عمران حکومت، امیدوں کا پہاڑ اور ابھرتی عوامی تحریک
اگلے چند دنوں میں نومنتخب حکومت، وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں اپنا آغاز کردے گی۔ عمران خان اس وقت اپنے ووٹرز اور تمام لوگوں کے لیے بھی اُن امیدوں کے پہاڑ کو سَر کرنے چلے ہیں جو انہوں نے اپنے بیانات، خطابات، اجتماعات اور بحیثیت اپوزیشن رہنما گزشتہ کئی سالوں میں بنایا۔ عمران خان نے ہمیشہ ہی بڑے اعتماد سے کہا ہے کہ وہ پاکستان کو بدل سکتے ہیں۔ انہوں نے باربار کہا کہ ایک مضبوط معیشت، ایک خوش حال قوم، قانون کی بالادستی، کرپشن کا خاتمہ، یہ سب کچھ ممکن ہے۔ یقینا انہوں نے جس بھرپور اعتماد کا سالوں اظہار کیا، اس کے پیچھے اُن کے پاس متبادل منصوبہ بندی ہوگی جس کی بنیاد پر وہ بار بار اس کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ اسی لیے وہ اپنے اقتدار وحکمرانی کو نئے پاکستان کا عنوان دیتے ہیں۔ اس حوالے سے لوگ اُن کو ملائیشیا اور ترکی کی کامیاب مثالوں کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ یقینا پاکستان کی ملٹی پارٹی جمہوریت میں اُن کے پاس پانچ سال اقتدار کا آئینی حق ہے، اگر اس دوران کوئی آئینی اور سیاسی بحران جنم نہ لے لے۔ ملٹی پارٹی ڈیموکریسی میں اپوزیشن کا کردار جمہوری انداز میں ایک نگہبان کا کردار ہوتا ہے۔ اِن اگلے پانچ سالوں کی کامیابی اُن کے پہلے سو دنوں ہی میں طے ہوجائے گی۔ جیساکہ انہوں نے 11مئی 2008ء کو میرے ساتھ ایک انٹرویو میں (جس کو قارئین انٹرنیٹ پر یوٹیوب پر باآسانی دیکھ سکتے ہیں) آج سے دس سال پہلے کہا تھا کہ وہ اس پاکستان کو بدلنے اور اس کو بدلنے کے ایجنڈے کو پہلے سو روز میں ثابت کرنے کے اہل ہیں۔ ایک عام پاکستانی کی حیثیت سے میری یہی دعا ہے کہ پاکستان آئندہ پانچ سالوں میں بدل جائے اور یوں ہم دنیا کی ایک پسماندہ، ناخواندہ، جسمانی بیماریوں میں جکڑی قوم، غربت اور استحصال کے دائروں سے باہر نکل کر دنیا کی جدید قوم میں ڈھل جائیں اور ریاست پاکستان ایک کامیاب ریاست میں بدل جائے۔ یہ اعتماد عمران خان نے ہی اپنے ووٹرز کو دیا ہے کہ وہ پاکستان کو بدل سکتے ہیں۔ یقینا انہیں ان طے شدہ آئینی فریم ورک، اظہارِ آزادی کے اصولوں، ملٹی پارٹی ڈیموکریسی میں رہ کر ہی پاکستان کو بدلنا ہوگا۔
عمران خان نے اپنے سیاسی موقف میں ہمیشہ تین چیزوں کو بنیادی ستون قرار دیا ہے ، کرپشن، لوٹ کر دولت ملک سے باہر لے جانے سے روکنا اور گڈ گورننس۔ اب وہ گورننس کے اس اہرام کے اوپر بیٹھے ہیں جس کے نیچے سارا حکومتی اور اقتداری ڈھانچا قائم ہونے جارہا ہے۔ پاکستان کا جو بحران اور مسائل ہیں، اُن کے مطابق اس کا مختصر سا خاکہ درج بالا سطور میں بیان کیا گیا ہے۔ جبکہ راقم کی نظر میں بحران اور مسائل جن دائروں میں گھوم رہے ہیں، وہ ان نکات پر مشتمل ہے۔کرپٹ نہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایسی قیادت کا متعلقہ شعبے میں Competent ہونا لازمی ہے۔ وگرنہ ایک ایمان دار شخص بغیر اہلیت کے تباہ شدہ ادارے کو بدل دے، یہ ایک یوٹوپیائی تصور ہے۔ دنیا کے چند ایک ممالک جن کا ذکر ہمارے ہاں مثال دے کر کیا جاتا ہے کہ انہوں نے مختصر عرصے میں کمال معاشی ترقی کی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان چند ایک ممالک کی سیاسی قیادتوں کی کرپشن کا حجم ہماری سیاسی قیادت کی کرپشن سے کئی گنا بڑا ہے، کیوں کہ وہاں معاشی ترقی کا حجم بھی ہم سے کئی گنا بڑا ہے۔ اسی لیے میں اس موضوع پر انہی صفحات اور دنیا کے سرفہرست نشریاتی ادارے بی بی سی میں ان ممالک کی معاشی ترقی کی مثالوں کو Corruption and Development کے ماڈل قرار دے چکا ہوں۔ لیکن وہاں Incompetency برائے نام تھی۔ اس لیے ایمان داری کے ساتھ Competence لازم ہے۔
