پاکستان نے اپنے قیام کے کچھ ہی عرصہ بعد ملکی معیشت کو اپنے پاؤوں پر کھڑا کرنے کی بجائے بیرونی امداد پر انحصار کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس وقت دنیا دو بلاکوں میں تقسیم تھی۔ پاکستان مغربی بلاک میں تھا جو سوویت یونین کے خلاف برسرِ پیکار تھا۔ اور مغرب بالخصوص امریکہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط سے مضبوط تربنانا چاہتا تھا۔ چنانچہ ابتدا میں پاکستان کو ملنے والی امداد قرضوں کی بجائے گرانٹ کی شکل میں ہوتی تھی ۔ 1955-60ء کے پہلے پانچ سالہ منصوبے کے دوران پاکستان کو ملنے والی گرانٹس ٹوٹل امداد کا 80فی صد تھیں جبکہ باقی کا 20فی صد قرضوں کی شکل میں تھا ۔ تاہم جوں جوں وقت گزرتا گیا گرانٹ کی شکل میں امداد کا تناسب کم ہوتا گیا اور پاکستان کو ملنے والی امداد میں قرضوں کا تناسب بڑھتا گیا۔ یہاں تک کہ نوے کی دہائی میں یہ تناسب10سے 20فی صد کے درمیان رہ گیا۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قرضوں کی شرائط میں بھی سختی آتی گئی جو کہ ابتدا میں انتہائی نرم تھیں۔
پاکستان نے صدر ایوب خان کے دور میں سن 1965ءمیں آئی ایم ایف سے پہلا قرضہ حاصل کیا۔ نوے کی دہائی تک پاکستان پر قرضوں کا بوجھ اس حد تک بڑھ چکا تھا کہ اس نے آئی ایم ایف کے سٹرکچرل ایڈ جسٹمنٹ پروگرام کو نافذ کرنا شروع کر دیا۔صدر ضیا ء الحق کے انتقال کے بعد عبوری حکومت نے اس معاہدے پر دستخط کیے۔ 1989ءمیں بینظیر بھٹو نے اقتدار میں آنے کے لیے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جو ڈیل کی تھی اس میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ اس پروگرام کو جاری رکھا جائے گا۔ پھر بینظیر کے پہلے دور کے اختتام کے بعد نواز شریف نے اقتدار سنبھالا اور اس سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرام کو جاری رکھا۔ 1993میں نواز شریف حکومت کا خاتمہ ہو گیا اوراس کے بعد معین قریشی کو عبوری وزیر اعظم بنایا گیا جو کہ1981 ءسے لے کر 1991ء تک کم و بیش دس سال ورلڈ بینک میں سینئر نائب صدر سمیت مختلف اعلیٰ عہدوں پر فائز رہ چکے تھے۔ اس عبوری حکومت نے ایساف (Enhanced Structural Adjustment Facility)کے لیے پالیسی پیپر تیار کیا جس کی توثیق بینظیر نے دوسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد کی۔ 1999ءمیں جب مشرف نے نواز شریف حکومت کا تختہ الٹا تومشرف نے شوکت عزیز کو وزیر خزانہ مقرر کیا جو کہ مسلسل تین دہائیوں سے امریکہ کے سٹی بینک میں صدر سمیت مختلف اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ اور یہ بات بھی محض اتفاق نہ تھی کہ مشرف نے ڈاکٹر عشرت حسین کو سٹیٹ بینک کا صدر مقرر کیا جو وسط ایشیائی ممالک میں ورلڈ بینک کے ڈائریکٹر رہ چکے تھے۔ پس مشرف نے بھی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی پالیسیوں کو نافذکرنے کا بیڑا اٹھایا۔ مشرف دور میں تو یہ پالیسیاں انتہائی واضح ہو چکی تھیں۔ اور اس کے بعد سے آج کی تاریخ تک نئی آنے والی ہر حکومت نے آئی ایم ایف سے سخت شرائط پر بھاری قرضے حاصل کیے ہیں۔
