلکہ اپنے معاشی، اقتصادی، علاقائی اور خارجی مسائل کے حل کے لیے بنیادیں استوار کرلیں۔ بشمول اپنے کیے گئے وعدوں کے مطابق ریڈیکل عوامی اصلاحات کا تعین بھی کرلیا اور عمل کا آغاز بھی کردیا۔ ان مشکلات، مسائل اور ان کے حل کے لیے ایک دستاویزی ثبوت اس وقت کے وزیرخزانہ ڈاکٹر مبشر حسن کی کتاب The Mirage of Power سے استفادہ کیا جاسکتا ہے کہ اُن دنوں مملکت پاکستان کن مسائل سے دوچار تھی اور اُن سے کس طرح نمٹا گیا۔ اگر عمران خان مناسب سمجھیں تو یہ کتاب میں اُن کی رہنمائی کے لیے تحفتاً انہیں پیش کرسکتا ہوں۔
خوش قسمت عمران خان کو جہاں لوگوں کے ووٹوں کی حمایت حاصل ہے، وہیں طاقت کے تمام اندرونی مراکزاُن کی پشت پر کھڑے نظر آرہے ہیں۔ اس لحاظ سے وہ سویلین لیڈر کے طور پر اقتدار حاصل کرنے والے حکمران، صدر ذوالفقار علی بھٹو کے مقابلے میں خوش نصیب ہیں جن کے پاس حقیقت میں صرف سول طاقت تھی۔ ملٹری بیوروکریسی اُن کے ساتھ کس قدر کھڑی تھی، اس کے ثبوت میں جنرل گُل حسن کے ساتھ اُن کے اختلافات کی کہانی کافی ہے۔ اور فوجی حکمران کے طور پر جنرل پرویز مشرف کو صرف فوجی طاقت حاصل تھی، تقریباً تمام اہم سول قوتیں چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف کی روزِاوّل سے مخالف تھیں۔ جبکہ خوش نصیب وزیراعظم عمران خان اپنی جماعت کے پلیٹ فارم سے پھوٹنے والی طاقت کے سرچشمے سے بھی فیض یاب ہوئے ہیں اور فوجی قیادت اُن کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ اب یہ دانش، قابلیت، ھکمت عملی اور اقدامات اس سول حکومت نے کرنے ہیں جس کے سربراہ عمران خان ہیں، اُن کے پاس ناکامی کے اب کوئی جواز نہیںہونے چاہئیں۔ اگر وہ ناکام ہوئے تو اس کی ذمہ داری اپوزیشن پر قطعاً نہیں ڈالی جاسکتی۔ یہ ناکامی سراسر اُنہی کے سر سجے گی اور اگر اسی طرح وہ کامیاب (اللہ کرے) ہوتے ہیںتو اس کا سہرا بھی انہی کے سر سجے گا۔ اپنے خوابوں کی مہاتیر محمد کی قیادت میں تعبیر ڈھونڈنے سے شاید وہ ان کی لیڈرشپ کا بغور مطالعہ کرتے۔ راقم نے 1998ء میں جب مہاتیر محمد ابھی پاکستان میں ایک مقبول لیڈر کے طور پر متعارف نہیں ہوئے تھے، یا یوں کہیے کہ ابھی اُن کی کامیابی کی خبر ہمارے سیاسی اور صحافتی حلقوں میں نہیں پہنچی تھی، اس وقت اُن سے رابطہ کرکے اُن کی ایک کتاب A New Deal For Asia کے اردو ترجمہ کے حقوق حاصل کیے تاکہ ایک کامیاب لیڈر کے اقدامات کو پاکستان کے سیاسی وصحافتی حلقوں میں متعارف کروایا جاسکے۔ مہاتیر محمد نے اپنے قیمتی وقت میں میرے رابطوں کا جواب دے کر اس شان دار کتاب کے اردو ترجمے کے حقوق مجھے تفویض کیے جسے ہم نے ’’ایشیا کا مقدمہ‘‘ کے عنوان سے شائع کیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے تب عمران خان نے ابھی مہاتیر محمد بحیثیت ایک کامیاب لیڈر کا خواب نہیں دیکھا تھا۔ وہ چاہیں تو راقم یہ کتاب بھی انہیں تحفے میں پیش کردے تاکہ انہیں ایک کامیاب لیڈر کے طرزِعمل سے آگاہی ہوسکے۔
