"عمران خان اگر ہارے تو کیوں ہاریں گے"
پختونخوا میں انتخابی معرکہ سر کرنے کے بعد کپتان کو ایک موقع ملا۔ اپنے عزم کو ثابت کرنے کا۔ اپنے تجربے کی آرائش کرنے کا۔ کپتان نے مگر گھاٹے کا سودا کیا۔ انہوں نے طے کیا کہ اگلے انتخابات میں بھی اپنی خوبیوں کے ساتھ نہیں جانا۔ دوسروں کی خامیاں مجھے کافی رہیں گی۔ سارے ہنر پنجاب پر آزما دیے اور پختونخوا کو جتنا ممکن ہوسکا نظر انداز کردیا۔ سیاسیات کا کوئی طالب علم خان صاحب کی پانچ برسوں کی گفتگو پرایک نظر ڈال لے۔ اول دیکھے کہ لفظ پختونخوا کتنی بار دہرا یا گیا ہے، پھر دیکھے کہ پختونخوا میں جاری منصوبوں سے خود خان صاحب کتنے باخبرہیں۔ اس زاویے کے ساتھ کپتان کے تمام اظہاریے خطابیے اور بیانیے سن لیں تو نتیجہ یہی نکل پائے گا کہ پختونخوا کپتان کی طبعیت ِ صد انتشار پر ایک بوجھ کے سوا کچھ نہیں ہے۔
کپتان بھی اب بات نہیں کرتے اور ووٹر بھی بھول گئے۔ مگر مجھ جیسے لوگ جنہوں نے پتھروں کو کبھی خدا رکھا ہو، کچھ نہیں بھولتے۔ احتساب کمیشن! یاد پڑتا ہے اس طرح کا کوئی بلند آہنگ دعوی؟ 2013 کے انتخابات سے قبل کے کپتان کو بہت دھیان سے کبھی سنیے۔ جو چیز تکرار اور اصرارکے ساتھ ملے گی وہ احتساب کمیشن ہے۔ ہم احتساب کا ایک ادارہ قائم کریں گے، جو ہمارے اپنے وزرا تک کا بھی احتساب کرے گا۔ پختونخوا میں یہ ادارہ اس دعوے کے ساتھ قائم ہوا کہ سیاسی مداخلت سے یہ پاک ہوگا، نیز یہ ہمارے وزیراعلی کا احتساب بھی کرے گا۔ یہ ادارہ وزیراعلی کا احتساب تو کیا کرتا الٹا وزیراعلی نے کمیشن کا حساب کتاب کرکے دھوپ میں رکھ دیا۔
نوبت بایں جارسید کہ احتساب کمیشن کے ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل (ر)محمد حامد خان نے قلم توڑا اور گھر کی راہ لے لی۔ ڈی جی صاحب نے استعفے میں جو وجوہات درج کیں وہ بنیادی طور پر انہی دو دعووں کا ماتم ہے جو کپتان نے کمیشن کی بنیاد رکھتے ہوئے کیے تھے۔ کپتان نے کمیشن جیسے بڑے خواب کو تعبیر سمیت کچھ اس طرح دفن کردیا کہ فسانے میں جیسے کبھی اس کا ذکر ہی نہ گزرا ہو۔
کپتان کا دعوی تھا کہ ہم کیوں چلیں اس راہ پر، جس راہ پر سب ہی چلے۔ کیوں نہ چنیں وہ راستہ، جس پر نہیں کوئی گیا۔ کپتان اس کا نقشہ کچھ یوں کھینچتے رہے
ہم بدعنوان سیاست دانوں کو ساتھ ملاکر یہ انقلابی جنگ نہیں لڑیں گے
ہم سب سے پہلے تعلیم اور صحت کے شعبے میں انقلاب لے کر آئیں گے
ہم مغربی طرز کا ایک بلدیاتی نظام متعارف کروائیں گے
ہم میٹرو جیسے منصوبوں پر پیسہ لگانے کی بجائے براہ راست انسانوں پر پیسہ خرچ کریں گے
