عمران خان اب دھرنے نہیں حکومت کریں گے
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین جناب عمران خان کو قومی اسمبلی میں اتحادیوں کی حمایت سے وزیراعظم چُن لیا گیا ہے۔ انتخابات کے بعد اپوزیشن جماعتوں کا فوری ردِعمل جس شدت کے ساتھ سامنے آیا، اسمبلی کے اراکین کے حلف اٹھانے تک، اس اتحاد نے نئی شکل اختیار کرنا شروع کردی ہے۔ انتخابات کے بعد دھاندلی کے الزام کے ساتھ ہی اپوزیشن جماعتوں نے مسلم لیگ (ن) کے رہبر میاں شہباز شریف کو وزارتِ عظمیٰ کا متفقہ امیدوار طے کیا۔ لیکن سپیکر قومی اسمبلی اور اراکین اسمبلی کے حلف اٹھانے تک پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنا فیصلہ بدل لیا۔ اس قومی اسمبلی میں پی پی پی کے رہبر اور سابق صدر آصف زرداری بحیثیت رکن قومی اسمبلی منتخب ہوکر آئے ہیں۔ حکمرانی کی سیاست کی جوڑتوڑ میں اب وہ چوہدری شجاعت حسین اور مولانا فضل الرحمن سے کہیں زیادہ چالیں جاننے کا ماہر ہونا ثابت کرچکے ہیں۔ اس لیے بھی کہ وہ ایک صوبے کی حکومت کے مائی باپ، قومی اسمبلی اور سینٹ میں ایک خاص طاقت رکھتے ہیں۔ ایسے میں اُن کی سیاسی چالیں اُن کے سیاسی خوابوں کو قریب تر کردیتی ہیں۔ انہوں نے یقینا یہ فیصلہ کہ شہباز شریف کی حمایت نہ کی جائے، اس لیے کیا کہ وہ اپنا وزن ڈوبتی کشتی میں کیوں ڈالیں۔ شہباز شریف ایک تو اُن کے ووٹ سے وزارتِ عظمیٰ حاصل نہ کر پائیں گے لیکن ایسے میں اُن لوگوں کو پیغام کیوں دیا جائے جو اُن کو جلد ہی نیب کے حوالے کرنے کے درپے ہیں اور ساتھ ہی عمران خان کو اپنے اس عمل سے انہوں نے غیرمحسوس اتحادی ہونے کا پیغام دے دیا ہے کہ جناب جب ضرورت پڑے، بھٹو کی یہ پارٹی اُن کے ساتھ حکومتی اتحاد میں ہاتھ ملانے سامنے آسکتی ہے۔
عمران خان ایک ایسی حکومت کے سربراہ ہیں، جس کے اتحادی ہمیشہ اقتدار میں اپنے تھوڑے حجم سے زیادہ حصہ دار بننے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اقتدار کی سیاست کی یہی روایات ہیں۔ مسلم لیگ (ق) کے حوالے سے آج سے دو سال قبل میں انہی صفحات پر لکھ چکا ہوں کہ 2018ء میں عمران خان وزارتِ عظمیٰ سنبھالیں گے اور حکمرانی کے کیک کا بڑا حصہ ظہور الٰہی روڈ پر پہنچ جائے گا۔ پرویز الٰہی صوبہ پنجاب کی اسمبلی میں سپیکر منتخب ہوئے ہیں اور اس انتخاب کے وقت اُن کو ان کے طے شدہ ووٹوں سے زیادہ ووٹ ملے ہیں۔ بحیثیت سپیکر وہ پنجاب کے عملی حکمران ہوں گے۔ ایک ایسا ریاستی ڈھانچا جو پولیس اور سول افسر شاہی پر کھڑا ہو، اس میں پرویز الٰہی جیسا گھاگ سپیکر، پنجاب کے وزیراعلیٰ سے کہیں زیادہ طاقتور مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوگا۔ اپنے اہل خانہ کے دیگر افراد کے قومی اور صوبائی حکومت میں حصے داری کے ساتھ آصف علی زرداری نئے انتخابات کے بعد ابھرنے والے سیاسی منظرنامے میں سب سے خوش نصیب سیاست دان ثابت ہوں گے۔ جی ہاں وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ساتھ، جن کے بارے میں یہ کہ انہوں نے بائیس سالہ سیاسی جدوجہد کی ہے۔ میرے نزدیک عمران خان کی بائیس سالہ جدوجہد کے مقابلے میں پچھلے اکہتر سالوں میں ایسے ایسے دبنگ، قابل اور جرأت مند سیاسی لیڈر ہوئے ہیں جنہوں نے بائیس سال تو کیا، ساری زندگی تلخ اور کٹھن سیاسی جدوجہد میں گزار دی، لیکن اقتدار تو کیا، شہرت بھی اُن کے حصے میں نہ آئی۔ کئی لیڈروں نے تو بائیس بائیس سال جیلوں میں گزار دئیے۔ لہٰذا عمران خان کے بائیس سال اُن لیڈروں کی جدوجہد کے سامنے کچھ حقیقت نہیں رکھتے۔ ہاں وہ خوش قسمت ہیں۔ مگر اس خوش قسمتی میں آصف علی زرداری بھی کم نہیں۔ اور حالیہ سیاسی ڈھانچے میں وہ اپنی خوش قسمتی کو حقیقی قسمت میں بدل سکتے ہیں۔ ایک طرف کسی مشکل گھڑی میں عمران خان کی حکومت کے مددگار کے طو رپر، جب کبھی بھی عمران حکومت کی کشتی ڈوبے گی، اس کو ساحل تک لے جانے کے لیے وہی مددگار ثابت ہوں گے۔ اور یہ پیغام انہوں نے وزیراعظم عمران خان اور ’’سب‘‘ کو پہنچا دیا ہے کہ بابا ہم سے ہی اس بعد از انتخاب اقتداری ڈھانچے کا وجود قائم ہے۔ کہتے ہیں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ میں کہتا ہوں اقتدار کا تو بہت بڑا دل ہوتا ہے، جو اقتدار میں موجود شخص کو اُس شخص کے گلے ملا دیتا ہے جس کا وہ گلا کاٹنے کا اعلان کرتا رہا۔ اور پھر اگر موقع ملے تو گلے لگے گلے کا کاٹ بھی دیتا ہے۔
ہمارے بقراطی تجزیہ نگار جو پچھلے دس سالوں سے سول ملٹری تعلقات پر لکھ لکھ کر اپنی علمیت جھاڑ رہے تھے کہ وزیراعظم اور آرمی چیف ایک پیچ پر ہیں، اُن کو معلوم ہی نہیں کہ منظم اداروں کا ڈسپلن Institutional Memory بھی رکھتا ہے۔ ویسے ہی جیسے امریکہ میں ڈیموکریٹس کی حکومت آئے یا ریپبلکن کی، اسرائیل سمیت اُن کی خارجہ پالیسی میں کوئی خاص فرق نہیں آتا۔ جنرل ضیاالحق سے آج تک سول ملٹری تعلقات کی کہانی اتار چڑھائو کے ساتھ کچھ زیادہ بدلی نہیں۔ اس طرح اب اُن لوگوں کو سمجھ لینا چاہیے جو وزیراعظم اور آرمی چیف کو کسی کھیت میں فصلوں کی کٹائی کی تقریب میں ایک ٹریکٹر پر بیٹھے دیکھ کر یہ تجزیے کرتے رہے کہ وزیراعظم اور چیف آف آرمی سٹاف مسکرا رہے تھے، لہٰذا دونوں ایک ہی پیج پر ہیں۔ یہاں تو دونوں کتابیں ہی مختلف ہیں۔ ایک کتاب کے ایک پیج پر قرار دئیے جانا ایک سراب ہے۔ میاں نوازشریف، پنجاب کی وزارتِ خزانہ کے ایک وقت میں پسندیدہ لوگوں میں شمار کیے گئے اور وہ بھی خوش قسمت قرار دئیے گئے۔ مگر دیکھیں وقت آنے پر وہ کس طرح ناپسندیدہ قرار دے دئیے گئے۔ نئی حکومت جوکہ عوام کو دی گئی اپنی ہی امیدوں کے پہاڑ پر کھڑی ہے، اس کے سامنے جہاں معاشی، اقتصادی، گورننس سمیت لاتعداد مسائل ہیں، وہیں تین مسائل ایسے ہیں جو اُن کے اندر کی حکمرانی کے ہیں۔ اپنی ہی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے لیڈروں کا دبائو، اتحادیوں کا دبائو اور اُن مجبوریوں کا دبائو جس کا ٹکرائو عوام کی خواہشات، امیدوں اور باطنی قوتوں کے مفادات سے جنم لے گا۔ وزیراعظم عمران خان کو اپنی حکومتی طاقت کا اندازہ بھی پہلے سو دنوں میں ہوجائے گا۔ وہ پھر اسی میسر طاقت کے بَل بوتے پر اُن امیدوں پر پورا اترنے کے قابل ہوں گے۔ کیا وہ اس طاقت کے بَل بوتے پر اپنی ہی امیدوں پر پورااتر سکیں گے؟ کاش وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوجائیں، اسی میں قوم اور اُن کا بھلا ہے۔ ذرا تصور کریں، اگر عوام کی امیدوں کے پہاڑ بکھر گئے تو کیا ہوگا۔ پھر وہ ہوسکتا ہے جس کو دیکھنے کے لیے زیادہ گہری خوردبین چاہیے۔ اقتدار کے ایوانوں کو سمجھنے کے لیے Body Language پر مبنی تجزیے تو اصطلاحوں کا کھیل ہے۔ حکمران تو کانٹوں کی سیج پر بیٹھ کر بھی مسکرانے پر مجبور ہوتے ہیں۔
“