آج – 15/اکتوبر 1934
اپنی رجحان ساز تنقیدی کتاب "کاشف الحقائق" کے لیے مشہور، ناول نگار، انگریزوں نے شمس العلماء اور نواب کے خطاب سے نوازا، اردو فارسی زبان کے عمدہ شاعر اور بہارِستان سخن کے معروف شاعر” امداد امام اثرؔ صاحب “ کا یومِ وفات…
’ کاشف الحقائق‘ اور ان دو اہم کتابوں کے مصنف کا نام نواب سید امداد امام اثرؔ ہے جن کی پیدائش 17 اگست 1849ء کو کراپرسرائے سالارپور، ضلع پٹنہ میں ہوئی۔ ان کا تعلق ممتاز علمی خانوادے سے تھا۔ ان کے ایک بزرگ شہنشاہ اورنگ زیب کے استاد تھے۔ ان کے والد شمس العلما سید وحیدالدین بہادر صدر الصدور مجسٹریٹ ا و رجسٹرار تھے اور دادا سید امداد علی بھی صدرالصدور تھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم سید محمد محسن بنارسی سے حاصل کی اور اپنے والد سید وحیدالدین سے بھی کسب فیض کیا۔ یہ وکالت سے وابستہ رہے اور بعد میں پٹنہ کالج میں تاریخ اور عربی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ ریاست سورج پور ضلع شاہجہان آباد میں مدارالمہام کے منصب پر بھی فائز رہے۔ علومِ شرقیہ میں انھیں مہارت حاصل تھی۔ انھیں انگریزی حکومت کی طرف سے شمس العلماءاور نواب کے خطابات بھی ملے۔ انھوں نے دو شادیاں کیں۔ ان کی اولادوں میں علی امام، احسن امام، بہت ممتاز ہوئے۔ طبیعت میں بے نیازی تھی اور نواب خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود مزاج میں انکساری تھی۔
ان کا انتقال 15 اکتوبر 1934ء کو ہوا اور وہ مانپور روڈ آبگلہ، گیا بہار میں مدفون ہیں۔
امداد امام اثرؔ ناول نگار، شاعر اور ناقد تھے۔ ان کی اہم کتابوں میں ’ کاشفُ الحقائق‘ کے علاوہ ’ مرأة الحکما‘، ’فسانٔہ ہمت‘، ’کتابُ الاثمار‘، ’کیمیائے زراعت‘، ’فوائدِ دارین‘ اور ’دیوانِ اثر‘ اہم ہیں۔
امداد امام اثرؔ کو شہرت ’ کاشفُ الحقائق‘ سے ملی۔ اس کتاب کی پہلی جلد میں انھوں نے مصر، یونان، اٹلی اور عرب کی شاعری سے گفتگو کی ہے اور عربی شاعری میں انھوں نے امرؤالقیس، متنبی کے علاوہ دیگر شعرا پر بحث کرتے ہوئے امرؤالقیس کا میر و غالب سے تقابلی مطالعہ بھی پیش کیا ہے۔ مصر، یونان اور اٹلی کے شاعروں پر بھی بہت تفصیلی گفتگو کی ہے۔ دوسری جلد میں انھوں نے فارسی اور اردو دونوں زبانوں کی اصنافِ سخن کا جائزہ پیش کیا ہے اور تقابلی اور تجزیاتی مطالعے بھی کیے ہیں۔ انھوں نے سنسکرت کی شعری روایات پر بھی اپنی توجہ مرکوز کی ہے اور یہ لکھا ہے کہ اگر سنسکرت کی شاعری پر توجہ دی جاتی تو صنفی سطح پر اردو شاعری کو بہت سی وسعتیں میسر آتیں۔ ان کا یہ خیال ہے کہ ’رامائن‘ اور ’مہا بھارت‘ جیسی رزمیہ شاعری فارسی میں بھی نہیں ہے۔ انھوں نے میر، غالب، ذوق وغیرہ پر بہت تفصیلی روشنی ڈالی ہے اور اس طرح مختلف اقوام کی شاعری سے اردو کو متعارف کرایا ہے۔
امداد امام اثر اردو اور فارسی کے عمدہ شاعر تھے ان کا ایک دیوان ڈاکٹر سرورالہدیٰ نے مرتب کیا ہے جو غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی سے 2013 میں شائع ہوا۔
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
معروف شاعر امام امداد اثرؔ کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ تحسین…
اب جہاں پر ہے شیخ کی مسجد
پہلے اس جا شراب خانہ تھا
—–
تمہارے عاشقوں میں بے قراری کیا ہی پھیلی ہے
جدھر دیکھو جگر تھامے ہوئے دو چار بیٹھے ہیں
—–
کسی کا دل کو رہا انتظار ساری رات
فلک کو دیکھا کئے بار بار ساری رات
—–
روتے ہیں سن کے کہانی میری
کاش سنتے وہ زبانی میری
—–
جفائیں ہوتی ہیں گھٹتا ہے دم ایسا بھی ہوتا ہے
مگر ہم پر جو ہے تیرا ستم ایسا بھی ہوتا ہے
—–
وصل بتاں میں خوف فراق بتاں نہ تھا
گویا کہ اپنے سر پہ کبھی آسماں نہ تھا
—–
جب ادا سے وہ کرے گا قتل مجھ کو اے اثرؔ
کشتۂ شمشیر حیرت اک جہاں ہو جائے گا
—–
ذرا صیاد چل کر دیکھ تو کیا حال ہے ان کا
اسیرانِ قفس فریاد پر فریاد کرتے ہیں
—–
کیوں دیکھیے نہ حسنِ خداداد کی طرف
لازم نظر ہے گلشنِ ایجاد کی طرف
—–
بلبل نہ پھول خندۂ صبح بہار پر
ناداں کہیں یہ خندۂ دنداں نما نہ ہو
—–
آدم کی تو ماں بھی نہ تھی اے منکرِ اعجاز
عیسیٰ کو ملا صرف شرف بے پدری کا
—–
غم نہیں مجھ کو جو وقتِ امتحاں مارا گیا
خوش ہوں تیرے ہاتھ سے اے جانِ جاں مارا گیا
—–
بناتے ہیں ہزاروں زخمِ خنداں خنجرِ غم سے
دلِ ناشاد کو ہم اس طرح پر شاد کرتے ہیں
—–
دل سے کیا پوچھتا ہے زُلفِ گرہ گیر سے پوچھ
اپنے دیوانے کا احوال تو زنجیر سے پوچھ
—–
کرتا ہے اے اثرؔ دل خوں گشتہ کا گلہ
عاشق وہ کیا کہ خستۂ تیغِ جفا نہ ہو
—–
کچھ سمجھ کر اس مۂ خوبی سے کی تھی دوستی
یہ نہ سمجھے تھے کہ دشمن آسماں ہو جائے گا
—–
تیری جانب سے مجھ پہ کیا نہ ہوا
خیر گزری کہ تو خدا نہ ہوا
—–
حسینوں کی جفائیں بھی تلون سے نہیں خالی
ستم کے بعد کرتے ہیں کرم ایسا بھی ہوتا ہے
—–
زبانِ حال سے ہم شکوۂ بیداد کرتے ہیں
دہانِ زخمِ قاتلِ دم بدم فریاد کرتے ہیں
—–
کیا ہلاک عشق تیرے گیسوؤں کا تھا اثرؔ
سنبلستاں ہو گیا ہے دو جہاں مارا گیا
❂◆━━━━━▣✦▣━━━━━━◆❂
امداد امام اثرؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