تازہ صورت حال یہ ہے کہ پاکستان میں بدعنوانی کے جتنے نشان ہوسکتے تھے وہ کپتان کی جناب میں پہنچ کر خوش عنوانی کی سند پاچکے ہیں۔ حالات یہ ہوجائیں تو پھر بہتر یہی ہے کہ احتساب کمیشن کو تذکرے سمیت دفن کردیا جائے۔ کپتان کے پاس اور کام کم ہوں گے جو اقتدار میں آنے کے بعدوہ اپنے ہی وزرا کا احتساب کریں؟ ایسا بھی نہیں ہے کہ انصاف واحتساب کی حقیقت سےکپتان کا ایمان ہی اٹھ چکا ہو۔ عدالت سے سزا یافتہ کو وہ اب بھی چور ہی سمجھتے ہیں۔ بشرطیکہ اس کا تعلق تحریک انصاف سے نہ ہو۔ المیہ یہ نہیں ہے کہ عدالت سے سزا یافتہ میاں محمد نواز شریف کے استقبال کے لیے جانے والے سیاسی کارکنوں کو وہ گدھا کہتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ یہ بات وہ عدالت ہی سے سزا یافتہ جہانگیرترین کو پہلو میں بٹھا کر کرتے ہیں۔
کپتان نے نوے دن میں بلدیاتی نظام متعارف کروانے کا دعوی کیا تھا۔ یہ وعدہ جب وفا ہونے پہ آیا تو حکومت دو برس کا عرصہ گزار چکی تھی۔ نوے دن اگر دو برس کو محیط ہوجائیں تو یہ کارِ جہاں بانی میں کوئی اتنا عرصہ نہیں ہے، مگراس بات کے ثبوت کے لیے یہ کافی ہے کہ کپتان سیاست اور کرکٹ میں انیس بیس کا فرق رکھنے کے بھی روادار نہیں ہیں۔ کپتان بلدیاتی نظام کے خدوخال پیش کرنے لگے تو جماعت اسلامی نے باربار یاد دلایا کہ یہ نظام ہمارے وزیر عنایت اللہ خان کے شب و روز کا نچوڑ ہے۔ یہ نام وہ خان صاحب کے کنج لب سے ادا کرواکے ہی دم لیے۔ بدمزگی اور بدانتظامی کی مثالیں چھوڑتے ہوئے یہ انتخابات گزرتو گئے، مگر انقلاب کی وہ رمق نہیں چھوڑ پائے جو رمق کپتان کے بلند آہنگ میں ملتی تھی۔ کپتان نے کہا تھا، اس بلدیاتی نظام کے تحت ہم ترقیاتی فنڈ گاؤں دیہاتوں تک پہنچائیں گے۔ آج گزشتہ حکومت اپنا نامہ اعمال لیے عوام کی عدالت میں ہے۔ پیچھے مڑکر دیکھیے تو گاؤں چھوڑ، شہروں میں بھی بلدیاتی نمائندے چبوترے پر بیٹھے کنپٹی کھجارہے ہیں۔
کپتان نے میٹرو جیسے منصوبوں پرچار حرف اور پانچ انگلیاں بھیجی تھیں۔ فرمایا کہ میں اقتدار میں آیا تو ایسے سارے منصوبوں کو ٹھنڈا کردوں گا۔ مزید فرمایا کہ ہم پہلے تعلیم اور صحت کے شعبے میں انقلاب لائیں گے، پھر ایسے منصوبوں کی طرف جائیں گے جن کا دنیا وآخرت میں کوئی خاص فائدہ نہیں ہے۔ پختونخوا میں تعلیم اور صحت کے پردوں سے انقلاب ابھی ظہور پذیر ہوا نہیں تھا کہ کپتان نے پشاور کی مرکزی شاہراہ کی انتڑیاں نکال کے باہر رکھ دیں۔ کپتان لاہور میٹرکے ذکر پر بدمزہ ہوکر کہتے تھے کہ دنیا میں کہیں بھی میٹرو اوپر سے نہیں گزرتی، اوپر سے تو ٹرین گزرتی ہے۔ پشاور میں منصوبہ شروع ہوا تو اول مغرب کی تقلید میں اسے نیچے سے گزارنے کی اپنی سی کوششیں ہوئیں۔ ہزار جتن کرکے بھی راہ نہ ملی تومشرق و مغرب کا فرق سمجھ آگیا۔ چار و ناچار اس آہنی گھوڑے کو مشرقی تہذیب کے مطابق اوپر سے گزارتے ہی بنی۔