پاکستان جن معاشی، اقتصادی اور سیاسی بحرانوں کا مقابلہ کررہا ہے، اس مقابلہ کسی روحانی علاج سے ممکن نہیں۔ اور نہ ہی کسی پیرخانے کے تعویذ گنڈوں سے اور نہ ہی کسی پیر صاحب کی دعائوں سے پاکستان کے حالات بدل سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی اُنہی دعائوں کی قبولیت ہوتی ہے، جن کے پیچھے عمل ہو۔ یعنی عمل کے بعد دعا۔ عمران خان کو پہلے تو اپنے آپ کو تین لیڈروں کے مقابلے میں کامیاب ثابت کرنا ہوگا، محترمہ بے نظیر بھٹو، میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری۔ اس کے بعد کوئی داخلی یا عالمی لیڈر ہے جس کے ساتھ وہ اپنے آپ کو مقابلے کے لیے پیش کرسکتے ہیں۔ اس سے پہلے صرف دعوے ہیں اور کچھ نہیں۔ اور وزیراعظم کے پاس، جیساکہ میں نے عرض کیا کہ سول طاقت کے ساتھ ساتھ فوجی قیادت کی بھی طاقت اُن کی پشت پر ہے، تو ایسے میں اگر وہ ان تینوں لیڈروں کی حکمرانی کو ایک کامیاب حکمران کے طو رپر مات دے جاتے ہیں تو پھر ہم کہیں گے کہ عمران خان صاحب آپ نے کمال کردیا۔ آپ کی کامیابی، پاکستان کی کامیاب معیشت، خوش حال قوم، آزاد خارجہ پالیسی اور پُرامن پاکستان سمیت دیگر سیاسی وقومی معاملات میں پنہاں ہے۔ اب تو لگ رہا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے بھی ’’ہتھ ہولا‘‘ رکھنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ پھر تو آپ کے اپنی لیڈر شپ کے جوہر دکھانے کے لیے حالات بڑے سازگار ہیں۔
رہبر ہوتا ہی وہی ہے جو طوفانوں کا مقابلہ کرکے قوم کی نائو پار لگادے۔ اچھے حالات میں منتخب ہونے والے لیڈر تو ایک روٹین کا عمل ہے۔ ہمارے ہاں الیکٹرانک میڈیا کو حکومتوں کا بڑا نقاد ہی نہیں بلکہ Trouble Creator جانا گیا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا لاتعداد وجوہات سے جس طرح سکڑنے جارہا ہے، اب تو وزیراعظم عمران خان اس ’’دن رات کے عذاب‘‘ سے بھی کافی محفوظ ہوتے جا رہے ہیں، یعنی آپ ہر لحاظ سے خوش قسمت حکمران ہیں۔ اسے کرکٹ کا کھیل نہ سمجھئے گا۔ کھیل کوئی بھی ہو، وہ صرف کھیل ہے۔ ریاستوں کے کھیل کی Dynamics سوفیصد مختلف ہیں۔ کرکٹ میں زیادہ سکور کرنے والی ٹیم کامیاب ہوتی ہے، ہاکی میں زیادہ گول کرنے والی۔ سیاست میں تو کہا جاتا ہے کہ یہ ریاضی نہیں جس میں 2+2=4ہوتا ہے۔ سیاست میں 2+2=3بھی ہوسکتا ہے اور 5بھی۔ یہ ایک گنجلک کھیل ہے، قوموں کے مقدر کا کھیل۔ اسی لیے تو دنیا کے کامیاب رہبر مائوزے تنگ نے کہا تھا کہ سیاسی جدوجہد میں کبھی یہ بھی کامیابی ہوتی ہے Two steps forward