نومنتخب حکومت کے ابھی سو دن پورے نہیں ہوئے۔ روزِاوّل سے آج تک حکومت سازی سے لے کر سیاسی، اقتصادی اقدامات تک، نئی حکومت سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ اس کی اہم وجہ نومنتخب وزیراعظم عمران خان کی طرف سے پچھلے چند سالوں سے کیے جانے والے بڑے سیاسی دعوے ہیں۔ اگر اُن کا تعلق مسلم لیگ (ق) جیسی جماعت سے ہوتا تو لوگوں کی امید بھری نظریں اور خواہشات ایسی نہ ہوتیں۔ اپنی کامیابی کے امکانات کے لیے انہوں نے پچھلے بائیس سالوں میں ورلڈکپ میں کامیابی، شوکت خانم ہسپتال کا قیام اور نمل یونیورسٹی جیسے اپنی زندگی کے اہم سنگ میل کو پاکستان جیسی ریاست جس کی آبادی بائیس کروڑ کے قریب ہے، کو کامیابی کی ضمانت کے طور پر پیش کیا۔ اُن کی مقبولیت کے آغاز کے چند روز بعد ہی راقم نے انہی صفحات پر ایک کالم 8نومبر 2011ء کو بعنوان ’’عمران خان غصے کا تیر تو ہے مگر منطق کی کمان کہاں؟‘‘ لکھا۔ اس میں یہی عرض کیا تھا کہ عمران خان صاحب آپ غصے کے تیر کے ساتھ منطق کی کمان کا بھی استعمال کریں جوکہ آپ کے ہاں ناپید ہے۔ خطابت اور قیادت میں بہت فرق ہے۔ میں ایسے کئی تجزیہ نگاروں کو جانتا ہوں جنہوں نے چرب زبانی سے کئی سالوں سے اپنے ناظرین کو اپنی سحرانگیز خطابت میں گرفتار کررکھا ہے مگر اُن کی اس چرب زبانی میں جہاں علم اور معلومات نہایت کمزور ہیں، وہیں اگر اُن کو مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑے تو وہ شاید ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموشی اختیار کرلیں۔ اسی طرح اپوزیشن میں قیادت اور حکومت میں قیادت کرنا ایک مختلف اور مشکل کام ہے۔ حالیہ انتخابات میں حکمران جماعت کی لاہور میں شکست Significant ہے، جہاں نام نہاد خاموش مجاہد کے صاحب زادے ہمایوں اختر جو ہر حکومت بدلنے کے ساتھ ہی اپنے آپ کو بدل لیتے ہیں، کو خواجہ سعد رفیق نے بھاری اکثریت سے شکست دے کر نئی حکومت کے پہلے سو دنوں کی کارکردگی کا راز کھول کر رکھ دیا ہے۔ یہ ایک وہ نشست ہے جو وزیراعظم عمران خان سے چھوڑی۔
ذوالفقار علی بھٹو جب بھی دیگر جیتی ہوئی نشستیں چھوڑتے تو ضمنی انتخاب میں اُن کا امیدوار اُن سے زیادہ ووٹ حاصل کرتا۔ عمران حکومت کے پاس ابھی بھی وقت ہے کہ وہ اپنے آپ کو سنبھال لیں، وگرنہ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ مستقبل قریب میں اس مقام پر پہنچیں گے جہاں کوئی بھی منتخب حکمران نہیں پہنچا۔ انہوں نے اپنے مداحین تو پیدا کیے ہیں مگر سیاسی کارکن پیدا نہیں کیے، اس لیے کہ انہوں نے سیاسی فلسفے سے زیادہ بڑھکوں اور دعووں کو اپنی خطابت اور سیاست کا عنوان بنایا۔ اگر وہ اپنی قیادت تلے سیاسی کارکن پیدا کرتے تو شاید اُن کو Electables کے دیمک زدہ اقتدار وسٹیٹس کو کے ستونوں کا سہارا نہ لینا پڑتا۔ اُن کی جماعت خواجہ سعد رفیق جیسا ایک بھی سیاسی کارکن پیدا کرنے میں ناکام رہی۔ اُن کی جماعت کے بطن سے شروع میں جن سیاسی کارکنوں نے جنم لیا، اُن کو اُن کے جنم کے ساتھ ہی مٹا دیا گیا، جن میں عمر چیمہ سرفہرست ہیں۔ اگر پاکستان پیپلزپارٹی کا حوالہ دوں تو اس جماعت نے ایک نہیں ہزاروں ایسے سیاسی کارکنوں کو جنم دیا جو سیاست میں حیران کن معجزے کردیتے ہیں۔ اس لیے کہ جب سیاسی جماعتیں سیاسی فلسفے ونظریے کی بنیاد پر بنائی اور چلائی جائیں تو سیاسی قیادت ازخود جنم لیتی ہے۔ اور اگر زورِخطابت اور بڑھکوں سے سیاسی جماعتیں چلائی جائیں تو پھر ہمایوں اختر جیسے ’’شہزادوں‘‘ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ جن کے والد نے ایک بھی محاذ پر جنگ نہیں لڑی، مگر وہ اس قوم کے ’’خاموش مجاہد‘‘ ٹھہرائے گئے۔ حقائق بہت تلخ ہیں۔ وزیراعظم صاحب نے اپنے اردگرد جن لوگوں کو اکٹھا کرنا شروع کیا ہے، اس پر تمسخر نہ اڑایا جائے تو اور کیا کیا جاسکتا ہے۔ پنجاب میں جس سیاسی ڈھانچے پر وہ بہت نازاں ہیں، کچھ عرصے بعد ہی اُن کو معلوم ہوجائے گا کہ ’’سیاست کس بھائو بکتی ہے۔‘‘ سپیکر پنجاب اسمبلی جناب پرویز الٰہی اور اُن کا سیاسی خاندان یہ ہنر جانتا ہے کہ حکمرانی کی سیاست کیسے کی جاتی ہے۔ یہ ہنر چوہدری ظہور الٰہی کے زمانے ہی سے شروع ہوا، جو لوگ اُن کو ذوالفقار علی بھٹو کا سخت ناقد جانتے ہیں، اُن کو مرحوم چوہدری ظہور الٰہی کے 1971ء سے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں Stand کا کم کم ہی علم ہے۔ لگتا ہے چانکیہ یا میکاولی کا تعلق ضلع گجرات سے تھا۔ حکومت سیاسی Rituals یعنی گلیوں کی صفائی کرنے جیسے نمائشی اقدامات سے کہیں زیادہ مختلف چیز ہے۔ مجھے عمران خان صاحب سے ہمدردی ہے کہ انہوں نے اپنے اردگرد اُن لوگوں کو شروع ہی میں اکٹھا کرلیا ہے جن کو ناکام حکومتیں آخری دنوں میں شامل کرتی ہیں۔ ضمنی انتخابات میں نتائج کے بعد امید ہے کہ نئی حکومت آنکھیں کھول لے گی، اگر نہ کھول سکی تو پھر دیکھئے کیا ہوتا ہے۔ ایک ایسی حکومت جس کے سامنے پاکستان پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، جمیعت علمائے اسلام، مسلم لیگ (ن)، جماعت اسلامی، بحیثیت اپوزیشن جماعتیں کھڑی ہیں، جن کو سیاست کا بھی طویل تجربہ ہے اور اپوزیشن کا بھی۔ جو سیاسی تحریکوں کو جنم دینے کا بھی تجربہ رکھتی ہیں۔ دھرنا کیا ہے۔ اگر اس کی تاریخ کو اس کے انجینئرزکو کوئی جاننا چاہتا ہے تو انہیں جارجیا، آرمینیا اور یوکرائن کے نام نہاد انقلابات کی تاریخ پڑھ لینی چاہیے جو سردجنگ کے خاتمے کے بعد ان ممالک میں حکومتوں کو الٹنے کے لیے سی آئی اے نے دنیا کے ایک بڑے سرمایہ دار جارج سورس کی سرپرستی میں منظم کیے۔ پارلیمنٹس کے باہر دھرنے دو اور حکومتیں پلٹ دو۔ وہ شہری ریاستیں تھیں، چھوٹی ریاستیں، وہاں ’’ایسے انقلابات‘‘ کامیاب ہوگئے، مگر پاکستان میں اسی ماڈل پر حکومت گرانے کے تجربات ناکام ہوئے۔ دھرنا میرے نزدیک احتجاج سے زیادہ سیاسی بدمعاشی ہے۔ چاہے اسے سیاسی جماعت منظم کرے یا کوئی مذہب کا نام لے کر ، یعنی چند سو یا چند ہزار لوگوں کا کسی مخصوص علاقے میں زندگی، نظم وضبط روک دینا۔ سیاسی تحریک ایک منفرد چیز ہے۔ جو لوگوں کے سماجی، معاشی، اقتصادی اور دیگر حقوق کے ساتھ برپا ہوتی ہے۔ شہرشہر، قصبہ قصبہ، گلی گلی۔