بیرونی دنیا کے بینکوں سے لوٹی ہوئی دولت کی واپسی، یہ بھی ایک یوٹوپیائی تصور ہے۔عالمی سرمایہ داری نظام میں اِن بینکوں میں جمع، تیسری دنیا کے آمروں، لٹیروں اور صنعت کاروں کی لوٹی ہوئی دولت کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ اس لیے ان کی واپسی کا فلسفہ اور دعویٰ ایک تخیل ہے، حقیقت نہیں۔ اسی لیے میرے نزدیک اس دولت کی واپسی کے مقابلے میں اہم اور بنیادی مسئلہ استحصال کا ہے جو پاکستان کے پیداواری طبقات کا کیا جاتا ہے۔ پاکستان کا غیرپیداواری طبقہ، صنعت کار، جاگیردار، پراپرٹی ڈیلرز اور مختلف مافیاز نے لوگوں کی محنت پر پیداوار کے نتیجے میں جنم لینے والی دولت کو لوٹنے اور ان کے استحصال کا جو خوفناک نظام بُن لیا ہے، اس کے خاتمے کی ضرورت ہے۔ ہمارے منتخب اور غیرمنتخب حکمران طبقات کی تقریباً تمام کلاس اِن استحصال کرنے والوں پر مشتمل ہے۔ سماج، سیاست اور ریاست پر ان کا ہی غلبہ ہے، وہ پیداوار کرنے کی بجائے پیداوار کو لوٹنے میں مصروف ہیں۔ اس لیے ایک دیہی کسان سے لے کر صنعتی مزدور اور شہروں کے تمام نچلے طبقات اپنی محنت کے مقابلے میں برائے نام اجرت حاصل کررہے ہیں۔ معاشی استحصال کے سارے نظام پر ان غیرپیداواری طبقات کی مکمل گرفت ہے۔ جدید جمہوریت وسطی یورپ کی ہو یا سکینڈے نیویا کی، وہاں پر پیداواری طبقات کو اُن کی محنت کا پورا معاوضہ ملتا ہے۔ اسی لیے وہاں عام آدمی معاشی خوش حالی سے مستفید ہوتا ہے۔ جبکہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت جو عالمی سطح پر ایک کامیاب معیشت ہے، وہاں اس ’’کامیاب معیشت‘‘ سے عام آدمی کی زندگی نہیں بدل سکی اور اسی لیے وہ تاحال دنیا کی سب سے بڑی غربت (Largest poverty) ہے جبکہ وہ ممالک جہاں Corruption and Development کا ماڈل وجود میں آیا، وہاں پر آمرانہ طرزِحکومت (سول حکومتیں) عام لوگوں کی زندگیوں میں خوشحالی لاکر اپنے لوگوں کی ایک بڑی اکثریت کو مطمئن کرنے میں کسی نہ کسی حد تک کامیاب ہیں جن میں روس بھی شامل ہے۔
کیا پاکستان کا مسئلہ گڈگورننس ہے؟ جیساکہ عمران خان صاحب باربار اس کا اظہار کرچکے ہیں اور الیکشن جیتنے کے بعد اپنی تقریر میں بھی انہوں نے گڈگورننس کو پاکستان کے مسائل کی ایک وجہ قرار دیا ہے۔ گڈگورننس جیسی اصطلاحیں، درحقیقت ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے عالمی مالیاتی اداروں کے ہاں بڑی معتبر مانی جاتی ہیں۔ اُن کے نزدیک گڈگورننس والے ممالک وہ ہیں جہاں اُن کے قرضوں پر چلنے والی معیشتوں پر ایسی قیادت براجمان ہو، جو اُن کے قرضوں پر چلے اور اس کی شان دار منافعو ں کے ساتھ واپسی کرے۔ یعنی عالمی مالیاتی اداروں کی رقوم کا تحفظ کرنے والی گورننس۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان جیسی فیدریشن اور خصوصاً اٹھارھویں ترمیم کے بعد گورننس کی عملی اور کامیاب شکل یہ ہونی چاہیے کہ Self Governanceہو یعنی عام لوگوں کی ہر سطح پر حکمرانی۔صوبوں، ضلعوں اور دیہات تک عام لوگوں کی حقیقی حکومتیں۔ کامیاب جمہوریتوں اور کامیاب معیشتوں میں کامیابی کا ایک راز یہی Self Governance ہے۔ اسی کے تحت پیداوار کرنے والی صوبائی اکائی اور ضلع تک آمدن اسی صوبے اور ضلع پر لگے یعنی لامرکزیت۔ پاکستان میں اقتدار کے مرکزیت پر کھڑے ڈھانچے کے بغیر تبدیلی کا تصور اور گورننس کا تصور، جمہوریت، فیڈریشن اور معاشی ترقی کے ثمرات متعلقہ صوبائی یا ضلعی اکائی تک نہ پہنچنے تک ایک یوٹوپیائی تصور ہے۔ اس لامرکزیت میں پولیس، صحت اور تعلیم کے شعبے بھی آتے ہیں۔ یعنی حکومت کو صوبے اور ضلع تک پھیلا دینے کے بغیر معاشی اور جمہوری ترقی کا خواب ایک سراب ہی ہے۔