اسد عمر ایسے ماہرمعاشیات، جو اپنے دور ِ اقتدار میں ایک کروڑ نوکریاں بانٹنے اور پچاس لاکھ گھر بنوانے لیے پرعزم ہیں، نے فرمایا تھا کہ مجھے چار ارب دے د و میں میٹرو بنوادیتا ہوں۔ آج پشاور میں جاری منصوبے کے کلے میں ستر ارب ٹھونس دیے گئے ہیں مگر داڑھ گیلی نہیں ہورہی۔ جنہوں نے عدالتوں سے التوا لے کر اسلام آباد اور لاہور کے منصوبوں کو ڈیڑھ اور دو برس کی تاخیر کا شکار کیا، انہیں اب پشاور کی اجڑی ہوئی مانگ سمجھائی نہیں دے رہی کہ یہ شروع کہاں سے ہوئی تھی اور ختم کہاں ہوگی۔
مجھے اعتراف کرلینے دیں کہ تعلیم اور صحت کے شعبے میں پہلے سال اصلاحاتی سرگرمیاں شروع ہوئیں، مگر یہ وہیں تک تھیں اور وہیں رہ گئیں۔ وجہ اس کی یہ رہی کہ خان صاحب لاہور کے سومنات پر پندرہ حملے کرچکے تھے اورسولہواں کرنے جارہے تھے۔ پختونخوا کے وزرا کو یہ نوید سنا دی گئی تھی کہ کل صبح جب تم اٹھو گے تو تاج وتخت تمہیں ڈی چوک پر ریزہ ریزہ ملیں گے۔ ان ریزوں کو سمیٹ کر نئے پاکستان کے دروازے پرہم مل کے دستک دیں گے۔ وزرا نے سوچا کہ اگر یہی ہونا ہے تو پھر کارِ مسیحا کیوں کریں ہم۔ پرویز خٹک صاحب سگرٹ سلگا کر ٹرک میں بیٹھ گئے اورعوام کے واسطے پیچھے کی بتیاں جلادیں۔
سوائے اسد قیصر کے تمام وزرا اسلام آباد کی کوہسار مارکیٹ میں چلہ کش ہوگئے۔ پختونخوا کے ویران قلمدان انہیں بلاتے رہے کہ اے خانہ براندازِ چمن کچھ تو ادھر بھی۔ مگر وزرا پلٹ کے ایک ہی جواب دیتے، چند روز اور مری جان فقط چند ہی روز۔ جب سترہواں حملہ بھی ناکام رہا تو بزرجمہروں نے سگرٹ بجھائی، چادر جھاڑی اور واپسی کی راہ لی۔ مگر مسند پر بیٹھ کر کلینڈر دیکھا تو تاریخ کے پنے پر پی ٹی آئی کے رہنما شبلی فراز کے والد احمد فراز کا شعردرج تھا
اب تم آئے ہو مری جان تماشا کرنے؟
اب تو دریا میں تلاطم نہ سکوں ہے، یوں ہے
عوام نے کپتان کا جو وقت اباسین کے کنارے طے کیا تھا، وہ جہلم کے کنارے خرچ ہوگیا۔ جو وقت بچا اس میں صرف یونیورسٹی روڈ کا سینہ ہی چاک کیا جاسکتا تھا۔ گزرا ہوا وقت لوٹ سکتا تو یہ پشاورکے ادھڑے ہوئے چاک سی لیتے۔ اب جو وقت بچا تھا اس میں پہلے برس کی سرگرمیوں کو بمشکل تمام سنبھالا دیا جاسکتا تھا۔ تعلیم اور صحت کے شعبے میں جو اصلاحات ہوئیں ان اس کا اعتراف نہ کرنا کم ظرفی ہوگی، مگر اس کا تقابل پنجاب سے نہ کرنا بدفہمی ہوگی۔ کپتان مسلم لیگ کو چاروں خانے چت کرکے پنجاب کو فتح کرنا چاہتے تھے، اس لیے بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ خان صاحب کو تعلیم اور صحت کے شعبے میں پنجاب سے دو پاوں آگے نکلنا تھا۔ کے پی حکومت آگے تو کیا نکلتی، پیچھے بھی ڈھنگ سے نہ رہ سکی۔