قوی امکان ہے کہ اگر عمران خان حکومت یونہی چلتی رہی تو پاکستان کے عوام ایک نئی سیاسی تحریک کو جنم دے سکتے ہیں۔ سیاسی تحریکیں عوام کے اجتماعی تجربات اور اجتماعی شعور سے جنم لیتی ہیں۔ اپر مڈل کلاس کے دھرنے، منرل واٹر پی کر شغل میلہ لگاتے ہیں اور عوامی تحریک جہاں لوگ سینوں پر گولیاں کھا کر لڑتے ہیں، دونوں میں بہت فرق ہے۔ پی ٹی آئی کا ہراول دستہ، یہ نئی کارپوریٹ مڈل کلاس ہے جو نام نہاد گڈگورننس اور کرپشن کے نعروں پر ابھری جبکہ عوامی تحریک سٹیٹس کو کے خلاف درمیانے طبقے کے نہایت نچلے طبقے اور محکوم طبقات کے اتحاد سے جنم لیتی ہے ۔ گلوبلائزیشن کے بطن سے جنم لینے والی اس کارپوریٹ مڈل کلاس کا بڑا گڑھ پنجاب ہے اور یہیں سے پی ٹی آئی نے لفظ کی حد تک ’’تبدیلی‘‘ کا نعرہ بلند کیا۔ بغیر کسی سیاسی، معاشی، اقتصادی نظریے اور منشور کے۔ گڈ گورننس اور کرپشن جیسے نعرے عوامی سیاست میں کچھ حقیقت نہیں رکھتے۔ یہ ورلڈ بینک اور عالمی مالیاتی اداروں کی اصطلاحیںہیں۔ عوامی سیاست اور حقیقی تبدیلی عوامی فکر کے بطن سے جنم لیتی ہے۔ استحصال کے خلاف ایک مکمل معاشی، سیاسی، اقتصادی اور سماجی نظریہ، جس کا حکمران جماعت کے کسی کونے کھدرے میں بھی ذکر نہیں۔ اگر یہ کہوں کہ شعور ہی نہیں تو غلط نہ ہوگا۔ اس کارپوریٹ مڈل کلاس کا بلبلہ جلد پھٹنے والا ہے۔ عمران خان اس حوالے سے خوش نصیب ہیں کہ اُن کے سامنے بے نظیر بھٹو جیسا کوئی اپوزیشن لیڈر نہیں۔ آہ، اگر وہ ہوتیں تو دیکھتے کہ پھر کیا ہوتا ۔ اور اگر صرف ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی آج اپنی اصل سیاسی فکر، طبقاتی فکر پر ہی کھڑی ہوجائے تو نئی حکومت کو لگ پتا جائے کہ اپوزیشن اور سیاسی جدوجہد کسے کہتے ہیں۔
عمران حکومت کا جو امتحان پہلے سو دن میں ہونا تھا، اس میں اگر کامیاب نہ ہوئے تو اگلے پانچ سال یہ کیسے گزارے گی۔ اور وزیراعظم کسی غلط فہمی کا شکار ہیں کہ اُن کے ساتھ عوام اور پیچھے خاص طاقتیں ہیں تو اس کا بھی انہیں بغور مطالعہ کرنا چاہیے کہ یہ خاص طاقتیں کیسے اپنے ہی پیدا کردوں کو بڑے بڑے آپریشن کرکے انجام تک پہنچاتی ہیں۔ وزیراعظم صاحب، آپ کے پاس ایک ہی آپشن ہے کہ آپ حکومت سازی کو ہی عوامی بنیادوں پر کھڑا کرلیں۔ ابھی وقت ہے اور یہ وقت تیزی سے گزرتا جا رہا ہے۔ میں نے یہ الفاظ وخیالات ایک ہمدرد نقاد کے طور پر ضبط تحریر کیے ہیں۔ میرا تعلق کسی سیاسی دربار سے نہیں۔ افسوس، ہمارے ہاں چوںکہ زیادہ تر کالم نگار مختلف سیاسی دھڑوں میں بٹے ہوئے ہیں، اس لیے ان کے نزدیک وہی ٹھیک ہے جس سیاسی دربار کی چھتری تلے وہ نام ومال کما رہے ہیں۔ میرا تعلق عوام سے ہے۔ اسی لیے میرے ایک کالم ہر ایک جماعت کے حمایتی ناراض اور دوسرے کالم پر دوسری جماعت کے حامی ناراض ہوتے ہیں۔ ایک عوامی قلم کار کی حیثیت سے میرا فرض ہے کہ میں حقائق کی بنیاد پر تجزیہ کروں۔
“