وزیراعظم عمران خان کے سامنے اب ایک مضبوط اپوزیشن ہے، 2013ء اور 2008ء سے زیادہ مضبوط اپوزیشن۔ یاد رہے آئینی طور پر پاکستان ایک ملٹی پارٹی ڈیموکریسی طرزِسیاست کے فریم ورک پر قائم ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے سامنے اس ملٹی پارٹی ڈیموکریٹک ڈھانچے میں رہ کر ہی اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو کامیاب کرتے ہوئے پاکستان کو تبدیل کرنا ہوگا۔ اٹھارھویں ترمیم کے بعد صوبوں کو جو اختیارات تفویض ہوئے ہیں، ایسے میں دو صوبوں میں اُن کی اپنی حکومتیں ہوں گی۔ مگر دونوں صوبوں میں طاقتور وسیع سیاست اور عوامی جدوجہد کا تجربہ رکھنے والی اپوزیشن جماعتیں ہوں گی۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں جمعیت علمائے اسلام، عوامی نیشنل پارٹی، آفتاب شیرپائو کی پارٹی، جماعت اسلامی اور پیپلزپارٹی کی سیاسی تربیت یافتہ قیادت جو سیاست اور احتجاج منظم کرنے کا تجربہ پاکستان تحریک انصاف سے کہیں زیادہ رکھتی ہیں۔ اسی طرح پنجاب میں بھی۔ سندھ میں وہ ایسی صورتِ حال کا مقابلہ کریں گے جہاں پاکستان کی سب سے زیادہ سیاسی تجربہ رکھنے والی پارٹی ، پیپلزپارٹی کا سامنا ہوگا۔ بلوچستان بنیادی طور پر ایک Problematic صوبہ ہے۔ اس کی صورتِ حال تو یکسر مختلف ہے۔ چاہے ساری اسمبلی حکومت میں ہو، وہاں حکمرانی کرنا اور حکمرانی میں مسائل کا حل ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ اور اسی طرح قومی سطح پر اسمبلی کے اندر اور اسمبلی کے باہر پاکستان تحریک انصاف کو ایک بہت بڑی تجربہ کار سیاسی اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑے گا، جس میں پاکستان پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن، جمیعت علمائے اسلام، جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف جس کی گزشتہ پانچ سالوں کی شناخت احتجاج کرنے والی جماعت کے طور پر بنی، اب اسے یقینا اپنے سے زیادہ تجربہ کار اپوزیشن کا سامنا ہے جس کے پاس فوجی آمروں کے خلاف جدوجہد کا تجربہ موجود ہے۔ اس ساری صورتِ حال کو سامنے رکھ کر جناب عمران خان اور اُن کی اتحادی حکومتوں کی ہر لمحہ ایک کامیاب حکمرانی ثابت کرنا ہوگی۔ اس ساری کامیابی کا ڈھانچا پہلے سو دن میں ابھر کر خود سامنے آئے گا، جب کابینہ سے لے کر متعلقہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں حکومت سازی کی تکمیل اور اپنے وعدوں اور اعلانات کے مطابق پاکستان کے عوام کی امیدوں پر پورا اترتے ہوئے ایک نئے پاکستان کا ابھرتا چہرہ نظر آنا اب ٹالا نہیں جاسکتا۔ اگر نئی حکومت پہلے سو دن میں بدلتے پاکستان کا چہرہ بنانے میں کامیاب نہ ہوئی تو پھر پاکستان میں کئی سالوں بعد حقیقی معنوں میں ایک بھرپور عوامی تحریک Mass Movement کو جنم لے سکتی ہے۔ دھرنے نہیں، احتجاج نہیں، بلکہ ایک بھرپور عوامی تحریک۔ ایک وسیع عوامی تحریک جسے ہم قبل ازانقلاب عوامی تحریک کہتے ہیں۔ سیاسی، معاشی اور سماجی حقوق پر بپھری شہر شہر، قصبہ قصبہ، گلی گلی پھیلی تحریک۔