جہاں تک پاکستان کی موجودہ حکومت کا تعلق ہے تو حکومت کی جانب سے دعویٰ تو یہ سننے کو ملتا ہے کہ ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں کہ خستہ معاشی حالات کے شکار لوگوں کی مدد کر سکیں یا مقبوضہ کشمیر اور مسجد الاقصی کی آزادی کے لیے اپنی افواج کو روانہ کرسکیں۔ لیکن دوسری جانب یہی حکومت ہماری معیشت کو اُسی گڑھے میں پھینک دیتی ہے جو آئی ایم ایف نے اِس کے لیے تیار کیا ہے۔ حکومت ملک کے ہر بجٹ اور منی بجٹ کو آئی ایم ایف کے پالیسی احکامات کے مطابق ترتیب دیتی ہےحالانکہ وہ استعماری مالیاتی اداروں کی تباہ کُن فطرت سے پوری طرح باخبر ہے۔ اقتدار میں آنے سے قبل برطانوی اخبار "دی گارڈین"کو 18 ستمبر 2011 کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں عمران خان صاحب نے بہت پُرزور انداز میں خبردار کیا تھا، "ہر وہ ملک جس کے متعلق میں جانتا ہوں کہ اُس نے آئی ایم ایف یا عالمی بینک کا (قرضوں کا )پروگرام حاصل کیا ، اُس نے غریب کو مزید غریب اور امیر کو مزید امیر ہی کیا۔" لیکن اس کے باوجود، آئی ایم ایف کے کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ نے 21 مئی 2021 کو اس بات کی تصدیق کی کہ پاکستان کیلئے آئی ایم ایف کا پروگرام ابھی بھی جاری و ساری ہے۔ انھوں نے کہا ،" پاکستان کے لیے توسیعی فنڈ کی سہولت ، جو (کورونا) بحران سے متاثر ہونے سے پہلے موجود تھی ، وہ اب بھی موثر ہے"۔ لہٰذا ایک طرف تو دعویٰ اس بات کا کیا جاتا ہے کہ معیشت ٹیک آف پوزیشن میں آ چکی ہے جبکہ دوسری جانب اصل بات یہ سامنے آتی ہے کہ معیشت کا جہاز ابھی بھی رن وے پر کھڑا زنگ آلود ہو رہا ہے۔
ہم کبھی بھی اپنی بدحالی اور معاشی زبوں حالی کا خاتمہ ہوتا نہیں دیکھ سکیں گے، چاہے کوئی بھی حکومت میں آ جائے، کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام جو اس وقت رائج ہے، ہمیں ہمیشہ آئی ایم ایف کی تباہ کُن پالیسیوں سے منسلک کیے رکھتا ہے۔ آئی ایم ایف کی بیڑیاں اس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ پاکستان قرضوں میں ڈوبتا چلا جائے اور ان قرضوں پر سود جمع ہوتا جائے اور پھر وہ قرضے اِس حد تک بڑھ جائیں کہ محصولات کا بڑا حصہ صرف اس جمع شدہ سود کی ادائیگی پر ہی خرچ ہوجائے۔ آئی ایم ایف کی بیڑیاں اِس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ پاکستان کی معاشی سرگرمیوں کا گلا گھونٹ کر اور عوامی مفادات پر خرچے روک کر امریکی ڈالر کے استحکام کویقینی بنایا جائے۔ آئی ایم ایف کی بیڑیاں اِس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ عوام پر عائد ٹیکسوں کی رقم میں اضافہ ہوتا رہے اور توانائی کے شعبے کی نجکاری کے ذریعے توانائی کی قیمتیں مسلسل بڑھتی رہیں تا کہ پاکستان کی معیشت کے لیے سانس لینا دوبھر ہوجائے۔ اور آئی ایم ایف کی بیڑیاں اِس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ پاکستان کی صنعت جاں بلب رہے تا کہ وہ مغربی معیشتوں کے لیے سستی اشیاء بنا کر برآمد کرتی رہے جیسا کہ کھیلوں کا سامان اور کپڑے وغیرہ، جبکہ ہماری معیشت ہمیشہ مہنگی مغربی درآمدات کی محتاج رہے جیسا کہ زرعی و ٹیکسٹائل مشینری اور الیکٹرونکس وغیرہ۔