پانچ برس میں آپ نے کتنے کالجوں کی بنیاد رکھی اور کتنی جامعات تعمیر کیں؟ پہلے سے موجود کتنی جامعات کے گیسو سنوارے؟ پانچ برس میں آپ نے کتنے ہسپتال تعمیر کیے؟ پہلے سے موجود کتنے ہسپتالوں کی آنکھ میں سرمہ بھرا؟ کتنا رقبہ بجلی کے چراغوں سے روشن ہوا اورسڑکوں کے طول وعرض میں کتنا اضافہ ہوا؟ جواب میں پی ٹی آئی کے پاس سوائے خاموشی کے کچھ نہیں۔ مسلم لیگ کے پاس اس سوال کے جواب میں ایک فہرست ہے، جو پی ٹی آئی کو اس وقت کا ماتم کرنے پر مجبور کررہی ہے جو پنجاب کی فضاوں میں کہیں تحلیل ہوگیا۔
ایسا نہیں کہ پی ٹی آئی کے نامے میں ووٹروں کو دکھانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ کہنے اور بتانے کو بہت کچھ ہے، مگر خان صاحب نے ایک جنبشِ انگشت پرپنجاب میں اتنی گرد اڑادی کہ پختونخوا اس میں کہیں دھندلا گیا ہے۔ کیسی بدنصیبی ہے کہ آپ میٹرو جیسا منصوبہ دکھانا تو چاہتے ہیں مگر دکھا نہیں سکتے۔ دکھانا اس لیے چاہتے ہیں کہ یہ واقعی ایک بڑا منصوبہ ہے کہ آخر کو فائدہ عوام نے ہی اٹھانا ہے۔ دکھا اس لیے نہیں سکتے کہ اس منصوبے پر اترانا دراصل اس بات کا اعتراف ہے کہ وہ راہ ایک منطقی راہ تھی جس پر پنجاب حکومت چلی تھی۔
کعبہ وکلیسا کے بیچ اپنی روح کویوں بھٹکانے کے ذمہ دار خود کپتان ہیں۔ اگر وہ ہارے تو اس کی وجہ ہرگز یہ نہ ہوگی کہ عوام گدھے ہیں۔ وجہ یہ ہوگی کہ دستِ غیبی نے انہیں چین سے جینے نہ دیا۔ غیبی طاقتوں پر بھروسہ کرکے پہلوں نے کیا اگا لیا تھا جو کپتان اگانے چلے تھے۔
تخت ِ لاہور کی بنیادوں میں کوئی چیز پانی چھوڑسکتی تھی تو وہ کپتان کی ذاتی خوبیاں ہوسکتی تھیں۔ مگر وہ پھر سے سہارا لے رہے ہیں ان خامیوں کا جو اب کچھ ایسی خامیاں بھی نہیں رہیں۔ اس ہنگامہ دہر میں کپتان نظام تو درہم برہم کر پائے، قیامت ہوگی اگر اقتدار کی پالکی اپنے نام نہیں کرپائے۔ کپتان نے محتسب کے قلم پر آسرا کیا اور کوتوال کی چھڑی پر سہارا کیا۔ خاکم بدہن! تمام تر ریاستی بندوبست کے بعد بھی ڈھاک کے وہی تین پات اگر ہاتھ میں ہوئے توخلق خدا کی یہ آواز وقت کا سینہ چیر کر نہان خانہ ِ دل پر گرے گی کہ کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا۔ خاموشی چلا اٹھے گی کہ روئیے زار زار کیا، کیجیے ہائے ہائے کیوں!
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“