آئی ایم ایف کے مطابق مالیاتی خسارہ وہ سب سے اہم فیکٹر ہے جو کہ معیشت پر برے طریقے سے اثر انداز ہوتا ہے۔ مشہورِ زمانہ(SAPs) Structural Adjustment Programmesجو غریب مقروض ممالک کو تجویز کیے جا تے ہیں ، ان کا مقصد اسی مالیاتی خسارے کو کم کرنا ہے۔لیکن یہ بات کہ "مالیاتی خسارہ ملکی معیشت کے عدم استحکام کی بنیادی وجہ ہے" ، محض ایک مفروضے سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ اس مفروضے کی صحت اور مالیاتی خسارے کو کم کرنے کا فائدہ مغربی معیشت دانوں کی نظر میں بذاتِ خود متنازعہ ہے۔ ترقی یافتہ ممالک بشمول امریکہ اس تصور کو مسترد کرتے ہیں، خاص طور پر جب معیشت سست روی (economic depression) میں مبتلاہو۔ امریکہ کا مالیاتی خسارہ دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ پروفیسر رابرٹ ایزنر(Robert Eisner) جو کہ ایک مشہور معیشت دان ہیں، ہارورڈ بزنس ریویو(Harvard Business Review)کے 1993کے مئی- جون کے شمارے میں لکھتےہیں: ’’ہمارا(امریکہ کا) مالیاتی خسارہ ہمارا اولین معاشی مسئلہ نہیں، اگر بالفرض اسے ایک معاشی مسئلہ تصور بھی کیا جائے ‘‘! اور امریکی صدر بش نے فروری2003کو اپنے سٹیٹ آف دی یونین خطاب میں کہا تھا :’’ٹیکسوں میں کمی اور سرمایہ کاری میں اضافہ معیشت کو stimulateکرے گا‘‘۔ اسی طرح سابقہ امریکی صدر ریگن نے بھی یہی پالیسی اختیار کی تھی ۔ ریگن کے دور میں امریکہ 30کی دہائی کے معاشی ڈیپریشن کے بعد سب سے بڑے معاشی ڈیپریشن سے دوچار تھا، بیروزگاری کی شرح 8.4تک پہنچ چکی تھی،10ملین لوگوں کے لیے کام موجود نہ تھا، بجٹ خسارہ آسمان سے باتیں کر رہا تھا۔ تاہم ریگن نے جو قدم اٹھایا اسے وہ اپنی ڈائری میں بیان کرتے ہوئے لکھتےہیں :’’میں چونکہ ڈھیٹ واقع ہوا تھا، لہٰذا میں نے سوچا کہ ٹیکسوں میں کمی ریونیو میں زیادہ اضافے کا باعث بنے گی کیونکہ اس کے نتیجے میں معیشت stimulateہو گی‘‘۔
لہٰذا آئی ایم ایف کی پالیسیوں کا مقصد کسی طور پر بھی ان ممالک کی معیشت کو مستحکم بنانا نہیں ۔ سرمایہ دارانہ تصورات پر مبنی ان پالیسیوں کو اس طرح بنایا گیا ہے جو مستقل طور پر اس ملک کی معیشت کو بیرونی کمپنیوں اور امداد کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں۔ چونکہ آئی ایم ایف کی پالیسیوںکا تعلق پیسے کی قدر، سرمایہ کاری، بجٹ سازی اور ٹیکسوں سے ہوتا ہے لہٰذا ملکی معیشت کا کوئی حصہ ان کی زد سے محفوظ نہیں رہ پاتا۔لہٰذا آئی ایم ایف سے قرضے حاصل کرنا یا اس کے Structural Adjustment Programmes میں داخل ہونا سرے سے مسٔلہ کا حل ہے ہی نہیں۔ مسٔلہ کا واحد حل تو اس سرمایہ دارانہ معاشی نظام سے نجات میں ہی ہے۔